سفر یاد۔۔۔قسط19
شیئر کریں
شاہد اے خان
ہمیں انتظار تھا کہ کب میڈیکل کیلیے بلایا جاتا ہے اور کب ہم اسپرین کی گولی سے ایک ٹکڑا توڑ کر یورین ٹیسٹ کی بوتل میں ملاتے ہیں، جلال صاحب کے بتائے اس نسخے نے اگر کام کردیا تو ہماری وطن واپسی پکی تھی۔ اگلے ہی روز ہمیں ایڈمن آفس طلب کیا گیاہم سمجھ گئے میڈیکل کے لیے جانا ہوگا اس لیے بلایا گیا ہے۔ ہم نے خوشی سے بھرپور نعرہ مستانہ بلند کیا، جس سے ہمارا انچارج سیمی بھی چونک اٹھا۔ سیمی نے پوچھا کیا بات ہے کیوں اتنا خوش ہو، ایڈمن نے بلایا ہے کسی حسینہ کے ساتھ ڈیٹ پر تھوڑا ہی جارہے ہو۔ ہم نے مسکرا کر سیمی کی طرف دیکھا اور کہا واپس آکر بتاتے ہیں ہم اتنا خوش کیوں ہیں۔ اورہم خوش خوش ایڈمن آفس کی جانب روانہ ہو گئے ، تیز قدموں سے چلتے پانچ منٹ بعد ہی ہم ایڈمن دفتر کے سامنے تھے، دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہوئے سامنے مصری منیجر بیٹھا تھا ہم نے سلام دعا کی اور خاموش کھڑے ہوگئے۔ منیجر نے میڈیکل کی سلپ ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ،ڈرائیور کے ساتھ اسپتال چلے جاو¿، میڈیکل کراو¿ اور فوری واپس دفتر آجاو¿۔ ہم سلپ لیکر دوڑے دوڑے پارکنگ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ڈرائیور تیار تھا ہمیں لیکر اسپتال کیلیے روانہ ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں ہم اسپتال پہنچ گئے جہاں ہمیں میڈیکل کے مراحل سے گزرنا تھا،ہم اسپتال کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ، اسپتال میں فلپینی نرسوں کو دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا۔ ویسے تو سعودی عرب میں خواتین کم ہی دکھائی دیتی ہیں اور اگر کہیں نظر آبھی جائیں تو سر سے پیر تک سیاہ برقعے میں ملفوف ہوتی ہیں،لیکن اسپتال میں نرسیں برقع پوش نہیں ہوتیں اور اپنی مخصوص یونی فارم میں خاصی کیوٹ دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے دفتر کے ساتھی پہلے ہی ہم سے کہہ چکے تھے کہ اسپتال میں نرسیں بے حجاب گھومتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ مہینے پندرہ دن میں سر درد یا پیٹ درد کا بہانہ بنا کر وہ اسپتا ل کا چکر لگا لیتے ہیں اور اس عمل سے سر کا درد دور ہو یا نہ ہو ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ضرور مل جاتی ہے۔ سعودی عرب میںمجرد افراد کی زندگی انیسویں صدی کے ہمارے شعرا کرام کی زندگی سے بہت ملتی جلتی ہے جنہیں ہر چیز میں صرف صنف نازک ہی دکھائی دیتی تھی۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ
وجود زن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ
کچھ بات تھی تب ہی کہا تھا۔ صرف ہمارے شعرا کیا دنیا جہان کا تمام ادب صنفِ نازک کے ارد گرد ہی گھومتا ہے۔ سوچیں کہ اگر صنف نازک نہ ہوتی تو سارا کا سارا ادب اور لٹریچر کسی کام کا ہی نہ رہتا۔ صنف نازک کی بات نہ ہوتی تو حضرت میر تقی میرکس کے لبوں کی نازکی بیان کرتے ،اور مومن خاں مومن کس کیلیے کہتے
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ویسے مومن کے شعر میں تکلم مذکر سے ہے لیکن اشارہ ان کا اپنی محبوبہ کی جانب ہی ہے۔ صنف نازک نہ ہوتی توگلوں میں رنگ کیسے بھرتے اور گلشن کا کاروبار کس طرح چلتا۔
قصہ مختصر ہماری باری آئی اور ہمارا نام پکارا گیا جس کے بعد ہمیں میڈیکل چیک اپ کے لیے ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا۔اسسٹنٹ نے ہماری قمیض اور بنیان اتروا دیئے۔ جو ہم نے وہیں لگی ہوئی کھونٹی پر ٹانگ دیئے۔ یہاں ایک ڈاکٹر صاحب موجود تھے ،غالباً ان کا تعلق لیبیا سے رہا ہوگا، لمبا قد، گہرا گندمی رنگ اور گھونگریالے بال۔ انہوں نے ہمارا بلڈ پریشر چیک کیا۔ پھر آلہ لگا کر ہمارے دل کی دھڑکنیں چیک کیں ، ہماری بدقسمتی کہ اس وقت وہاں کوئی نرس موجود نہیں تھی ورنہ ہمارے دل کی دھڑکنیں کچھ بے ترتیب ہو سکتی تھیں اور یوں شائد ہم کو دل کا مریض قرار دیکر میڈیکل میں فیل کردیا جاتا۔ آہ کہ انسان کی تمام خواہشات کب پوری ہوتی ہیں، یہاں سے ہمیں برابر والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر کے ایک اسسٹنٹ نے ہمارا خون ایک سرنج میں نکالا ، کم بخت نے اس اناڑی پن سے سوئی ہماری نس میں گھسائی کہ نانی یاد آگئی۔ پھر ہمیں ایک شیشی دے کر کہا گیا کہ یورین ٹیسٹ ہوگا ساتھ ہی باتھ روم ہے وہاں چلے جائیں۔ ہماری حالت عجب ہوگئی، اس موقعے کے تو ہم کب سے منتظر تھے، اس ایک لمحے نے ہمیں وطن واپسی کے دلفریب سحر میں مبتلا کیا تھا ، اچانک ہمیں احساس ہوا کہ ہماری قمیض تو برابر والے کمرے میں ٹنگی ہے۔ قمیض کی جیب میں اسپرین کی ٹیبلٹ تھی جسے ہم نے بہت احتیاط کے ساتھ دو ٹکڑے کرکے کاغذ میں لپیٹ کر رکھا ہوا تھا۔ میڈیکل میں فیل ہونے کے لیے ضروری تھا کہ یورین میں اسپرین کی ملاوٹ کی جائے اور اسپرین قمیض کی جیب میں اور قمیض دوسرے کمرے میں تھی۔بیچ میں ایک دروازہ حائل تھا لیکن دروازے میں ڈاکٹر کا اسسٹنٹ سماج کی دیوا ر بنا کھڑا تھا۔۔۔ جاری ہے
٭٭