مفاد نہیں انصاف!!
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
عالمی طاقتیں تنازعات کاحل تلاش کرتے ہوئے انصاف پر مفاد کوترجیح دیتی ہیں ۔مفاد ہو توہی جنگ بندی میں دلچسپی لیتی ہیں۔ اسی بنا پر کشمیر وفلسطین جیسے تنازعات کئی عشروں سے حل طلب ہیں۔دنیا امن کا گہوارہ بننے کی بجائے جہنم بنتی جا رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کے شواہددیکھ کربھی انصاف کو ترجیح بنانے سے گریزکیا جارہا ہے ۔ اگر دہرا معیار چھوڑکر انصاف پر مبنی فیصلے کیے جائیں تودنیا کے سُلگتے تنازعات کا حل نکل سکتا ہے مگر ایسا ہونے سے اسلحہ کی صنعت متاثر ہو سکتی ہے۔ لڑائیاں جاری رہنے سے ہی ہتھیاروں کی تجارت کوفروغ ملتا ہے۔ اسی لیے معاشی ا سٹریجک مفاد میں تفریق نہیں کی جاتی۔ عالمی سیاست اور معیشت کچھ ایسے ایک دوسرے میں پیوست ہوئی ہیں کہ اب کوشش کے باوجود انھیں الگ کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔کچھ طاقتیں تو اپنے اسلحہ ساز اِداروں کی اِس قدر محافظ ہیں کہ کسی نہ کسی علاقے میں لڑائی یا خانہ جنگی کے حالات بنانے کی کوشش کرتی ہیں اورپھر یہ طاقتیں ایک دوسرے کے مخالف دھڑوں کی حمایت میں میدانِ عمل میں آکر اسلحہ اور افرادی قوت بھی مہیا کرنے لگتی ہیں تاکہ جنگ و جدل کا ماحول بنا رہے البتہ چند ایک لڑائیوں سے حاصل ہونے والے سبق سے اتنی احتیاط کرنے لگی ہیں کہ لڑائیوں کی چنگاریاں اُن کے گھر تک نہیں آئیں ۔
غزہ میں قیامت کا سماں ہے۔ ہزاروں بے گناہ شہادتوں کے باوجود بظاہر انسانی حقوق کی علمبردار جو بائیڈن انتظامیہ کوزرا رحم نہیں آرہا۔ ایندھن ختم ہونے سے ناصرف تباہ حال علاقے میںامدادی کاروائیاں رُک گئی ہیں ۔بلکہ ہزاروں زخمی بغیرعلاج تڑپ رہے ہیں کیونکہ نظام ِ انصاف مکمل طورپر غیر فعال ہو چکاہے جبکہ ہزاروں ملبے تلے دفن ہیں کھانے پینے کی اشیا ناپید ہیں ۔فضائی بمباری کے ساتھ لوگ بھوک و پیاس سے بھی مرنے لگے ہیں۔ ظالم اسرائیل وحشیانہ حملوں کے ساتھ بھوک کو بھی جنگی ہتھیار بنا چکاہے مگر امریکہ جیسی سُپر پاور اپنے مفاد کے لیے مظلوم فلسطینیوں کی بجائے ظالم اسرائیل کے ساتھ ہے کیونکہ اُس کا مفاد مشرقِ وسطیٰ میں خوف وہراس کی فضا رکھنے میں ہے لڑائی میںامریکہ اِس حدتک جانبدارہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل کی حمایت میں قراردادپیش کردی مگر فلسطینیوں کی بے گناہ اموات کی مذمت تک نہیں کرتاقرارداد کوروس اور چین نے مشترکہ طور پر اسی وجہ سے ویٹو کر دیاکہ یہ اسرائیل کو جارحیت کا جواز دینے کی کوشش ہے اوریہ کہ دفاع کے نام پر اسرائیل کو قتل و غارت کی کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی حماس کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے بے تاب امریکہ غزہ میں نسل کشی کو جائز تصور کرتا ہے۔ یہ پالیسی انصاف کی موت ہے۔ امریکی تائید نے اسرائیل کو اِتنا خود سر کر دیا ہے کہ وہ ہسپتالوں ،اسکولوں اور مہاجر کیمپوں کو بے دریغ اور بلا تخصیص نشانہ بنا تے ہوئے ممنوعہ کیمیائی ہتھیار سفیدفاسفورس بموں سے آگ لگارہا ہے اور سات اکتوبر کے حماس حملوں کو غنیمت جان کر غزہ سے انسانی آبادی ختم کرنے کے درپے ہے لیکن دنیا خاموش و تماشائی ہے اور انصاف کے منتظر مظلوم فلسطینی عالمی طاقتوں کے مفاد کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔اسرائیل بلاجواز بدترین بمباری سے غزہ کو کھنڈرات بنارہا ہے اوراِس وقت بارہ لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں جارح صیہونی قیادت کہتی ہے کہ اگر غزہ کے شہریوں نے زندہ رہنا ہے توغزہ کے علاوہ کہیں اور چلے جائیںاسرائیلی وزیرخارجہ ایلی کوہن نے فلسطینیوں کے حق میں بیان دینے پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات سے انکار جبکہ سفیر گیلا داردان نے بیان پر مشتعل ہو کر انتونیو گوتریس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیاہے یہ طاقت کا بدترین اظہارہے۔
امریکی اہداف واضح ہیں وہ عرب ممالک کومستقبل میں بھی مطیع فرمانبردار رکھنے کے لیے اسرائیل کی مضبوطی چاہتا ہے بس ایسا سمجھ لیں کہ اسرائیل اُس کے پاس ایسی چابی ہے جسے استعمال میں لا کروہ جب چاہے عربوں کو اپنے مفاد میں استعمال کر سکتا ہے یہ ایسابندوبست ہے جو عربوں کو چینی کیمپ میں جانے سے بھی روکنے میں کارگرہے اِن حالات میں سعودی عرب ،ترکیہ ،قطر اور متحدہ عرب امارات یکجا ہو کر کوئی لائحہ عمل بنا سکتے ہیں بدقسمتی سے یہ بھی زبانی حد تک تو چند الفاظ ادا کرتے ہیں لیکن عملی طورپر کچھ نہیں کرتے جبکہ مصری قیادت سے توقع رکھنا ہی فضول ہے کیونکہ وہ اسرائیلی مفادکی نگہبان ہے اسی لیے اہداف حاصل ہوتے دیکھ کر امریکی خوش ہیں عربوں کا اثاثے امریکہ اور مغربی ممالک میں رکھنا اور سرمایہ کاری کرنا ظاہر کرتا ہے کہ تمام ترناانصافی کے باوجودوہ بھی انھی ممالک پر اعتماد و اعتبار کرتے ہیں جویہودی ریاست کے سرپرست و ہمنوا ہیں اِس کا اسرائیلی قیادت کو بھی کامل ادراک ہے تبھی امن کے حق میں بلند ہونے والی کسی صداکو خاطر میں نہیں لاتا۔
یوکرین پر روسی حملے کی بظاہر امریکہ مذمت کرتا لیکن اسرائیلی حملے کو جائز اور حق بجانب قراردیتا ہے عالمی امور پر نظر رکھنے والے اِس خیال پر متفق ہیں کہ اسرائیل کے فلسطین اور یوکرین پر روسی حملے امریکی مفاد کے عین مطابق ہیں اور اُس کی پوری کوشش ہے کہ امن قائم نہ ہواور لڑائی جاری رہے اِس سے امریکہ کو کئی ایک فوائد حاصل ہورہے ہیں اول ناصرف اسلحہ کی کھپت بڑھنے سے آمدن میں اضافہ ہورہاہے بلکہ اسلحہ کی صنعت بھی ترقی کررہی ہے دوم ایک طرف عرب ممالک خودکوشدید خطرات میں محسوس کرتے رہیں گے بلکہ بیشتر عالمی معاملات میں امریکہ کے حلیف و معاون یورپی ممالک بھی اُسی کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوکررہ جائیں گے یہ ایسے مقاصد ہیں جن سے امریکی غلبہ طویل مدت کے لیے برقرار رہ سکتا ہے اسی لیے خدشہ ہے کہ امریکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لڑائی کے لیے حالات سازگاربناتا رہے گا تاکہ عرب اور یورپی ممالک اُس پر انحصار کرتے رہیں روس کے یوکرین اور اسرائیل کے فلسطین پر حملوں سے امریکہ کو اپنی اہمیت اُجاگر کرنے کا ایسا موقع ملا ہے جسے وہ کسی صورت گنوانانہیں چاہے گاکیونکہ جنگ میں براہ راست ملوث ہوئے بغیر اہداف حاصل ہو رہے ہیں اسی سے ماہرین یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ امریکہ امن کوششوں میں حصہ لینے کی بجائے اپنے مفاد کے لیے انصاف کی ہوتی موت کا تماشہ دیکھنے کو ترجیح دیتارہے گا ۔
روس کا جنگ جاری رکھنا مجبوری بن چکاہے اُس کا خیال ہے کہ اگر یوکرین میں فیصلہ کُن برتری ثابت کیے بغیر جنگ ختم کی تو دنیا پسپائی سمجھ سکتی ہے جس سے علاقائی اور عالمی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے اسی لیے وہ امریکہ کی افغانستان جیسی صورتحال میںانخلا پر آمادہ نہیں اب تو قوت
کے اظہار کے لیے روسی سینٹ اور ایوانِ زریں نے جوہری تجربات پر پابندی کے عالمی معاہدے کی توثیق نہ کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے یہ منظوری مغربی ممالک میں موجوداحساسِ تحفظ میں اضافے کا موجب بنے گی امریکی تائید سے اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں اپنے لیے خطرات کا مکمل طور پر خاتمہ اور خود کو محفوظ بنائے بغیر مصالحت سے انکاری ہے اور لڑائی جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتاہے جس سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی کردار کم یا ختم ہونے کا خطرہ دم توڑرہاہے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہی امریکہ نے اپنے دوعددطیارہ بردار بحری بیڑے بحیرہ روم میں ایسی جگہ بھیج دیے ہیں جہاں سے ایران اور اسرائیل دونوں زیادہ دور نہیںاِس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ کوئی اور عرب ملک فلسطین کی حمایت میں کسی کاروائی کی جرات سے بازرہے گا دوسرادنیاکویہ پیغام جائے گا کہ امریکہ جب اور جہاں چاہے فوجی سازوسامان بھیج کر اپنے حلیف کی مدد کو پہنچ سکتا ہے اور یہ دونوں مقاصد جنگ میں براہ راست ملوث ہو ئے بغیر حاصل ہوں گے یوکرین کے ہمسایہ ممالک میں فوجی سازو سامان رکھنا اور فوجیوں کی تیاری کا تاثر دینااسی سوچ کا شاخسانہ ہے جسے کسی نقصان کے بغیر اہمیت بڑھانے کا ایسا نادر موقع ملے تو وہ انصاف کی خواہش کر ہی نہیں سکتامگر دنیا کو پُرامن بنانا ہے تو مفاد کے مطابق نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کوانصاف پرمبنی فیصلے کرنا ہوں گے۔