میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت، فیس بک اور نفرت انگیز مہم

بھارت، فیس بک اور نفرت انگیز مہم

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

شیرا فرینکل

4 فروری 2019ء کو ایک فیس بک ریسرچر نے یہ دیکھنے کے لیے ایک نیا صارف اکائونٹ کھولا کہ اسے بھارتی ریاست کیرالا میں رہتے ہوئے سوشل میڈیا پر کیسا تجربہ ہوتا ہے۔ اگلے تین ہفتے تک اس نے اپنے اکائونٹ کو ان سیدھے سادے رولز کے تحت چلایا : کسی بھی گروپ کو جوائن کرنے کے لیے فیس بک الگورتھم کے ذریعے دی گئی تمام سفارشات کو فالو کرو، وڈیوز کو دیکھو اور سائٹ پر نئے پیجز کی تلاش کرو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نفرت انگیز بیانات، مس انفارمیشن اور تشدد ا?میز کارروائیوں پر جشن منانے کا ایک سیلاب آگیا جسے اس مہینے کے آخر پر فیس بک کی انٹرنل رپورٹ میں شائع کیا گیا۔
فیس بک ریسرچر نے لکھا ہے ’’صارف کی اس ٹیسٹ نیو ز فیڈ کو فالو کرتے ہوئے میں نے جتنی انسانی لاشیں دیکھی ہیں‘ اتنی شاید میں نے اپنی پو ری زندگی میں نہیں دیکھیں ‘‘۔یہ رپورٹ درجنوں سٹڈیز کی مدد سے ان فیس بک ملازمین نے لکھی ہے جنہیں بھارت میں فیس بک پلیٹ فارم کے اثرات سے واسطہ پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کے ایکٹوسٹس اور سیاستدان جس طرح فیس بک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اس رپورٹ میں اس حوالے سے بڑے واضح اور ٹھوس ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔ فیس بک بھارت کے مقامی کلچر اور سیاست پر پڑنے والے سنگین اثرات کا ادراک کیے بغیر پورے ملک میں مصروفِ عمل ہے اور جب اس کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں تو یہ ان سے نمٹنے کے لیے وسائل فراہم کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ چونکہ یہاں 340ملین صارفین ہیں جو فیس بک کے کئی سوشل میڈیاز کا استعمال کرتے ہیں اس لیے بھارت فیس بک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔
فیس بک کو پوری دنیا میں جتنے مسائل کاسامنا کرناپڑا ہے برصغیر میں اسے ان سے کئی گنا زیادہ ایشوز درپیش ہیں۔ بھارت میں 22 سرکاری زبانوں، وسائل اور مہارت کے فقدان کی وجہ سے درپیش مسائل کی نوعیت مزید سنگین ہو گئی ہے۔ نیو یارک ٹائمزسمیت نیوز آرگنائزیشنز کے کنسورشیم نے جتنے بھی داخلی ڈاکیومنٹس حاصل کیے ہیں وہی اس مواد کا بڑا حصہ ہیں جسے ’’فیس بک پیپرز‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تمام مواد فرانسس ہاگن نے جمع کیا ہے جوفیس بک کے سابق پروڈکٹ منیجر رہ چکے ہیں اوربعد ازاں مخبر بن گئے تھے‘ حال ہی میں انہوں نے امریکی سینیٹ کی سب کمیٹی کے سامنے فیس بک اور اس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے متعلق حلفیہ شہادت بھی دی ہے۔ اسی ماہ فرانسس ہاگن نے امریکا کے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کو جو شکایت درج کرائی ہے بھارت سے متعلق ریفرنسز اس کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ ان ڈاکیومنٹس میں وہ رپورٹس بھی شامل ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح لاکھوں جعلی اکائونٹس حکمران جماعت اور اپوزیشن سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ کس طرح قومی الیکشن پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ ان میں یہ تفصیلات بھی درج ہیں کہ کس طرح فیس بک کے چیف ایگزیکٹو مارک زکر برگ نے ایک منصوبہ بنایا جس کا مقصد دوستوں اور فیملی ممبرز کے ’’اہم انٹریکشنز‘‘ اور ان کے باہمی روابط پر فوکس کرنا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں خاص طور پر کووڈ کے دوران مس انفارمیشن کا سیلاب آگیا۔
بھارت میں فیس بک کے پاس وافر وسائل نہیں ہیں اور اس نے یہاں جو مسائل پیداکرائے تھے ان سے نمٹنے میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مواد کی رو سے سب سے خطرناک بات مسلم مخالف پوسٹس لگانا تھا۔ کمپنی مس انفارمیشن کو کلاسیفائی کرنے پر صرف ہونے والے ٹائم کے لیے جتنا بجٹ رکھتی ہے اس کا 87 فیصد صرف امریکا کے لیے مختص ہوتا ہے اور اس بجٹ کا محض 13 فیصد باقی پوری دنیا کے لیے رکھا جاتا ہے حالانکہ شمالی امریکاکے صارفین فیس بک کے سوشل نیٹ ورکس کے ایکٹو صارفین کا صرف 10 فیصدبنتے ہیں۔
فیس بک ترجمان اینڈی سٹون کے مطابق‘ یہ اعدادوشمار نامکمل ہیں اور یہ کمپنی کے تھرڈ پارٹی فیکٹ چیکنگ پارٹنرز میں شامل نہیں ہیں جو کہ زیادہ تر امریکا سے باہر رہتے ہیں۔ امریکا پر اس طرح یک طرفہ فوکس کر نے سے بھارت کے علاوہ کئی دیگر ممالک پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کمپنی کے ڈاکیومنٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے نومبر میں میانمار میں ہونے والے الیکشن کے وقت مس انفارمیشن کے تدارک کے لیے کئی اقدامات کیے تھے مگر کمپنی نے الیکشن کے بعد وہ تمام اقدامات رول بیک کر دیے تھے حالانکہ پتا چلا تھا کہ اس نے آگ لگانے والی پوسٹس کو 25 فیصد اور مس انفارمیشن والی پوسٹس کو 48.5 فیصد تک کم دکھایا تھا مگر الیکشن کے تین ماہ بعد فوج نے منتخب حکومت کے خلا ف بغاوت کر دی تھی۔ فیس بک کا موقف ہے کہ اس نے بغاوت ہونے کے بعد سپیشل پالیسی کے تحت ملک میں تشدد اور خوشامدانہ پوسٹس کوہٹا دیا تھا اور بعد میں میانمار کی فوج کے لیے فیس بک اور انسٹاگرام پر پابندی لگا دی تھی۔ سری لنکا میں خود بخود ہزاروں صارف اکائونٹس کھل گئے جن میں تشدد اور نفرت پر مبنی مواد پوسٹ کیا گیا تھا۔ اسی طرح ایتھوپیا میں قوم پرست جوانوں کی ملیشیا نے فیس بک پر تشدد آمیز اور نفرت پر مبنی پوسٹس لگا دی تھیں۔ مسٹر ا سٹون کا کہنا ہے کہ فیس بک نے ہندی اور بنگالی سمیت کئی زبانوں میں نفرت انگیز مواد کا کھوج لگانے والی ٹیکنالوجی پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر کے لوگ سال میں جتنا نفرت انگیز مواد فیس بک پر دیکھتے ہیں‘ کمپنی نے اسے آدھا کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور دنیا بھر میں پسے ہوئے طبقات خاص طورپر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم عملی اقدامات کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ نفرت انگیز مواد زیادہ تر آن لائن پھیلایا جا رہا ہے۔ کیٹی ہرباتھ‘ جو دس سال تک فیس بک پر ڈائریکٹر پبلک پالیسی رہ چکی ہیں اور انہوں نے خاص طور پر بھارتی الیکشنز کو محفوظ بنانے پر کام بھی کیا تھا‘ کا کہنا ہے کہ بھارت میں یقینا فیس بک کے لیے وسائل کی فراہمی سب سے اہم سوال ہے مگر اس کاجواب محض مسئلے پر پانی کی طرح پیسہ بہانا نہیں ہے۔ فیس بک کو چاہئے کہ اس کا ایسا حل نکالے جس پر دنیا بھر میں عمل درآمد کیا جائے۔
فیس بک ملازمین نے بھارت میں کئی سال تک ٹیسٹ اور فیلڈسٹڈیز کی ہیں۔ یہ کام 2019میں بھارت میں ہونے والے قومی الیکشن کے دوران مزید بڑھ گیا تھا اور اس دوران فیس بک کے بہت سے ملازمین نے بھارت کا دورہ کیا تھا اور اپنے کولیگز کے علاوہ فیس بک کے درجنوں صارفین سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔ اس دورے کے بعد جو رپور ٹ مرتب کی گئی تھی اس میں صارفین کی یہ درخواست بھی شامل تھی کہ فیس بک بھارت میں ایسی مس انفارمیشن پھیلانے والوں کے خلاف ایکشن لے جو سیاسی او رمذہبی گروپس میں شامل ہو کر نفرت انگیزی میں مصرو ف ہیںجس روز ریسرچرز نے مس انفارمیشن کو سٹڈی کرنے کے لیے جعلی اکائونٹس کھولے‘ اس سے اگلے دن کشمیر کے متنازع سرحدی علاقے میں خود کش حملہ ہو گیا جبکہ بھارتی اور پاکستانی شہریوں کے مابین مس انفارمیشن اور سازشوں کے الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حملے کے بعد فیس بک کے ان منتخب گروپس پر پاکستان مخالف مواد سرکولیٹ ہونا شروع ہو گیا جنہیں ریسرچر نے جوائن کیا تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ بہت سے گروپس کے پاس ہزاروں صارف تھے۔ 2019ء میں فیس بک نے ایک مختلف رپورٹ شائع کی تھی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ فیس بک کے بھارتی صارفین زیادہ تر بڑے گروپس کو جوائن کرنا چاہتے تھے، بھارت میں اوسط سائز کے گروپ کے پاس بھی 1 لاکھ 40 ہزار ممبرز موجود ہوتے ہیں۔ ریسرچر نے جن گروپس کو جوائن کیا تھا ان میں گرافک پوسٹس کی بھرمار تھی جن میں شامل ایک مِیم میں ایک پاکستانی شہری کا سر قلم ہوتے اور سفید کفن میں لپٹی اس کی لاش کو زمین پر پڑے دکھایا گیا تھا۔ جب ریسرچر نے اپنا کیس سٹڈی اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئر کیا تو انہوں نے پوسٹ کی ہوئی رپورٹ پر کمنٹس دیے کہ انہیں بھارت میں ہونے والے اگلے الیکشن کے حوالے سے پھیلنے والی مس انفارمیشن پر گہری تشویش ہے۔
ایک خفیہ دستاویز جسے ’’انڈین الیکشن کیس سٹڈی‘‘ کا نام دیا گیا تھا‘ کے مطابق دو مہینے بعد جب بھارت میں قومی الیکشن شروع ہو گئے تو فیس بک نے ملک میں مس انفارمیشن اور نفرت انگیز مواد کی اشاعت روکنے کے لیے اقدامات کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اس کیس ا سٹڈی نے فیس بک کی کوششوں کے ضمن میں ایک مثبت تاثر پیدا کیا جس میں مزید فیکٹ چیک پارٹنرز اور آئوٹ لیٹس کے تھرڈ پارٹی نیٹ ورکس شامل تھے جن کی مدد سے فیس بک فیکٹ چیکنگ کو آئوٹ سورس کرنے کے ساتھ ساتھ مس انفارمیشن کی بھاری تعداد کو ہٹاتی ہے۔ اس میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ فیس بک نے کس طرح ’’پی آر رسک کو محدود کرنے والی سفید سیاسی فہرست‘‘ مرتب کی تھی، یہ ان سیاست دانوں کی فہرست تھی جنہیں فیکٹ چیکنگ کی چھلنی سے استثنا حاصل تھا۔ سٹڈی میں اس سنگین مسئلے پر غور نہیں کیا گیا جس کا فیس بک کو باٹس (فیکٹ چیکنگ کا خودکار سافٹ ویئر) کی شکل میں سامنا کرنا پڑا تھا اور نہ ہی ووٹرز پر دبائو ڈالنے جیسے معاملے پر توجہ دی گئی تھی۔ فیس بک نے سیاسی گروپس سے جڑے باٹس اور جعلی اکائونٹس میں اضافے کے ساتھ ساتھ مس انفارمیشن پھیلانے والی ان کوششوں کا بھی مشاہدہ کیا جو لوگوں کی سیاسی عمل کو سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہیں۔
الیکشن کے بعد ایک الگ رپورٹ میں فیس بک نے انکشاف کیا کہ بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں پائے جانے والے تاثرات اور ویوز میں سے 40 فیصد ’’جعلی یا غیر مستند‘‘ تھے۔ ایک غیر مستند اکائونٹ میں 30 ملین سے زیادہ امپریشن یعنی تاثرات موجود تھے۔ مارچ 2021ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019ء کے الیکشن کے وقت موجود مسائل آج بھی اسی طرح پائے جاتے ہیں۔ فیس بک کے ’’ایڈورسیئل ہارم فل نیٹ ورکس: انڈیا کیس سٹڈی‘‘ نامی انٹرنل ڈاکیومنٹ میں ریسرچرز نے لکھا ہے کہ ایسے فیس بک گروپس اور پیجز موجود تھے جو گمراہ کن مسلم مخالف اور نفرت انگیز مواد سے بھرے پڑے تھے‘‘۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسی بہت سی غیر انسانی پوسٹس موجود تھیں جن میں مسلمانوں کا جانوروں سے موازنہ کیا گیا تھا اور ایسے مبالغہ ا?میز دعوے کیے گئے تھے کہ مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب مسلمان مردوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کی خواتین پر ظلم و زیادتی کریں۔
فیس بک گروپس میں سرکولیٹ ہونے والے زیادہ تر مواد کا مقصد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو پرموٹ کرنا تھا جو بھارت کا دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا قوم پرست پارلیمانی گروپ ہے۔ ان گروپس نے ایسے ایشوز اٹھائے تھے مثلاً مغربی بنگال اور پاکستان سے ملحق سرحدی علاقوں میں بسنے والی مسلمان اقلیت کی آبادی میں اضافہ وغیرہ اور فیس بک پر لگی ان پوسٹس میں مسلمان آبادی کو بھارت سے بے دخل کر نے اور مسلمان آبادی کو کنٹرول کرنے سے متعلق قوانین کو مزید سخت بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ فیس بک کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک اور علم تھا کہ اس کے پلیٹ فارم سے ایسی نقصان دہ پوسٹس میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس رپورٹ میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ اسے اپنے کلاسیفائیڈ مواد کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے جو ایک خودکار نظام کے تحت کام کرتا ہے اور یہ ایسی پوسٹس کی نشاندہی کرکے انہیں سوشل نیٹ ورک سے ہٹا دیتا ہے جن میں تشدد پر اْکسانے اور نفرت پھیلانے والی زبان استعمال کی گئی ہو۔ فیس بک سیاسی حساسیت کے پیش نظر آر ایس ایس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے سے بھی گریز کر رہی تھی کیونکہ اس فیصلے کی وجہ سے اس کا بھارت میں سوشل نیٹ ورک ا?پریشن متاثر ہو سکتا ہے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ بھارت میں 22 زبانیں ایسی ہیں جنہیں سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور کمپنی نے اپنے اے ا?ئی سسٹم کو ان میں سے صرف 5 زبانوں کی ٹریننگ دی ہوئی ہے (اس کا کہنا ہے کہ باقی زبانوں کے ریویو کے لیے ہم نے ملازمین رکھے ہوئے ہیں) مگر ابھی تک ہندی اور بنگالی کے لیے اس کے پاس اتنا ڈیٹا موجود نہیں ہے کہ مواد کی مناسب جانچ پڑتا ل کی جا سکے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے زیادہ تر مواد کی نشاندہی کی جاتی ہے نہ اس کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے۔
ابھی پانچ مہینے پہلے تک فیس بک اس کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ اپنے سوشل نیٹ ورکس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد کو موثر طریقے سے ہٹا دیا جائے۔ کمپنی کی ایک رپورٹ میں بجرنگ دَل کی کوششوں کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں جو ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایک انتہا پسند گروپ ہے اور مختلف سوشل نیٹ ورکس پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد پر مبنی بیانیہ پھیلانے میں ملوث ہے۔ ڈاکیومنٹس سے پتا چلتا ہے کہ فیس بک اس بات پر غورکر رہی ہے کہ بجرنگ دل کو ایک خطرناک تنظیم قرار دے دیا جائے کیونکہ یہ اس کے پلیٹ فارم سے لوگوں کو مذہبی منافرت کی بنیاد پر تشدد کے لیے اکسا رہی ہے مگر تاحال اس نے اس سمت میں کوئی عملی اقدام نہیں کیا ہے۔ فیس بک پر بجرنگ دل کے میسجز کو فروغ دینے کے لیے رضاکار بھرتی کرنے کے لیے دی گئی ایک پوسٹ میں کہا گیا تھا ’’گروپ کو جوائن کریں اور اسے چلانے میں ہاتھ بٹائیں۔ دوستو! اس گروپ کے ممبرز کی تعداد میں اضافہ کریں۔ سچ اور انصاف کے لیے جد وجہد کریں جب تک کہ ظالموں کو نیست ونابود نہیں کر دیا جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں