میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجلی چوری روکنے کیلئے بغیر وارنٹ گرفتاری کی تجویز

بجلی چوری روکنے کیلئے بغیر وارنٹ گرفتاری کی تجویز

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں بجلی چوری روکنے کیلئے ملوث افراد کے خلاف کارروائی کیلئے بغیر وارنٹ گرفتاری کی تجویز دیدی گئی ۔ بدھ کو چوہدری سالک حسین کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی بجلی کا اجلاس ہوا جس میں سیف الرحمن نے کہاکہ اجلاس میں سی ای او کے الیکٹرک کو آنا تھا جبکہ یہاں ان کا نمائندہ آیا ہے ۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ کمیٹی نے سی ای او کے الیکٹرک کو طلب نہیں کیا کے الیکٹرک حکام کو ہی طلب کیا تھا ۔ ریاض پیر زادہ نے کہاکہ ڈسکوز کے دور داز علاقوں میں مقامی افراد کی بجائے اسلام آباد سے غیر مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے ، غیر مقامی لوگ زیادہ وقت چھٹی لے کر تبادلے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شازیہ مری نے کہاکہ تعزیرات پاکستان میں وزارت بجلی کی ترامیم سے پولیس کے اختیارات بڑھ جائیں گے ۔ شازیہ مری نے کہاکہ بجلی چوری پر محکمہ کو زیادہ کام کرنا چاہیے ، چوہدری سالک حسین نے کہاکہ جن علاقوں میں محکمہ نہیں جا سکتا اس لیے پولیس کی بات کی گئی ۔ شازیہ مری نے کہاکہ بجلی ہر لوگوں کے مسائل ہیں اور انکی بغیر وارنٹ گرفتاری جائز نہیں ۔ حکام وزارت بجلی نے کہاکہ بجلی چوری بہت زیادہ ہے اس لیے بغیر وارنٹ گرفتاری کی تجویز دی ۔ حکام نے کہاکہ پہلے مقدمہ درج ہو گا پھر گرفتاری ہو گی ، اس کی ضمانت ہو سکے گی ۔ سیکرٹری پاور علی رضابھٹہ نے کہاکہ ڈسکوز میں 10 فیصد سے 25 فیصد سے زائد نقصانات ہیں ، بجلی چوری روکنے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ساحرہ بانو نے کہاکہ بجلی کا محکمہ ڈیمانڈ نوٹس سے میٹر اور ٹرانسفارمر تک پیسے مانگتا ہے ۔ شازیہ مری نے کہاکہ چوری کا تعین کون کرے گا وہ افراد جو خود چوری کروانے میں ملوث ہیں ، کم از کم گریڈ 17 کا افسر درخواست دے ۔ لعل چند نے کہاکہ سندھ میں پانی چوری پر بھی ایف آئی آر ہوتی ہے ، بجلی چوری پر بھی ایف آئی آر درج ہونی چاہیے ۔ ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے کہاکہ بجلی چوری روکنے کا قانون کمزور ہے اسکو سخت کرنے کی ضرورت ہے ۔ شازیہ مری نے کہاکہ وزارت خزانہ کے حکام اس قانون پر رائے نہیں دے سکتے ، اس بات کا تعین کون کرے گا کہ بجلی چوری ہو رہی ہے محکمے کے لوگوں کی مرضی چلے گی ، بجلی چوری صارف خود نہیں کرتا اس میں محکمے کے لوگ ملوث ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ محکمے والے بجلی چوری اور اوور بلنگ میں ملوث ہیں انکو مزید اختیار دینا سود مند نہیں ، گرفتاری کلچر کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے ۔ انہوںنے کہاکہ پہلے محکمے میں چوری روکنے کیلئے اصلاحات کی جائیں ۔ لعل چند نے کہاکہ حسیکو والوں کو بجلی چور مارتے پیٹتے ہیں اسکی بھی ایف آئی آر نہیں ہوتی ۔ ریاض پیر زادہ نے کہاکہ گرفتاری کلچر کی بجائے سخت جرمانہ کیا جائے ، موٹر وے کی طرز پر گرفتاری کی بجائے جرمانہ عائد کیا جائے ۔ شازیہ مری نے کہاکہ سارا قصور صارف پر ڈالا جا رہا ہے ،سندھ میں 20 گھنٹے بجلی نہیں ہوتی اب گرفتاری کے اختیارات دے کر عوام کے مسائل نہ بڑھائے جائیں ، وزارت بجلی پہلے یہ بتائے کہ دو سالوں میں بجلی چوری پر کتنے افسران اور اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی ہے۔کمیٹی نے قانون میں ترمیم کا معاملہ مزید غور کیلئے آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا ۔ چوہدری سالک حسین نے کہاکہ آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت بجلی نے گزشتہ مالی سال میں 3 ہزار ارب روپے کے اضافی اخراجات کیے ۔ ایڈیشنل سیکرٹری پاور نے کہاکہ حکومت کے پاس بجلی بل پر سرچارج عائد کرنے کے اختیارات ہیں ، حکومت کے پاس اپنی مرضی سے بجلی کا ٹیرف مقرر کرنے کا اختیار نہیں ،بجلی بلوں کی سو فیصد ریکوری نہیں ہے ، بجلی کارخانوں کو ایک ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہے ۔ایڈیشنل سیکریٹری پاور نے کہاکہ آئی پی پیز کے واجبات ادائیگی کیلئے یا بینکوں سے قرض لیں یا صارفین سے وصول کریں ،بجلی کے نرخ بڑھانے مشکل ہیں اس لیے سرچارج عائد کرنے کی اجازت طلب کی ہے ۔ حکام کے مطاب قنیپرا قانون کے تحت سرچارج عائد نہیں کیا جا سکتا تاہم گردشی قرضے کو ختم کرنے کیلئے اس کی اجازت مانگی گئی ہے ،پاور ڈویژن کی سرچارج تجویز کی منظوری ای سی سی اور وفاقی کابینہ دے گی ، سرچارج لگانے کے اصول زیر غور قانون میں طے کیے جائیں گے ۔ چوہدری سالک حسین نے کہاکہ ہمیں اس بات پر تحفظات ہیں کہ حکومت آسان حل تلاش کر رہی ہیں ، حکومت آئی پی پیز کی ادائیگی کیلئے سرچارج لگانا چاہتی ہے ، بجلی چوری روکنے اور بلوں کی سو فیصد وصولی کیلئے کیا پروگرام ہے ۔ حکام کے مطابق بجلی بلوں میں نیلم جہلم سرچارج عائد ہے ، اس وقت نئے بجلی منصوبوں کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے 43 پیسے کا سرچارج عائد ہے ، چوہدری حسین نے کہاکہ وزارت بجلی کا مقصد کیا ہے یہ کتنے عرصے میں ختم کیا جائے گا ، سرچارج عائد کرنے کے مدت ہونی چاہئے ۔ عامر ڈوگر نے کہاکہ قانون سازی عوام کے مفاد میں ہونا چاہیے کیموفلاج کر کے قانون نہ بنوائیں ۔ ساحرہ بانوں نے کہاکہ آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کی تفصیلات بھی کمیٹی کے سامنے پیش کی جائیں ۔ حکام نے کہاکہ سرچارج سارے صارفین پر نہیں بلکہ حکومت فیصلہ کرے گی کہ کن صارفین پر عائد ہو گا ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں