چراغِ محبت
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
سیرت کا کون ساگوشہ ہے جس پر نہیں لکھا گیا ؟ کون سا پہلو ہے جس پر نہیں کہا گیا ؟ کون سی زبان ہے جو مدح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آراستہ نہ ہوئی ہو ؟ یقیناً کوئی گوشہ کوئی پہلو ایسا نہیں جس پر خامہ فرسائی نہ کی گئی ہو ، تعبیرات کے شہ پارے ، خطابت کے شاہکار منظوم جواہر پارے لیکر ادیب و خطیب و شاعر دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں ، عبادت سمجھتے ہیں ، انداز سب کا عاشقانہ ، ہر ایک کا والہانہ ، اس لئے نہیں کہ سیرت سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حاجت ہے کہ جمال سیرت تو ان سب سے مستغنی و بے نیاز …. تاہم لفظوں کے جس صدف کو ابر سیرت چھوگیا ، وہ گوہر میں ڈھل گیا….ولکن مدحت مقالتی بمحمد ….کیا کوئی زبان ایسی ہے جہاں ادب کی فضائیں حضورِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں سلام نہ کہتی ہوں ، پیام نہ دیتی ہوں…. ؟ نہیں اور قطعاً نہیں ، اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک پہلو ہے محبوبیت و عقیدت کا ، دلوں میں آپ کے احترام و عظمت کا ، شاہ ہو کہ گدا ، فقیر ہو کہ امیر ، عاصی ہو کہ پاک باز ، بندہ¿ مو¿من کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا چراغ روشن رہتا ہے ، یہ چراغ ….چراغ محبت سرمایہ¿ ملت بھی ہے اور سرمایہ¿ ملت کا نگہبان بھی ، گناہوں سے آلودہ ، معاصی کا خوگر ، لا اُبالی و آوارہ ، ہر سو غفلت کے چھائے ہوئے اندھیاروں میں گھرا؛ ایک امتی¿ ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب نام ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم“ کا آجائے تو اس کی آنکھوں میں عقیدت کا نور ، محبت کا سرور جھلکنے لگتا ہے ،دو مثالیں پڑھیے ! ایک شاہ و حکمران کی ، دوسری ایک شاعرخراباتی کی ، شرابی وکبابی کی:
(۱)….بادشاہ ناصر الدین محمود کے ایک خاص مصاحب کا نام ” محمد “ تھا ، بادشاہ اسے اسی نام سے پکارا کرتا تھا ، ایک دن انہوں نے خلاف معمول اسے ”تاج الدین “ کہہ کر آواز دی ، وہ تعمیل حکم میں حاضر تو ہوگیا ، لیکن بعد میں گھر جاکر تین دن تک نہیں آیا ، بادشاہ نے بلاوابھیجا تین روز تک غائب رہنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا : ”آپ ہمیشہ مجھے ” محمد “ کے نام سے پکارا کرتے ہیں، لیکن اس دن آپ نے ” تاج الدین “ کہہ کر پکارا ، میں سمجھا کہ آپ کے دل میں میرے متعلق کوئی خلش پیدا ہوگئی ہے ، اس لئے تین دن حاضر خدمت نہیں ہوا “ ناصرالدین نے کہا : ” واللہ ! میرے دل میں آپ کے متعلق کسی قسم کی کوئی خلش نہیں ” تاج الدین “ کے نام سے تو میں نے اس لئے پکارا تھاکہ اس وقت میرا وضو نہیں تھا اور مجھے ” محمد “ جیسا مقدس نام بغیر وضو کے لینامناسب معلوم نہیں ہوا ۔
( تاریخ فرشتہ :ج اوّل ص ۶۷۲ )
(۲)….اختر شیروانی اردو مشہور شاعر گزرے ہیں ، لاہور کے عرب ہوٹل میں ایک دفعہ کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے ، اختر شیروانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی ، اس وقت تک وہ دو بوتلیں چڑھاچکے تھے ، اور ہوش قائم نہ تھے ، تمام بدن پر رعشہ طاری تھا ، حتیّٰ کہ الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے ، اِدھر ” ا¿نا “کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے ، جانے کیا سوال زیر بحث تھا ، فرمایا: ”مسلمانوں میں تین شخص اب تک ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینیس بھی ہیں ، اور کامل الفن بھی ، پہلے ابو الفضل ، دوسرے اسد اللہ خان غالب ، تیسرے ابو الکلام آزاد …. “ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے ، ہم عصر شعراءمیں جو واقعی شاعر تھا ، اسے بھی اپنے سے کم ترخیال کرتے تھے ، کمیونسٹ نوجوانوں نے ” فیض “ کے بارے میں سوال کیا ، طرح دے گئے ، ” جوش ‘‘ کے متعلق پوچھا ، کہا: وہ ناظم ہے”سردار جعفری “کا نام لیا ، مسکرائے ، ” فراق “ کا ذکر چھیڑا ”ہوں ہاں “ کرکے چپ ہوگئے ”ساحر لدھیانوی “ کی بات کی ، سامنے بیٹھا تھا، فرمایا : مشق کرنے دو ” ظہیر کاشمیری “ کے بارے میں کہا : نام سنا ہے ، احمد ندیم قاسمی ؟ فرمایا : ” میرا شاگرد ہے ….“ نوجوانوں نے دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں ، تو بحث کا رخ پھیر دیا ، حضرت ! فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے ؟“ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ، نشہ میں چور تھے ، زبان پر قابو نہیں تھا ، لیکن چونک کر فرمایا …. : ” کیا بکتے ہو ….؟ ادب و انشاءیا شعر و شاعری کی بات کرو! “ کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا ،ان کے مکالمات کی بابت کیا خیال ہے؟ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا ، مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے ، فرمایا ….: ’ ’ اجی ! پوچھو یہ کہ ہم کون ہیں ؟ یہ ارسطو ، افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے ، ہمیں ان سے کیا کہ ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں ؟ “ …. اس لڑکھڑائی ہوئی آواز سے فائدہ اٹھا کر ایک ظالم قسم کے کمیونسٹ نے سوال کیا : ” آپ کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے؟“ …. اللہ اللہ ، ایک شرابی ،جیسے کوئی برق تڑپی ہو ، بلّور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا …. ”بدبخت ! ایک عاصی سے سوال کرتا ہے، ایک سیہ روسے پوچھتا ہے ، ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے ؟ “ تمام جسم کانپ رہا تھا ، ایکا ایکی رونا شروع کردیا ، گھگھی بندھ گئی ” ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا ، تمہیں جرا¿ت کیسے ہوئی ؟ “ گستاخ ! بے ادب ” باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار! “ اس شریر سوال پر توبہ کرو ، تمہارا خبث باطن سمجھتا ہوں “ …. خود قہر و غضب کی تصویر ہوگئے ، اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں اس نے بات کو موڑنا چاہا ، مگر اختر کہاں سنتے تھے اسے اٹھوادیا ، پھر خود اٹھ کر چلے گئے، تمام رات روتے رہے ، کہتے تھے ” یہ لوگ اتنے نڈر ہوگئے ہیں کہ آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں ،میں گنہگار ضرور ہوں ، لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں“۔( مجھے ہے حکم اذاں : ص ۷۱ ، ۸۱ )
دیکھا آپ نے ایک گنہگار امتی¿ ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق والہانہ ، عشق رسول میں ڈوبی ہوئی اختر شیروانی کی یہ نعت بھی پڑھیے:
اگر اے نسیم سحر ترا گزر ہو دیارِ حجاز میں
مری چشم تر کا سلام کہنا حضور بندہ نواز میں
تمہیں حدّ عقل نہ پاسکی فقط حال اتنا بتا سکی
کہ تم ایک جلوہ¿ راز تھے جو عیاں ہے رنگ مجازمیں
نہ جہاں میں راحت جاں ملی نہ متاع امن و اماں ملی
جو دوائے درد نہاں ملی تو ملی بہشت حجاز میں
عجب اک سرور سا چھا گیا ، میری روح و دل میں سماگیا
تیرا نام نازسے آگیا مرے لب پہ جب بھی نماز میں
کروں نذر نغمہ¿ جاں فزا میں کہاں سے اختر بے نوا
کہ سوائے نالہ¿ دل نہیں ہے مرے دل کے غم زدہ ساز میں