میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میں کون ہوں؟

میں کون ہوں؟

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۹ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
عام طورپرہیومن کاترجمہ انسان کرکے یہ سمجھاجاتاہے کہ انسان توبس انسان ہی ہوتاہے،چاہے مشرق کاہویامغرب کامگریہ معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ ہے۔درحقیقت ہرتہذیب (نظام زندگی)کاایک اپنامخصوص تصورانفرادیت ہوتاہے۔اس تصورانفرادیت کے تعین کی بنیاد اس سوال کاجواب ہے کہ”میں کون ہوں؟”زندگی کامقصدکیاہے،خیرکیاہے، شر کیا ہے وغیرہ جیسے سوالات کاجواب، اسی بنیادی سوال کے جواب سے طے پاتے ہیں)۔بالعموم تاریخی طورپراس سوال کاجائزمقبول عام جواب یہ رہاہے کہ”میں عبد(مسلمان) ہوں ” اور طویل عرصے تک اسی تصورانفرادیت کوانسانیت کاجائزاظہارسمجھاجاتارہاہے۔اگرچہ پچھلے ادوارمیں اس کے برعکس جواب دینے والے افراد اورمعاشرے بھی موجودرہے ہیں البتہ اکثریت معاشرے(جیسے تمام مذہبی معاشرے)اسی مذہبی تصور انفرادیت پرمبنی تھے۔
سترھویں اور18ویں صدی عیسوی کے یورپی معاشروں میں تحریک تنویرکے زیراثراس سوال کاایک اورجواب عام ہوناشروع ہوا (جو آج ان معاشروں میں بہت راسخ ہوچکا) جس کے مطابق”میں عبدنہیں بلکہ آزاد اورقائم بالذات ہو”۔اس تصور ذات کی ابتدا ڈیکارٹ کے جملے”میں سمجھتاہوں اس لئے لگتاہے”سے ہوتی ہے،جس کے مطابق کائنات کی واحد ہستی جواپنے ہونے کاجواز خود اپنے اندررکھتی ہے نیزجوہرقسم کے شک وشبہ سے بالاتراور منبع علم ہے وہ اکیلی ذات”میں”یعنی ہوں)۔اس آزاداورقائم بالذات تصورذات کوتنویری فکر میں ”ہیومن”کہاجاتاہے۔ہیومن اپنی بندگی کی نفی اورصمدیت کادعوی کرتاہے،دوسرے لفظوں میں ہیومن ”اللہ کا باغی”تصورذات یاانسان ہے۔
مشہورمغربی فلسفی فوکوکہتاہے کہ”ہیومن”انسانی تاریخ میں پہلی بارسترھویں صدی میں پیداہوا…..ان معنی میں نہیں کہ اس سے قبل دنیا میں انسان نہیں پائے جاتے تھے اورنہ ہی ان معنی میں کہ یہ کوئی زیادہ عقل مندانسان تھااورپہلے کیانسان جاہل وغیرہ تھے بلکہ ان معنی میں کہ اس سے قبل کسی انسانی تہذیب اورنظام فکرمیں آزادی کوانفرادیت کے جائزاظہار کا مقصدسمجھااورقبول نہیں کیا گیا(گویایہ کفروالحادکی ایک جدید شکل تھی)۔اس سے قبل انسانیت کیلئے لفظ”مین کائنڈ”(اللہ کی رعایاومخلوق)استعمال کیاجاتا تھا، ہیومینیٹی کاتصور سترھویں صدی میں وضع کیاگیا۔ہیومن ازم کا ڈسکورس درحقیقت اسی تصورہیومن سے نکلتاہے جس کے مطابق انسانیت کی بنیادی صفت آزادوقائم بالذات ہونا ہے اورعقل کا مطلب اس انسانی آزادی میں اضافے(یعنی انسان کوعملاقائم بالذات بنانے )کو بطور مقصد حیات قبول کرناہے۔ ہیومینیٹی جدید مغربی الحادکانہایت کلیدی تصورہے اور تنویری فکر سے برآمدہونے والے مختلف مکاتب فکر(مثلا لبرل ازم،سوشل ازم،نیشنل ازم وغیرہم) اسی تصورہیومینیٹی کے مختلف نظرئیے،تعبیرات وتوجیہات ہیں۔
جولوگ تصورذات کے تعین میں ایمانیات کی بنیادی اہمیت سے ناواقفیت کی بناپریہ کہتے ہیں کہ”انسان توبس انسان ہے”وہ انتہائی سطحی بات کرتے ہیں(زندگی کامقصد،خیروشر،علم ،حق اورعدل کے تصورات،معاشرتی وریاستی نظم کی تشکیل وغیرہم اس سوال کاجواب تبدیل ہونے سے یکسرتبدیل ہوجاتے ہیں)۔آسان مثال سے سمجھئے کہ حضرت عیسٰی بطورایک معین شخصیت مسلمانوں اور عیسائیوں میں مشترک ہیں (کہ دونوں تاریخی طورپرایک ہی مخصوص شخصیت کوعیسیٰ مانتے ہیں)مگران کے درمیان چودہ سو سال سے وجہ اختلاف ”تصور عیسٰی” ہے نہ کہ”شخصیت عیسٰی”(یعنی ایک کے یہاں عیسٰی ابن اللہ ہیں جبکہ دوسرے کے یہاں عیسٰی رسول اللہ)۔ اگرکوئی یہ کہے کہ”عیسٰی توبس عیسٰی ہیں، مسلمان اورعیسائی بلاوجہ دست وگریباں ہیں”تویقیناوہ ایک غیرعلمی بات کرے گا۔اسی طرح ہیومن کوبھی انسان کہنااورمسلمان کوبھی انسان کہناایسی ہی کنفیوژن کاشکارہوناہے،ظاہرہے وہ انسان جوخودکو اللہ کابندہ اوروہ جوخودکواللہ سمجھتاہے بھلاکیسے یکساں زندگی(معاشرہ و ریاست) تعمیرکرسکتے ہیں؟
یہ آپ سے کہیں گے کہ”پہلے ہیومن(انسان)بنوبعدمیں مسلمان”یہ سیکولروں کی عوام الناس کوپھانسنے کی ایک دیرینہ خوشنما دلیل ہے۔ آپ ان سے پوچھئے کہ”اچھابتاؤمسلمان ہونے سے قبل انسان ہونے کاکیامطلب ہے؟”دیکھئے مسلمان ہونے کامطلب یہی ہے نا کہ ”میں اصلاًوحقیقتًااللہ کابندہ ہوں۔”بتائیے کیامیری اس حقیقت سے ماوراء اورماقبل بھی میری کوئی ایسی حقیقت ہے جس کاآپ مجھ سے اقرار کروانا چاہتے ہیں؟
ہم نے انسان کو نطفہ مخلوط سے پیداکیاتاکہ اسے آزمائیں توہم نے اس کوسنتادیکھتابنایا۔(اور)اسے رستہ بھی دکھادیا۔(اب)وہ خواہ شکرگزارہوخواہ ناشکرا۔(انسان:2-3)
دراصل یہ بات کہنے والوں کی عظیم ترین اکثریت کواس بات کامطلب ہی معلوم نہیں ہوتا۔”میں کون ہوں”فی زمانہ اس کے دوغالب جواب ہیں۔ایک یہ کہ میں اللہ کابندہ ( مسلمان)ہوں،دوسرایہ کہ میں آزادوقائم بالذات ہوں۔مسلمان ہونے سے قبل انسان ہونیک کی دعوت کااصل مطلب اسی بات کااقرارکرواناہے کہ”میں اصلاً آزادہوں”۔ پھر یہ جوخودکومسلمان وغیرہ سمجھاجاتاہے یہ اس آزاد ہستی کے اپنے ارادے کے تحت اختیارکردہ اپنی ذات کے بارے میں کچھ تصورات ہیں جواصل حقیقت نہیں،اصل حقیقت میراوہ ارادہ ہے جو حقیقت تخلیق کرتاہے۔
اوراللہ ہی نے تم کوتمہاری ماں کے شکم سے پیداکیاکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔اوراس نے تم کوکان اورآنکھیں اوردل(اوران کے علاوہ اور)اعضابخشے تاکہ تم شکرکرو(النحل:78)
یہ بات اچھی طرح،جی بہت ہی اچھی طرح،سمجھناچاہئے کہ انسان ہونامیری اصل نہیں بلکہ”اللہ کابندہ”ہونے کی ممکنہ صورتوں میں سے بس ایک صورت ہے۔میرے وجودیعنی ”ہونے”کی امکانی صورتیں یہ تھیں کہ میں درخت ہوتا،جانورہوتا،پہاڑہوتا،پتھر ہوتا یا پھر فرشتہ وجن،مگرمیں کچھ بھی ہوتااپنے وجودکی ہرامکانی صورت میں اللہ کابندہ( مخلوق) ہی ہوتا۔اس کائنات میں میرے وجودکاایساکوئی امکان نہیں جہاں میں اصلاًاللہ کے بندے کے ماسواء کچھ اوربھی ہوتا۔انسان ہونامیری اصل نہیں بلکہ میرے لئے ایک حادثہ ہے،ان معنی میںکہ اللہ نے جس حال میں چاہامجھے پیداکیااوروہ مجھے انسان بنانے پرمجبورنہ تھا،یہ محض اس کا فضل ہے۔پس یہ سوال کہ”اصلامسلمان ہو یا انسان”تواس کابالکل واضح جواب یہ ہے کہ اصلاًاورحقیقتاًمیں اللہ کابندہ(مسلمان) ہوں،انسان حادثاتی طورپرہوں۔میں لازم”اللہ کے ساتھ ہونا”ہوں،نہ کہ اس سے ماوراکوئی ہستی۔اپنے انسان ہونے کوڈیفائن کرنے کا اس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسراحوالہ نہیں،سوائے اس کے کہ میں خود مختاریت کادعویٰ کروں۔
”میں کون ہوں”اس سوال کاجواب میں جونہی اللہ کے حوالے کے بغیردینے کی کوشش کرتاہوں میں لازماًخودکواللہ سے ماوراو ماقبل وجود فرض کرلیتاہوں اوریہی الحادکی بنیادہے۔ اللہ کاوجودمیرے شعور انسانیت سے ماقبل ہے،لآاِلہ اِلااللہ اسی بات کااقرارہے۔ ”مسلمان بننے سے قبل انسان بنو”اسی کلمے کاانکارہے۔(لاالہ الاالانسان) پھرجب یہ واضح ہوچکاکہ”میری اصل انسان ہونانہیں بلکہ اللہ کابندہ(مسلمان)ہوناہے”تومناسب معلوم ہوتاہے کہ اب ایمان اورکفرکی حقیقت بھی واضح کردی جائے نیزیہ بھی کہ اللہ کابندہ ہونا کیوںکرمسلمان ہونے کے ہم معنی ہے۔اورانسان کی اوراس کی جس نے اس(کے اعضا)کوبرابرکیا۔پھراس کوبدکاری(سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی۔کہ جس نے(اپنے)س(یعنی روح)کوپاک رکھاوہ مرادکوپہنچا۔اورجس نے اسے خاک میںملایاوہ خسارے میں رہا۔(الشمس:7-10)
جان لیں کہ اصلاًوحقیقتاًہرانسان اللہ کابندہ ہی ہے،چاہے وہ اس کااقرارکرے یاانکار،کسی انسان کااس حقیقت سے انکارکرناکائنات میں اس کے حقیقی مقام کوبدل نہیں سکتا۔اگروہ زبان ودل سے اس حقیقت کااقرارکرلے تومومن ومسلم کہلاتاہے اوراگرانکارکرے تو کافر۔ خوب جان رکھوکہ کافرکفرکرکے کسی نئی حقیقت کودریافت نہیں کرتابلکہ اپنی حقیقت کا انکار کرتاہے،اسی لئے تو”کافر”(حقیقت کوچھپانیو جھٹلانے والا)کہلاتاہے۔پھرجب یہ واضح ہواکہ اصلاًمیں بندہ ہوں تواب سوال پیداہوتاہے کہ بطورانسان میں بندہ کیسے بنوں ؟ تواس کا جواب ہے:
اورجوشخص اسلام کے سوا کسی اوردین کاطالب ہوگاوہ اس سے ہرگزقبول نہیں کیاجائے گااورایساشخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا(العمران:85)
یعنی جس کسی نے اپنی انسانیت کے اظہارکیلئے اسلام کے علاوہ کوئی طریقہ اختیارکیاتوایسے طریقے سے ظاہرکی گئی انسانیت رب کے یہاں مقبول نہ ہوگی،چنانچہ میری انسانیت معتبرتب ہوگی جب میں اسے بندگی کے اظہارکاذریعہ بناؤں اوربندگی کے اظہار کاطریقہ جاننے کامعتبرطریقہ صرف وہ پیغام ہے جسے اللہ نے اپنے آخری رسولۖ پرنازل کیا ۔ اس ایک طریقے کے حوالے کے سوااظہاربندگی کے سب طریقے مردودہیں۔
جب یہ واضح ہواکہ میں اللہ کابندہ ہوں،تواللہ کایہ بندہ میں تنہائی(پرائیویٹ لائف)میں بھی ہوں اورلوگوں سے تعلقات قائم کرنے کے بعد(پبلک لائف میں)بھی۔یہ عقلی مخمصہ کسی طورقابل قبول نہیں ہوسکتاکہ تنہائی میں بطورانسان تومیں اورمیری بیوی اللہ کے بندے ہیں لیکن جونہی ہم تعلق قائم کرلیتے ہیں توہم اللہ کے بندے اوراس کے حکم کی اطاعت کے پابندنہیں رہتے۔ایسی بات صرف ایساہی انسان قبول کرسکتاہے جوعقلی طورپرقلاش ہوچکاہو۔میں اگرواقعی اللہ کابندہ ہوں تواپنی زندگی کی ہرحیثیت میں ہوں۔اپنے سے باہرکسی غیر کو مخاطب کرنے کی میرے پاس اس کے سواکوئی بنیادوحوالہ ہی نہیں نیزنہ ہی اللہ کے نازل کردہ پیغام سے باہر میرے پاس حقوق کے تعین کا کوئی ایسادائرہ ہے کہ جس میں خودکورکھ کرمیں کسی سے ہم کلام ہوسکوں۔میں جب بھی کسی کو خطاب کرتاہوں تواس بنیادپرکرتاہوں کہ اس بابت اللہ کاحکم مجھ سے کیاتقاضاکرتاہے،میں جب بھی کسی غیرمسلم کوخطاب کرتا ہوں تواسی حق کی طرف دعوت دیتاہوں نہ کہ اس سے ماوراء حقوق کی کسی تفصیلات کے فریم ورک میں ان سے مکالمہ کرتاہوں چنانچہ میں کسی غیرمسلم کاحق زندگی اس لئے نہیں مانتاکہ”ہرانسان کو بطور مجردانسان”کچھ ایسے فطری حقوق حاصل ہیں جن کی پابندی مجھ پرلازم ہے،ہرگزبھی نہیں بلکہ ایسا اس لئے مانتاہوں کیونکہ یہ اللہ کاحکم ہے اورجس کی پاسداری مجھ پرلازم ہے۔حق کے تعین کاحق نہ تومیں اپنی ذاتی زندگی میں رکھتاہوں اورنہ اجتماعی میں،”محمد رسول اللہ ”کے اقرارکایہی مطلب ہے۔
اب یہ جو”مسلمانیت”کے بجائے”انسانیت”کاحوالہ دیتے ہیں مناسب معلوم ہوتاہے کہ ایک مرتبہ ان کی اصل بات،جس کاخودان میں سے بہت سوں کوبھی ادراک نہیں،آپ کے سامنے رکھ دی جائے۔میں اپنے انسان ہونے کے بار ے میں مختلف بنیادی حوالے رکھ سکتا ہوں،مثلاًایک یہ کہ میں اصلاًوسب سے پہلے راجپوت ہوں،یایہ کہ میں اصلاًپنجابی ہوں،یایہ کہ میں اصلاًپاکستانی ہوں،یایہ کہ میں اصلاًمزدوریاسرمایہ دارطبقے کانمائندہ ہوں،یایہ کہ میں اصلاًمسلمان،ہندویاعیسائی ہوں۔اپنی ذات کے ادراک کیلئے میں جوبھی حوالہ اختیار کرتاہوں،اسی کی بقاوغلبے کیلئے جدوجہدکرنیکااخلاقی جوازرکھتاہوں ۔
اب یہ آپ سے کہیں گے کہ تم اصلاًیہ سب نہیں ہوبلکہ یہ سب توتمہاری اصل کااظہارہیں۔اب آپ ان سے پوچھئے کہ بتاؤپھراصل میں ”میں کیاہوں؟”تویہ آپ سے کہیں گے کہ اصل میں تم ایک آزادوخودمختار(قائم بالذات)ہستی ہوجسے یہ حق ہے کہ وہ اپنے ارادے سے خیرکومتعین کرے۔پس مسلمان ہونایہ اصل نہیں بلکہ صرف اپنے ارادے کے تحت ایک خیرکوڈیفائن کرلیناہے۔یہ واحدخیرنہیں بلکہ خیر کے لاتعدادتصورات میں سے بس ایک ہے۔یعنی اللہ کاحوالہ چھوڑدو،زمین پراپنے ارادے سے بنائے ہوئے خیرکے حوالوں کو اپناؤ، اسی کیلئے جدوجہدکرو۔یہ ہے ان کے نزدیک انسان ہونے کااصلی معنی،جس کایہ شعوری یاغیرشعوری طورپراقرارکروانا چاہتے ہیں۔
ہیومن رائٹس”ہیومن”کے حقوق ہیں۔ہیومن کاعقیدہ یہ ہے کہ انسان ایک خودمختاروقائم بالذات وجودہے۔انسان کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھنے والے کوملحدکہاجاتاہے۔اس ملحدکامفروضہ ہے کہ اصول عدل کے ادراک کیلئے لازم ہے کہ ہرشخص اپنے مذہب سے انکار کرکے پہلے خودکوقائم بالذات وجودفرض کرے،یعنی”عدل کیاہے”اس کاجواب معلوم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہرشخص پہلے ملحدہوجائے(لاک سے لے کررالزتک سب ہیومنز کایہی مانناہے)،ظاہرہے اس الحادی پس منظرکیساتھ جواصول عدل اورحقوق کی تفصیلات طے کی جائیں گی وہ الحادی ہی ہوں گی۔اس ملحد(ہیومن )کااصرارہے کہ عدل وانصاف انہی حقوق کانام ہے جوہم ملحدین نے طے کئے ہیں نیز دنیا کا ہر مذہب وروایت اسی قدرحق ہے جس قدریہ ان اصولوں کی تصدیق کرتے ہوں لہذادنیاکے تمام مذاہب و روایتوں کے حامل انسانوں پر لازم ہے کہ وہ انہی اصولوں کے مطابق فیصلے کریں۔اگرکوئی مذہب یافکران الحادی اصولوں کے طے کردہ حقوق کومعطل کرنے کی بات کرے تویہ اسے جبروظلم قراردیتے ہیں لیکن خودیہ ملحدین دنیاکے سب مذاہب اورروایتوں کے طے کردہ حقوق معطل کرکے ان پر بالجبر اپنے اصول مسلط کرنیکی کوشش میں رہتے ہیں چونکہ ہیومن رائٹس الحادی فریم ورک کے طے کردہ اصول ہیں لہذاہیومن رائٹس کے فروغ سے الحاد ہی کا غلبہ ہوتاہے۔
آخری بات عقیدے کے جن چند اسباق کایہاں ذکرکیاگیاانہیں خوب اچھی طرح سمجھ رکھناچاہیے کیونکہ جدیدالحادنے عقیدوں میں جو اجاڑ پیداکیاہے اس کاسبب اسی نوع کے خوشنمادعوے واصطلاحات ہیں جنہیں دہرادہراکرلوگ خودبھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کوبھی گمراہ کرنے کاباعث بنتے ہیں۔اوپرجوتفصیلات پیش کی گئیں یہ سیکولرحضرات کے اس مقدمے کوردکرنے اوراس کی غلطی واضح کر نے کیلئے پیش کی گئیں کہ معاشرے وریاست کی بنیاد اس قدرپررکھناچاہئے جوسب انسانوں میں مشترک ہو،چونکہ ہم اصلاً انسان ہیں نہ کہ مسلمان ہندووغیرہ،تومعلوم ہواکہ مذہب انسانوں کی بنیادی صفت اورقدرمشترک نہیں۔اسی کلیدی دلیل(پہلے و اصلاً انسان ہویامسلمان وہندو (کی بنیادپریہ لوگ مذہب کواجتماعی زندگی سے بیدخل کرنے کا مقدمہ کھڑا کرتے ہیں۔یہ جو کچھ کہاگیا اسے سمجھ لیاجائے توسیکولرڈسکورس کی بنیادی غلطی واضح ہوجائیگی۔
اسے(اللہ نے)کس چیزسے بنایا؟نطفے سے بنایاپھراس کااندازہ مقررکیا۔پھراس کیلئے رستہ آسان کردیا۔پھراس کو موت دی پھر قبرمیں دفن کرایا۔پھرجب چاہے گااسے اٹھا کھڑا کرے گا۔(عبس:18-22)
اب آئیے ان تمام دلائل کے بعداپنے ارضِ وطن کے حالات پرایک نگاہ دوڑاتے ہیں:
سوال یہ ہے کہ معاشرے کی موجودہ ذہنیت کوکیسے بدلاجائے۔پاکستان میں سول سروس برطانوی دورکی میراث ہے۔اسے برطانوی راج کے نفاذکیلئے انگریزوں نے تیارکیاتھا جو خودکوہرحال میں عوام سے برترخیال کرتی تھی لیکن نہ توہم اس نظام میں اصلاح کر سکے اورنہ ہی سیاستدانوں کاکوئی لائق تحسین کرداررہاہے۔موجودہ پاکستان اقتصادی لحاظ سے عالمی سطح پرمقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں،یہاں تک کہ خطے میں بھی تمام معاشرتی اشارے میں مقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔شہریوں کیلئے اشرفیہ کے استعمال کردہ الفاظ توہین آمیزہیں ۔ ریاست اور شہریوں کے مابین ایک اچھی طرح سے طے شدہ معاشرتی معاہدہ کی ضرورت ہے جوحکم رانوں،مالکوں اورشہریوں کیلئے یکساں پابند ہو۔
پاکستان میں اکثریہ دہائی دی جاتی ہے کہ ملک پرزیادہ عرصہ فوج نے حکمرانی کی لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ملک کی ترقی کازیادہ دورانہی فوجی حکمرانوں کے دورکوگناجاتا ہے۔ چین کی کامیابی کاایک عنصریہ ہے کہ حکمرانی میں زیادہ ترافراد ماہرہیں۔یہاں تک کہ چین کے موجودہ صدرکیمیکل انجینئرہیں۔برطانوی راج میں میرٹ پرسختی سے مشاہدہ کیاگیا۔ اب ہمارے پاس تمام سرکاری ملازمین کیلئے سیاسی تقرریوں اورسیاسی مجبوریاں ہیں۔ہم میں سے بیشتر لوگ اس تصورکی پیروی کرتے ہیں کہ معاشرہ میں عزت کامعیارڈالرکے حصول میں ہے اوراس خواہش میں جائزوناجائزکی کوئی تمیزنہیں رکھی جاتی اورڈالرکی تلاش میں سرکاری ملازمین بھی اس سے مستثنٰی نہیں ہیں۔”ڈالرکی تلاش”کے بعد کیسے اہلیت، دیانت،انصاف کی محنت اورمیرٹ کے فیصلوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔لہذاہمیں معاشرے کی ذہنیت کوبھی بدلنے کی ضرورت ہے۔
زمینی حقائق کوسمجھنے کی کوشش کیجئے۔غیبی مددنہ اسپین کے وقت آئی،نہ خلافت عثمانیہ کوبچانے کیلئے آئی،نہ اسرائیل کا قیام روکنے کیلئے آئی، نہ بابری مسجدکے وقت آئی،نہ عراق اور شام کے وقت آئی,نہ میانمارکے وقت آئی،نہ گجرات کے وقت آئی،نہ کشمیرکیلئے آئی۔پھربھی گھروں اورمسجدوں میں بیٹھ کرغیبی مددکی صدائیں دی جارہی ہیں؟غیبی مددجنگ بدر میں آئی جب1000کے مقابلے میں313میدانِ جنگ میں اترے۔غیبی مدد جنگ خندق میں آئی جب اللہ کے محبوبۖنے پیٹ پر2پتھرباندھے اورخودخندق کھودی اور میدانِ جنگ میں اترے۔
دنیاکاقیمتی لباس پہن کر،مال وزرجمع کرکے،لگژری ایئرکنڈیشنڈگاڑیوں میں بیٹھ کر(انہی کافروں کی بنائی ہوئی مصنوعات زیر استعمال لاکر)،جھک جھک کرلوگوں کے ہاتھ چومنے کی خواہش لے کر،لوگوں کی واہ واہ کی ہنکارکی خواہشات لئے مسجدوں کے منبروں پربیٹھ کر بددعائیں کرکے غیبی مددکے منتظرہیں؟طاغوت کے نظام پرراضی اورپھرغیبی مدد کے منتظر؟؟اللہ کی زمین پراللہ اوراس کے محبوبۖکے نظام کے نفاذکی جدوجہدکی بجائے صرف نعت خوانی,محفلِ میلادیاتسبیح کے دانوں کودس لاکھ بیس لاکھ گھماکرغیبی مددکے منتظرہیں؟ آفاقی دین کوچندجزئیاتِ عبادت میں محصورومقیدکرکے غیبی مددکے منتظر ہیں؟
خود کواوردوسرے مسلمانوں کومجاہدبنانے کی بجائے مجاوربناکر،خوب پیٹ بھرکرفربہ جسم لئے غیبی مددکے منتظرہیں؟جہادفی سبیل اللہ اورجذبہ شہادت سے دوررہ کراوردوررکھ کر مسلمانوں پرہونے والے ظلم وجبراورمصائب ومشکلات دیکھ کراللہ دشمن کوغرق کردے،اللہ دشمن کو تباہ وبربادکردے۔۔۔یااللہ مظلوموں کی مددفرما۔یااللہ دشمنوں کوہدایت عطافرما دے اوراگران کے نصیب میں ہدایت نہیں توانہیں غرق کردے جیسی بددعاؤں پراکتفاکرکے سکوت اختیارکرلینے اورسکون سے نوالہ ترحلق سے نیچے اتارکرپھردوبارہ پیٹ بھرکر گہری نیند سونے والے غیبی مددکے منتظرہیں؟یعنی سب کچھ اللہ کے ذمہ لگاکراورخودکنارہ کشی اختیارکرکے غیبی مددکے منتظرہیں؟میدان جہادمیں اترنے سے ڈرتے اورکتراتے ہوئے آسمانوں سے فرشتوں کے نازل ہوکرمسلمانوں کی غیبی مددکے منتظرہیں؟ایسی صورت میں غیبی مدد نہیںصرف عذاب ہی آئے گاجوہم ناعاقبت اندیش حکمران،بداندیش افسران،ذخیرہ اندوزی،ناجائزمنافع خوری،جھوٹ،کم تولنا، ملاوٹ، خودغرضی ودیگرمعاشی ومعاشرتی برائیوں کی شکل میں بھگت بھی رہے ہیں!خواب غفلت سے بیدارہوں، علم، کرداروجہد مسلسل سے اپنے مہربان رب سے رجوع کریں اورمددطلب کریں تب جاکرآپ اشرف المخلوقات کامطلب سمجھ سکیں گے کہ”میں کون ہوں”۔
(ختم شد)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں