میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مریم نوازایون فیلڈریفرنس سے بری ،نااہلی بھی ختم

مریم نوازایون فیلڈریفرنس سے بری ،نااہلی بھی ختم

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۹ ستمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور کیپٹن (ر )صفدر کی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا ،اس کے ساتھ ہی مریم نواز کی نااہلی بھی ختم ہوگئی جبکہ عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثوں میں نواز شریف اور مریم نواز کا تعلق ثابت نہیں ہو رہا، نیب عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا،تفتیشی افسر کی رائے کو شواہد کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، جے آئی ٹی نے کوئی حقائق بیان نہیں کیے، صرف اکٹھا کی گئی معلومات دیں۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا ،احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو 7 سال، 20 لاکھ پانڈ جرمانے کے علاوہ ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔دوران سماعت عدالت نے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر کو دلائل دینے کی ہدایت کی، مریم نواز کے وکیل امجد پرویز اور نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی روسٹرم پر آئے۔پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عثمان چیمہ نے دلائل دئیے تھے آج انکی طبیعت ٹھیک نہیں، عثمان چیمہ نہیں آ سکتے، عدالت اجازت دے تو میں دلائل دوں، امجد پرویز نے کہا کہ سردار صاحب سے بہتر اس کیس میں اور کون دلائل دے سکتا ہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ تفتیشی افسر کی رائے کو شواہد کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، جے آئی ٹی نے کوئی حقائق بیان نہیں کیے، صرف اکٹھا کی گئی معلومات دیں۔سردار مظفر عباسی نے کہا کہ واجد ضیا ء نے یہ ڈاکومنٹس خود دیکھے اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا، میں ڈاکومنٹس سے دکھائوں گا کہ یہ پراپرٹیز 1999 میں خریدی گئیں، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ ان پراپرٹیز کی خریداری کیلئے کتنی رقم ادا کی گئی؟ آپ اس متعلق ڈاکومنٹ دکھائیں، زبانی بات نہ کریں، کل کو یہ ساری چیزیں ججمنٹ میں آنی ہیں۔جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آف شور کمپنیوں نے اپارٹمنٹ کتنی قیمت میں خریدا؟ اپیل میں کام آسان ہوتا ہے کہ جو چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں انہی کو دیکھنا ہے۔سردار مظفرعباسی نے کہا کہ حسن اور حسین نواز نے سپریم کورٹ میں ایک متفرق درخواست دی، 26 جنوری 2017 کو یہ درخواست دی گئی تھی، طارق شفیع کا بیان حلفی ریکارڈ پر رکھا گیا تھا، بیان حلفی میں گلف اسٹیل ملز کی فروخت کا بتایا گیا۔ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح سوال اٹھایا تھا گلف اسٹیل مل بنی کیسے؟ طارق شفیع یہ دکھانے میں ناکام رہے تھے کہ وہ بزنس پارٹنر تھے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پراسیکیوشن زبانی بیانات کے علاوہ کیا دستاویزات سامنے لائی ہے؟ نواز شریف کا اس کیس کے حوالے سے موقف کیا ہے؟۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نواز شریف کا موقف تھا کہ ان کا اس پراپرٹی سے تعلق نہیں، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جب نواز شریف کہتا ہے ان کا تعلق نہیں تو پھر آپ نے ریکارڈ سے ثابت کرنا ہے ، آپ متضاد بات کر رہے ہیں گزشتہ سماعت پر نیب پراسیکوٹر نے کہا تھا پراپرٹیز خریدنے میں مریم کا کوئی کردار نہیں ،اگر سپریم کورٹ میں سی ایم اے فائل نا ہوتی تو آپ کا کیس تو کچھ نہیں تھا۔اس دوران سردار مظفر نے واجد ضیا ء کا بیان عدالت میں پڑھ کر سنا دیا ، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ واجد ضیاء کا کردار تو جے آئی ٹی میں تفتیشی کا تھا ، واجد ضیاء نے تو بیان میں ساری اپنی رائے دی ہے، میں نے کبھی کسی تفتیشی کا ایسا بیان نہیں دیکھا۔سردار مظفر عباسی نے کہا کہ واجد ضیا ء عدالت میں بطور تفتیشی نہیں بطور نیب گواہ آئے تھے، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں قیمت کا تعین لازم ہے، سردار مظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں حسن اور حسین نے متفرق درخواستیں دائر کیں۔جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ نیب کے مطابق حسین نواز اور مریم کا کردار تو پراپرٹیز کی خرید سے ہے ہی نہیں، حسن اور حسین نواز کا تو پراپرٹی کی ملکیت سے تو کوئی تعلق نہیں، عثمان صاحب نے واضح کہا تھا کہ مریم نواز کا 1993 میں پراپرٹیز سے کوئی تعلق نہیں تھا۔جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کا تعلق شروع سے ہی موجود تھا، پہلے خود کو تو واضح کر لیں پھر عدالت کو بتائیں۔سردار مظفر نے کہا کہ میں تین جملوں میں نیب کا سارا کیس عدالت کو بتا دیتا ہوں، نواز شریف نے پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے مریم نواز کے نام پر لندن پراپرٹیز خریدیں، جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ جو چار جملے آپ نے بتائے ہیں یہی شواہد سے ثابت کر دیں، بات ختم، جو متفرق درخواستیں دائر ہوئیں اس کے علاوہ نیب کے پاس کوئی کیس نہیں۔جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ واجد ضیا ء کو پتہ چل گیا تھا کہ پراپرٹیز کی مالیت 5 ملین ڈالر تھی تو تفصیل لی جا سکتی تھی، پراپرٹیز کی تفصیلات لینا بالکل بھی مشکل نہیں تھا، پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے کہا کہ پراپرٹیز کی مالیت کا تعین متعلقہ نہیں تھا۔جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ یہ آپ بالکل غلط کہہ رہے ہیں کہ مالیت کا تعین غیرمتعلقہ تھا، اس دوران نیب پراسیکیوٹر نے نیلسن اور نیسکول کمپنیز کی رجسٹریشن کی دستاویزات دکھا دیں جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ تصدیق شدہ دستاویزات ہیں؟مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ یہ تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ کی کاپی ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں