شربت فروش کے اکاؤنٹ میں سوا 2 ارب روپے کے انکشاف نے ہلچل مچادی
شیئر کریں
راچی میں ایک غریب شہری کا اکاؤنٹ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے، فالودہ بیچنے والے انگوٹھا چھاپ کے بیٹھے بٹھائے نارب پتی بننے کے انکشاف نے فالودہ فروش کے ساتھ سب کو حیران کردیا ہے۔تفصیلات کے مطابق فالودہ فروش کے بینک اکاؤنٹ میں سوا 2 ارب روپے کی موجودگی کے انکشاف کے بعد اُس کے گھر کے باہر پولیس تعینات کردی گئی۔غریب فالودہ فروش عبدالقادر کراچی میں 40 گز کے مکان میں رہتا ہے۔ عبدالقادر کو اپنے نام سے اکاؤنٹ اور اس میں اتنی زیادہ رقم کا پتہ چلنے پر خوشی کے بجائے انتہائی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سن کر پریشان ہوگیا۔ عبدالقادر ماضی میں کسی کمپنی کے پاس ملازم تھا جس کے لیے اس نے ایک اکاؤنٹ کھلوایا تھا، تاہم وہ کھاتاکافی عرصے سے تقریبا خالی پڑا تھا، اب اچانک اس میں سوا 2 ارب روپے آگئے ہیں۔عبدالقادر کے مطابق اسے ایف آئی اے نے اکاؤنٹ کے حوالے سے مطلع کیا، پھر آفس بلایا اور اکاؤنٹ بھی دکھایا۔
عبدالقادر کے مطابق وہ بالکل ان پڑھ ہے اور اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتا، انگلش میں دستخط کیسے کرے گا؟ شہری نے مزید کہا کہ علم نہیں اکاؤنٹ میں رقم کہاں سے آئی ہے ۔ایف آئی اے کی پوچھ گچھ کے بعد عبدالقادر کے گھر کے باہر پولیس تعینات کردی گئی ہے اور معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔ اس دوران میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ مذکورہ خطیر رقم عبدالقادر کے بینک اکاؤنٹ میں ایک بزنس گروپ کی جانب سے منتقل کی گئی۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق مذکورہ بزنس گروپ کے ذمہ داران کو ابتدائی تفتیش کے لیے ایف آئی اے نے طلب کرلیا ہے۔ تفتیشی حکام کے مطابق عبدالقادر کے اکاؤنٹ میں 2 ارب 25 کروڑ کی رقم 2014 اور 2015 میں منتقل کی گئی۔ تفتیشی ادارے اس پورے معاملے کو مختلف سوالات کے ساتھ زیر بحث لارہے ہیں۔
دراصل اس طرح کے بے نامی اکاؤنٹس میں رقوم کی موجودگی ایک خاص طریقہ واردات کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔ جس میں اکثر کھاتے داروں کو یا تو اس کی اطلاع نہیں ہوتی یا پھر ’’ٹریڈ اکاؤنٹس‘‘ کے طور پر اس طرز کے اکاؤنٹ کھول لیے جاتے ہیں جس میں کھاتے دار کو بھی اعتماد میں لے کر اُسے معمولی رقم دی جاتی ہے۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق اُنہیں جن بے نامی کھاتوں کی تفتیش کا سامنا ہے اُس میں کھاتے داروں کو سرے سے کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ سامنے آیا ہے کہ ایسی صورت میں کھاتوں کو چلانا بینک افسران کے بغیر ممکن نہیں ۔ کیونکہ بینک میں بہت معمولی رقوم پر بھی بینک کی جانب سے کھاتے دار کو رابطے میں لیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک کھاتے میں سوا دو ارب روپے موجود ہو اور بینک افسران کا اُس کھاتے دارسے سرے سے کوئی رابطہ ہی نہ ہو۔اس اہم سوال کے ساتھ ایف آئی اے نے تاحال بینک اور اُن کے ملوث افسران کے خلاف کسی تفتیش کا ذکر ابھی تک نہیں کیا۔ اور نہ ہی اُس بزنس گروپ کی تفصیلات دی جارہی ہے جس نے غریب فالودہ فروش عبدالقادر کے کھاتے میں رقم جمع کرائی۔