سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین ص
شیئر کریں
( قسط: نمبر8)
بعض روایات میں آتا ہے کہ شروع میں یزید امام حسین کے قتل پر راضی تھا ، اور جب ان کا سر مبارک لایا گیا اُس نے خوشی کا اظہار بھی کیا ، لیکن اس کے بعد جب یزید کی بدنامی سارے عالم اسلام میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور تمام دُنیا کے مسلمان اسے اپنا مبغوض تریں شخص سمجھنے لگے تو وہ اپنے کیے پر بہت نادم ہوا، اور کہنے لگا کہ: ’’اے کاش! میں تکلیفیں اُٹھا لیتا اور امام حسین کو اپنے ساتھ اپنے گھر میں رکھتا اور ان کو اختیار دے دیتا کہ وہ جو چاہیں کریں، اگرچہ میرے اس اقتدار کو نقصان ہی کیوں پہنچتا، اس لئے کہ رسول اللہﷺ کا، ان کا اور ان کی قرابت کا یہی حق تھا، اللہ تعالیٰ ابن مرجانہ پر لعنت کرے! اُس نے ان کو مجبور کرکے قتل کردیا، حالاں کہ اُنہوں نے یہ کہا تھا کہ: ’’مجھے یزید کے پاس جانے دو، یا کسی سرحدی مقام پر پہنچادو!۔‘‘ مگر اِس نالائق نے قبول نہ کیا اور ان کو قتل کرکے ساری دُنیا کے مسلمانوں میں مجھے مبغوض کردیا، اِن کے دلوں میں میری عداوت کا بیج بودیاکہ ہر نیک و بد مجھ سے بغض رکھنے لگا، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ابن مرجانہ پر!۔‘‘
اِس کے بعد یزید نے ارادہ کیا کہ اہل بیت کو مدینہ منورہ واپس بھیج دیا جائے ، تو اُس نے نعمان بن بشیرص کو حکم دیا کہ وہ ان کے لئے ان کی شان کے مناسب ضروریاتِ سفر مہیا کریں اور اِن کے ساتھ کسی امانت دار متقی و پرہیز گار آدمی کو بھیجیں ، نیز ان کے ساتھ ایک حفاظتی دستہ فوج کا بھی بھیج دیں جو اِن کو مدینہ منورہ تک حفاظت اور خیریت کے ساتھ پہنچا آئے ، اورعلی اصغرص کو رخصت کرنے کے لئے اپنے پاس بلایااور کہاکہ: ’’اللہ تعالیٰ ابن مرجانہ پر لعنت کرے! اللہ کی قسم! اگر میں خود اس جگہ ہوتا تو امام حسینص جو کچھ کہتے میں اُسے قبول کرلیتا، اور جہاں تک ممکن ہوتا میں انہیں ہلاک ہونے سے بچاتا، اگرچہ مجھے اس کام کے لئے اپنی اولاد کو ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑتا، لیکن جو کچھ مقدر تھا وہ ہوگیا، صاحب زادے! تمہیں جب کوئی ضرورت ہومجھے خط لکھنا اور میں نے تمہارے ساتھ جانے والوں کو بھی یہ ہدایت کردی ہے۔‘‘
یزید کی زود و پشیمانی اور بقیہ اہل بیت کے ساتھ بظاہر اکرام کا معاملہ محض اپنی بدنامی کا داغ مٹانے کے لئے تھا یا حقیقت میں کچھ اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کا خیال آگیا تھا؟ یہ تو علیم و خبیر ہی جانتاہے، مگر یزید کے اس کے بعد کے بھی سب اعمال اور کارنامے سیاہ کاریوں اور بدکاریوں ہی سے لبریز تھے ، مرتے مرتے بھی اس نے مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرنے کے لئے لشکر بھیجے اور بالآخر اسی حالت میں جامرا۔
بہرحال اس کے بعد اہل بیت ان لوگوں کی حفاظت میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے، ان لوگوں نے راستہ میں اہل بیت کی بڑی ہم دردی سے خدمت کی، رات کو اُن کی سواریاں اپنے سامنے رکھتے ، اور جب کسی منزل پر اُترتے تو اِن سے علیحدہ ہوجاتے اور اپنے چاروں طرف پہرہ دیتے، اور ہر وقت اُن کی ضروریات کو دریافت کرکے پورا کرنے کا اہتمام کرتے ، یہاں تک یہ سب حضرات خیر و عافیت کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
اپنے وطن مدینہ منورہ پہنچ کر امام حسینص کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ نے اپنے بہن حضرت زینب سے کہا کہ اِس شخص نے ہم پر احسان کیا ہے کہ سفر میں ہمیں راحت و آرام پہنچایا ، اس لئے ہمیں ضرور اس کو اس کا کچھ نہ کچھ صلہ دینا چاہیے ۔‘‘ حضرت زینبؓ نے فرمایاکہ: ’’اب ہمارے پاس اپنے زیورات کے علاوہ تو اور کچھ بھی دینے کے لئے نہیں ہے، چلیں زیورات ہی میں سے کچھ نہ کچھ دے دے دیتے ہیں، چنانچہ دونوں نے اپنے اپنے زیورات میں سے دو کنگن اور دو بازو بند (چوڑیاں) سونے کی نکالیں ا ور اُن کے سامنے پیش کردیئے اور اپنی بے مائیگی کا عذر پیش کیا۔ اُس شخص نے زیورات واپس کردیئے اور کہا: اللہ کی قسم! اگر میں نے یہ کام دُنیا کے لئے کیا ہوتا تو میرے لیے یہ انعام بھی کم نہ تھا، لیکن میں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے جو کہ رسول اللہا کی قرابت کی وجہ سے مجھ پر عائد ہوتا ہے۔
امام حسینص کی خوش دامن اور آپ کی زوجۂ محترمہ رباب بنت امرء القیسؓ بھی آپ کے ساتھ اسی سفر میں تھیںاور شام بھیجی گئیں تھیں، پھر سب کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچیں ، تو باقی عمر اسی طرح گزار دی کہ کبھی مکان کے سایہ میں نہ رہتی تھیں، کوئی کہتا کہ: ’’ دوسری شادی کرلو!‘‘ تو جواب دیتیں کہ: ’’میں رسول اللہا کے بعد اور کسی کو اپنا خسر بنانے کے لئے تیار نہیں۔‘‘ بالآخر ایک سال بعد آپ انتقال فرماگئیں۔
امام حسینص اور اُن کے اصحاب کی شہادت کی خبریں جب مدینہ منورہ میں پہنچیں تو پورے مدینے میں کہرام مچ گیا، اور مدینہ منورہ کے در و دیوار بھی رُونے لگ گئے، اور جب خاندانِ اہل بیت کے یہ بقیہ نفوس مدینہ منورہ پہنچے تو مدینہ والوں کے زخم از سر نو تازہ ہوگئے۔
جس وقت عبد اللہ بن جعفرص کو یہ خبر پہنچی کہ اُن کے دو بیٹے بھی امام حسین صکے ساتھ شہید ہوگئے ہیں تو بہت سارے لوگ اُن کی تعزیت کو آئے ، ایک شخص کی زبان سے نکل گیا کہ: ’’ہم پر یہ مصیبت امام حسینص کی وجہ سے آئی ہے۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن جعفرص کو غصہ آگیا، اور اُس کو جوتا اُٹھاکر پھینک مارا کہ کم بخت یہ تو کیا کہہ رہا ہے؟ اللہ کی قسم! اگر میں وہاں ہوتا تو میں بھی اُن کے ساتھ قتل کیا جاتا، اللہ کی قسم! آج میرے بیٹوں کا قتل ہی میری تسلی کے لئے کافی ہے کہ اگر میں امام حسینص کی کوئی مدد نہ کرسکا تو میری اولاد نے یہ کام کردیا ہے۔‘‘
عام مؤرخین ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ: ’’امام حسین کی شہادت کے بعد تقریباً دو تین مہینوں تک آسمانی فضاء کی یہ کیفیت رہی کہ جب سورج طلوع ہوتا اور دھوپ در و دیوار پر پڑتی تو اتنی سرخ ہوتی تھی جیسے دیواروں کو خون سے رنگا گیا ہو۔‘‘(الکامل لابن اثیر)
امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ: ’’جو لوگ قتل حسینص میں شریک تھے، اُن میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا کہ جسے آخرت سے پہلے دُنیا ہی میں اِس کی سزا نہ ملی ہو، کوئی قتل کیا گیا، کسی کا چہرہ سخت سیاہ یا مسخ ہوگیا، یا چند ہی دنوں میں ملک و سلطنت چھن گئی، ظاہر ہے کہ یہ اُن کے اِن اعمالِ بد کی سزا نہیں، بلکہ آخرت میں ملنے والی دردناک سزا کا ایک معمولی سا نمونہ تھا، جس کی ایک ادنیٰ سی جھلک لوگوں کی عبرت کے لئے دُنیا ہی میں دکھادی گئی تھی ۔
(جاری ہے)