زمانے سے آزادہوکرسوچیں
شیئر کریں
آج کے انسان کے پاس سوچنے کے لیے وقت ختم ہوگیاہے وہ ایک مشین ہے جس کاکام پیسے کمانااورکمانابہت کمانااورہمیشہ کماناہے ۔مرداورعورت سبھی دولت جمع کرنے کے لیے صبح صبح گھروںسے اپنے نرم گرم بسترچھوڑکرمجبوری کی حالت میں نکل پڑتے ہیں۔کراچی لاہور،فیصل آبادراولپنڈی کوئٹہ پشاورمیں صبح 7بجے اورشام 5 سے 8بجے تک بدترین ٹریفک جام ہوتی ہے ۔انسانوںکی شکل کے روبوٹ بس زندگی کی گاڑی کوکھینچنے کے لیے بغیرسوچے سمجھے ایک ریس میں مگن ہیں۔
اگرہم آج کی طرززندگی پرتنقیدکرتے ہیںتوہمارے سامنے چندعجیب سوالات آتے ہیں۔موجودہ طرززندگی پرکی جانے والی تنقیدکولوگ سائنس پرتنقیدسمجھتے ہیں۔مثلا اگرآپ کسی شخص سے کہیں کہ روزدنیامیں سینکڑوںلوگ ٹریفک حادثات میں زخمی ہوتے ہیںبعض عمربھرکے لیے معزورہوجاتے ہیںاورکئی لوگ اپنی جان سے جاتے ہیں۔ٹرین کے حادثے میں کئی کئی سولوگ مارے جاتے ہیں،فضائی حادثات میں ایک ہی لمحے میں کئی سولوگ بوڑھے بچے عورتیں مرجاتے ہیں۔اگرکوئی کہے کہ ان سب کی ذمے دارجدیدذرائع نقل وحرکت یعنی ٹرانسپورٹ ہے ۔لہذالوگوںکوچاہیے کہ وہ پرانے ذرائع نقل وحرکت کی طرف لوٹ جائیں ۔یہ بات سنتے ہی سامنے بیٹھاشخص آپ کوذہنی مریض کہے گااوراس کی نظرمیں آپ ایک پاگل اورجاہل شخص ہیں۔لوگ آپ کی درست اورحقیقت پرمبنی جدیدیت پرتنقیدکودراصل سائنس پرتنقید سمجھتے ہیںجودرست ہے ۔ لہذالوگ ان مسائل کاشکار ہونے کے باوجودان کاحل نہیں تلاش کرتے ۔یاکوئی حل تلاش کرے گاتووہ یہ کہ ایموبس سروس کوفعال کردیں ہوائی ایمولینس کابندوبست کریں ‘ مگرسوال یہ ہے کہ اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ ایمولینس حادثے کاشکار نہیں ہوگی ؟اگرکوئی کہے کہ اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ گھوڑے اوراونٹ پرسفرکرنے کے نتیجے میں حادثات نہیںہونگے ؟ کیاگھوڑے اوراونٹ پرسفرکرنے کے وہ نتائج نکلتے ہیں جوجدیدٹرانسپورٹ پرسفرکرنے سے نکلتے ہیں؟اول توسرمایادارانہ نظام نے اب کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیاکہ لوگ قدیم طرززندگی کوبحال رکھ سکیں اگردنیاکے کچھ حصوںمیں قدیم اورروایتی طرززندگی کے آثار باقی بھی ہیںتووہ جلدختم ہوجائیں گے یاختم کردیئے جائینگے ۔
اس لیے اب قدیم سواری کے ذرائع استعمال میں لاناایک خواب سے کم نہیں ہے ۔مگرہم سوال یہ کررہے ہیںجب لوگ اپنی آنکھوںسے جدیددنیامیں ہرروزسینکڑوںاورسال بھرمیں ہزاروںلوگوں کوجدید سفری سہولیات کی وجہ سے زخمی معذوراورمرتے دیکھتے ہیںتوپھروہ اس کوبطورمسئلہ قبول کیوںنہیںکرتے ؟ٹی وی اوراخبارات میں سیلاب طوفانوںاورزلزلوںکی ہرسال یادمنائی جاتی ہے ۔مگرٹائی ٹینک جہازکے حادثے اورماضی کے بڑے بڑے فضائی حادثات ،ٹرینوںکے حادثات ،ٹریفک حادثات کی یادکیوںنہیں منائی جاتی ؟اخبارات اورٹی وی لوگوںکوحادثات کے ایام یادکیوںنہیںکرواتے ؟جوآزمائش اللہ پاک کی طرف سے سیلاب یازلزلے کی وجہ سے آتی ہے وہ ہرسال یادکروائی جاتی ہے مگرجوجدیدترقی یافتہ خدابے زارانسان کے ہاتھوںتیارکردہ مشینوںکی وجہ سے آتی ہے اس کی یادکیوںنہیں منائی جاتی ؟کیایہ محض اتفاق ہے یاکوئی سازش ہے ؟دراصل یہ ترقی پرایمان تک یقین کرنے کے بعدپیداہونے والاردعمل ہے ۔
17صدی کے انقلاب کے بعدٹرانسپورٹ کوجبرکے طورپرسامنے لایاگیاہے۔اگرتیزترین ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہوگی توپھرکوئی پشاورسے کراچی نوکری کرنے کیوںآئے گا؟اگرماضی میں لوگ سفرکرتے تھے معاش کے لیے تو سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ سفرکرتے تھے ؟کیاہرگھرکاایک فرددوسرے صوبے دوسرے شہریادورکے ملک میں معاش کے لیے جاتاتھا؟یاکوئی اکادکاافرادہوتے تھے جوسفرکرتے تھے ۔اورلوگوںکے گھرسے دورنوکری کرنے کے نتیجے میں جوسماجی ،اخلاقی مسائل جنم لیتے ہیںان کاادراک کون کرے گا؟لوگ اپناقدیم گھراوربرادری چھوڑکرجب نئے علاقوںمیں داخل ہوتے ہیں، پھر 20 سالوںبعدجب ان کوبیٹیوںکے رشتے کرتے وقت جن مشکلات کاسامنا کرناپڑتاہے کیایہ کسی کے وہم وگمان میں بھی ہے ؟جہاںتک حادثات کاتعلق ہے تواخلاقی ،سماجی حادثات کاازالہ توکیاہی نہیں جاسکتا۔
پھراگرلڑکی کوباپ قتل کردے تواس خبرکی عمرکئی دنوںکی ہوتی ہے ۔ اس ایک قتل کی خبرجنگل میں آگ کی مانندپھیلتی ہے ۔ہم باپ کے قتل کرنے کی حمایت نہیں کررہے بلکہ ان وجوہات کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے لڑکیاںبھاگتی ہیںاورقتل ہوتی ہیں۔ اس طرح کے قتل پراین جی اوزکی آنٹیاںتماشاکرنے پریس کلب آجاتی ہیں،اورچیف جسٹس بھی سوموٹولیتے ہیںاب پولیس بھی حرکت میں آتی ہے ۔اورکوئی شرمین عبیدچنائے فلم بھی بناتی ہے ۔کیاشرمین عبیدچنائے فضائی حادثوں،ٹرین حادثوںپرفلم بھی بنائے گی ؟جلے لاشے ،کٹے پٹے چیختے انسان۔ کسی کاہاتھ کہیں کسی کاپائوںکہیں پڑاہوتاہے۔ اس پرفلم بنائے گی شرمین؟ کبھی نہیں بنائے گی کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کی خاطرمرنے والوںکی جان کی کوئی قیمت نہیں،جدیدسفری سہولیات سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ضروری ہیںاس لیے ان حادثات میں مرنے والوںکی نہ کوئی گنتی کرتاہے نہ ان کے مسائل پرکوئی ماتم کرتاہے ۔یہ بے چارے ترقی کی تاریک راہوںمیںمارے گئے۔
مگرسوال یہ ہے کہ لوگ یہ سوال کیوں نہیںکرتے کہ آخرکب تک ہم مرتے رہیںگے ؟اس سوال کاجواب یہ ہے کہ لوگ زمان ومکان کے قیدی ہوتے ہیںوہ جس دورمیں جیتے ہیںاس دورکے غلام ہوتے ہیں۔وہ جس عہدمیں پیداہوتے ہیںاس عہدکوعظیم عہدسمجھتے ہیں۔ان کے سوالات بھی زمان ومکاںکے اپنی تاریخ سے پیداہوتے ہیں۔حادثات میںمرنے والوںکے لواحقین صرف یہ اپیل کرتے ہیںکہ ایمبولینس جلدی نہیں آئی ۔چوک میں ٹریفک والاڈیوٹی پرہوتاتوابابچ سکتے تھے ۔اسپتال بہت دورتھاورنہ اماںکبھی نہ مرتی وغیرہ وغیرہ یہ مسائل کے حل بھی ان کے اپنے تجویزکردہ نہیں ہیں۔یہ حل بھی اس تاریخ نے ان کے دماغ میں ڈالے ہیں،سوال یہ ہے کہ حادثات توان ملکوںمیں بھی ہوتے ہیںجہاںایمبولینس وقت پرپہنچتی ہے ۔بلکہ ہیلی کاپٹرایمبولینس سروس مہیاکی جاتی ہے ۔
اورجہاںسگنل پرٹریفک والے بھی کبھی غائب نہیں ہوتے ۔ان تمام سوالات اورمسائل کاحل تلاش کرنے کے لیے ہمیںتاریخ سے اوپراٹھ کرسوچنے کی ضرورت ہے ۔جیسے 427قبل مسیح میں Platoسوچتاتھا۔ 1724 میں پیداہونے والا Kantسوچتاتھاجیسے 1921میں پیداہونے والاJohn Rawls سوچتاتھاجیسے 1931میں پیداہونے والافلسفی Rortyسو چتا تھا۔اگرآپ ان مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیںتوضروری ہے کہ آپ اس دنیاکے مسائل پرجب بات کریں توخودکواس تاریخ اوراس جدیدتہذیب کی ذہنی غلامی سے آزادی دلواکرکریں۔ اوریہ اسی صورت میں ممکن ہوگاجب آپ جدیددورکے مسائل کاحل تلاش کرتے وقت اپنے زمانے کی قیدسے آزادہوکرسوچیں۔