بلوچستان کا احساس محرومی اور لسانیت کی بنیاد پر قتل عام
شیئر کریں
دریا کنارے /لقمان اسد
یہ اپریل 2024کی بات ہے بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم افراد کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد سمیت 11 افرادکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ یہ واقعہ نوشکی شہر سے اندازاً چھ کلومیٹر پہلے سلطان چڑھائی کے علاقے میں پیش آیا۔اس اندوہناک واقعہ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک بس سے اتارنے کے بعد انھیں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔ اس علاقے کے پہاڑی سلسلہ میں مسلح شرپسندوں نے کوئٹہ سے تفتان جانے والی ایک بس کو روکا۔اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اتارا گیا، جنھیں کچھ فاصلے پر لے جانے کے بعد فائرنگ کر کے ماردیا گیا۔ سانسوں سے آزاد ہونے والے مسافروں کا تعلق پنجاب کے علاقے منڈی بہاء الدین اور دیگر دو علاقوں سے تھا۔ایسے واقعات کا تسلسل ہے جو اکبر بگٹی کی موت کے بعد رکنے میں نہیں آرہا ،لسانی بنیادوں پر قتل ہونے والے افراد یقیناعسکریت پسندی کا مکروہ چہرہ ہے ،اجتماعی خاموشی اور بے حسی کارویہ ہی معاشرے میں ظلم وجبرکے مزیدبڑھنے کاسب سے بڑاسبب ہے۔بلوچستان میںماضی کی طرح ایک بار پھر دہشت گردوں نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب مربوط اور منظم دہشت گردی کے کئی بزدلانہ حملوں میں سرکاری افسر، لیویز اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت چالیس افراد کو شہید کر دیا۔ دہشت گردی کے واقعات کوئٹہ، قلات، مستونگ اور گوادر سے رپورٹ ہوئے۔ کم از کم تین اضلاع میں مہلک حملوں کی اطلاع ملی جہاں سیکورٹی فورسز تشدد سے نبرد آزما ہیں۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق ہم نے بی ایل اے کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے متعدد مربوط حملوں میں 40 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے”۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب بلوچستان کے کئی علاقوں میں یکے بعد دیگرے ہونے والے حملوں میں سے سب سے زیادہ بہیمانہ اور سفاکانہ حملہ موسی خیل میں ہوا جہاں شر پسند دہشت گردوں نے سڑک پر مسافروں کا قتل عام کیا۔
بلوچستان میں علیحدگی پسند اور دہشت گرد عناصر کی جانب سے پنجابیوں کے قتل کے پے در پے واقعات کی وجہ سے پنجاب میں تشویش کے سائے لہرانے لگے ہیں جہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کو خوش دلی کے ساتھ قبول ہی نہیں کیا گیا۔ وہ پنجابیوں کے ساتھ بھائیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کسی قسم کی اجنبیت بھی محسوس نہیں کرتے کہ دونوں صوبے ایک ہیں۔ ملک کے حصے ہیں۔ تاہم متعدد حلقوں کی طرف سے اس قسم کے تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے کہ پنجاب میں بھی عوام کے جذبات واحساسات وہ نہ رہیں۔ اس صوبے میں بڑی تعداد میں بلوچ آباد ہیں۔ مختلف شہروں میں ان کی علیحدہ بستیاں قائم ہیں جن کو بلوچ بستیوں کا ہی نام دیا گیا ہے۔ ان لوگوں کے بڑے بڑے کاروبار ہیں اور یہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کو پنجاب کے عوام کی نمائندگی کا حق میں دیا گیا ہے۔ بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے کئی ایک افراد پنجاب کی نشستوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں موجود ہیں جبکہ بلدیاتی نمائندوں کی ایک بڑی تعداد بلوچوں پر مشتمل ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کی مسلسل وارداتوں پر گہری تشویش ظاہر کی ان کے بقول ہم نے بلوچ باشندوں کو بھائیوں کی طرح رکھا ہوا ہے وہ ہمارے معاشرتی نظام میں پوری طرح رچ بس چکے ہیں اسکے مقابلے میں بلوچستان میں پنجابیوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک اور سنگین صورت اختیار کر سکتی ہے۔ خدا نہ کرے کہ پنجابیوں کے جذبات بھی مشتعل ہو جائیں جس کی وجہ سے یہاں موجود بلوچوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ جب جب مارشل لا آیا یا اسٹیبلشمنٹ نے دباو ٔڈالا پنجابی قائدین نے ان کی حمایت کی۔ اس کا احوال بھی ملاحظہ ہو۔کیا فوجی آمر ایوب خان کی کابینہ میں فقط پنجابی وزیر تھے؟ کوئی بلوچ، پختون، مہاجر نہ تھا؟ کیا (سندھی) ذوالفقار علی بھٹو وہاں سے نہیں ابھرے؟ (پنجابی) نواز شریف تو سبھی کو یاد ہیں کہ ضیا الحق کے پنگھوڑے میں جھولتے پروان چڑھے، تو کیا ضیا الحق حکومت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھی پنجابی تھے؟ غلام اسحاق خان پنجابی تھے؟ صاحب زادہ یعقوب، آغا شاہی پنجابی تھے؟ جنرل اختر عبدالرحمان، ایوب خان، یحییٰ خان پنجابی تھے؟،مشرف کے ساتھ پنجاب کے چودھری برادران تھے، تو کیا وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بھی پنجابی تھے؟ معین الدین حیدر بھی پنجابی تھے، مشرف بھی پنجابی تھے؟ مشرف کی اتحادی ایم کیو ایم بھی پنجابیوں کی جماعت تھی؟ اور تو اور یہ کہیے کیا سینیٹ کے موجودہ چیئر پرسن بھی پنجابی ہیں؟ جنھیں اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر سینیٹ میں اقلیت کو اکثریت میں بدلنے والے جادو گر، اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے آصف علی زرداری نے ووٹ دلوائے، کیا زرداری بھی پنجابی ہیں؟اس فوری تحریر میں ابھی جام صادق اور دیگر عظیم سرداروں، وڈیروں کا تو ذکر ہی نہیں، جنھوں نے اقتدار کے حصول کے لیے ہمیشہ بڑی سرکار کی چھڑی شریف کو دیکھا اور پلک جھپکنے میں ان کے بوٹ چمکانے لگے۔اجتماعی خاموشی اور بے حسی کارویہ ہی معاشرے میں ظلم وجبرکے مزیدبڑھنے کاسب سے بڑاسبب ہے۔