میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیاست کی بساط پر سانپ سیڑھی کا کھیل

سیاست کی بساط پر سانپ سیڑھی کا کھیل

ویب ڈیسک
هفته, ۲۹ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

سیاست ایک سانپ سیڑھی کا کھیل ہے ۔ اس میں ہر کھلاڑی اپنے حلیف کی سیڑھی پر چڑھ کر اوپر جانا اور حریف کو کاٹ کر نیچے بھیجنا چاہتا ہے ۔ اس تناظر میں اجیت پوار کے اپنے چاچا اورسرپرست شرد پوار کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کو دیکھا جائے تو معمہ حل ہوجاتا ہے ۔اجیت پوار نے جب بار بار شرد پوار کے گھر اوردفتر کے چکر کاٹنے شروع کیے تو اس میں ایک اور زاویہ یہ ہے کہ اجیت پوار نے یہ حرکت حزب اختلاف کے اتحاد میں دراڑ ڈالنے کی سازش کے تحت تھی۔ اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ شرد پوار کا جھکاو این ڈی اے کی جانب ہے ۔ اس کا مقصد حزب اختلاف کے اندر انتشار پیدا کرنا تھا۔ ہندو مذہب میں نکاح کا بندھن سات پھیروں کے بعد ہی بندھتا ہے ۔ اس میں چار پھیروں میں شوہر آگے اور بیوی پیچھے ہوتی ہے ۔اس کے بعد ترتیب بدل جاتی ہے اور زوجہ آگے اورخاوند پیچھے ہوجاتی ہے ۔اسی کا خیال رکھتے ہوئے اجیت پوار نے چار پھیرے تو مار لیے لیکن شرد پوار بقیہ تین پھیروں کے لیے ان کے پیچھے نہیں آئے اس طرح یہ رشتہ قائم نہیں ہوسکا۔ اس معاملے میں بی جے پی کی خوشی نے سازش کی چغلی کھائی اور راز فاش ہوگیا۔ بی جے پی رہنما سدا بھاو کھوت نے چند دن قبل شرد پوار کو شیطان کہہ کر مخاطب کیا اور اب وہ اپنی ہی حکومت کے وزیر خزانہ کے اپنے چاچا سے ملنے پر بغلیں بجا رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شرد پوار کی شبیہ کو داغدار یا مشکوک کرنے کے منصوبے پر عمل آوری کی خوشی منائی جارہی ہے ۔
مہاراشٹر کی سیاست میں اجیت پوار کی پینترے بازی کو دیکھ کرسانپ اور سیاستداں کے درمیان کمال مشابہت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے ۔ ان میں پہلی یکسانیت دونوں کی بے شمار قسموں کا پایا جانا ہے ۔ سانپوں کی معلوم اَقسام کی تعداد تقریباً 2800 ہے لیکن اس کے علاوہ جنگل بیابان میں کئی ایسے سانپ بھی ہوں گے جن سے حضرت انسان کا ابھی تک سابقہ ہی پیش نہ آیا ہو یا اس کا شکار ہونے والے کوقسم معلوم کرنے کا موقع ہی نہ ملا ہو یعنی اپنی تفتیش یا اندراج سے پہلے ہی وہ بیچارہ پرلوک سدھار گیا ہو۔ عوام کی بڑی اکثریت کواس اقسام بندی میں دلچسپی بھی نہیں ہے ۔ سائنسی تحقیق کے مطابق محض دس فیصد یعنی تقریباً 280قسم کے سانپ زہریلے ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کے معاملے میں یہ تناسب 90فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے ۔
یہ تحقیق بھی دلچسپ ہے کہ ہر زہریلے سانپوں کا شکار بننے والوں کی تعداد تقریباً 2.5 ملین یعنی پچیس لاکھ ہے ۔ سیاستدنواں کو یہ تعداد سن کر ہنسی بھی آئے گی اور اپنی عظمت کا بھی احساس ہوگا اس لیے کہ ان شکاتو کروڈوں کی تعداد میں ہیں۔ سانپ کا ڈسا ہر شخص موت کے منہ میں نہیں جاتا بلکہ لگ بھگ ایک لاکھ کی موت واقع ہو تی ہے باقی چوبیس لاکھ بچ جاتے ہیں ۔ سیاستدانوں کا اسٹرائیک ریٹ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ ان کا شکار ہونے والے چار فیصدتو دور 96فیصد سے زیادہ جانبر نہیں ہوپاتے اس لیے اثر پذیری میں سیاستدانوں کے سامنے سانپ کہیں بھی نہیں ٹکتے ۔ ایک سانپ دوسرے سانپ کو نہیں کاٹتا مگر اجیت پوار جیسے سیاستداں اپنے محسن چاچا کو بھی نہیں چھوڑتے ۔ انتہا تو یہ ہے کہ ببانگِ دہل اپنی احسان فراموشی کو جائز ٹھہرا کراس پر فخر جتاتے ہیں اور اپنوں کی ایذارسانی کے لیے دشمن کے ہاتھوں میں آلۂ کار بن جاتے ہیں۔
سانپ اور سیاستداں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اول الذکر انسان سے بھاگتا ہے اور مؤخر الذکر سے انسان بھاگتا ہے خیر بھاگم بھاگ دونوں صورتوں میں مشترک ہے ۔ ویسے سیاستدانوں سے بھاگنا انسان کے لیے نہایت مشکل ہے کیونکہ وہ ہر گلی نکڑ پر ان کا پوسٹر ، بینرس یا ہورڈنگ آویزاں ہوتا ہے ۔ وہ کہیں جی ٹوینٹی تو کہیں مفت سیلنڈر کی تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اروند کیجریوال تو سڑک پر اپنی قطار میں چلنے کا مشورہ بھی دیتے نظر آتے ہیں جبکہ یہ ان کا کام ہی نہیں ہے ۔ وزیر اعظم وندے بھارت ریل گاڑی کو ہری جھنڈی دکھاتے نہیں تھکتے ۔ وہ ریل گاڑی کو ہری جھنڈی دکھانے کی خاطر آٹھ ہزار کروڈ کے ہوائی جہاز میں اِدھر اُدھر مارے مارے پھرتے ہیں اور جب اس کا موقع نہیں ہوتا تو گھر بیٹھے آن لائن یہ کام کردیتے ہیں ۔
یہ سیاستداں سال میں کم سے کم پانچ چھ مرتبہ سالگرہ کے پوسٹرس و بینرس لگوا کر مبارکباد وصول کرتے ہیں اور یہ درست بھی ہے ۔ کبھی انگریزی کیلنڈر کے مطابق تو کبھی اسلامی جنتری یا ہندو سال کے انوسار مبارکباد وصول کرنا ضروری ہے تاکہ ہر طبقہ کا ووٹر انہیں اپنا خیروخواہ سمجھے ۔ وہ کبھی ٹیلی ویژن کے پردے پر نمودار ہوجاتے ہیں تو کبھی موبائل کے اندر سے جھانکنے لگتے ہیں غرض ذرائع ابلاغ کا کوئی شعبہ سیاستدانوں کی آلودگی محفوظ نہیں ہے یہاں تک کہ کورونا کے ٹیکے کا سرٹیفکیٹ پر بھی ان کا ہنستا ہوا نورانی چہرا نمودار ہوکر عوام کو چونکاتا ہے اور سرکاری اہلکاروں کو مشکل میں ڈال دیتا ہے کیونکہ سرٹیفکیٹ پر لکھے نام و چہرے کا فرق ان کو پریشان کردیتا ہے ۔کورونا کی وباء کے دوران بیرون ملک سفر کرنے والوں کو ان مشکلات سے گزرنا پڑا مگر وزیر اعظم نے ‘آفت میں راحت’ کا سامان کرلیا ۔
سیاستدانوں کی مانند سانپ بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ وہ کبھی پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں تو کبھی زمین پر رینگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ سانپوں میں اڑنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے ۔ سیاستدانوں کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہوتا ہے ۔ وہ کبھی سماجوادی کی سائیکل سے زمین پر چلتے ہیں اور موقع ملتے ہیں کمل کے ہوائی جہاز میں اڑنے لگتے ہیں۔ وہاں بات نہیں بنتی تو کانگریس کا ہاتھ تھام کر پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں۔اجیت پوار اس کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔ سانپ کا کینچلی بدلنا ایک مشہور محاورہ ہے ۔ اس کے اصل معنیٰ تو سانپ کا پُرانا پوست چھوڑ کر نئی کھال اوڑھ لیناہے مگر مجازاً اسے چولا بدلنے یا نیا روپ دھارنے ، نئی وضع اختیار کرنے یا، دوسرا رنگ اختیار کرنے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اوران ساری حالتوں سے پرفل پٹیل جیسے سیاستداں گزرتے رہتے ہیں ۔ ان پر اعتماد کرکے شرد پوار نے انہیں پارٹی کا کارگزار صدر بنا دیا تھا۔ کینچلی بدلنے کا ایک مطلب پوشاک یا لباس بدلنا بھی ہوتا ہے ۔ سیاستدانوں کے اس شوق کی جیتی جاگتی مثال وزیر اعظم نریندر مودی ہیں جن کو خود اندازہ نہیں ہوتا کہ ایک دن میں وہ کتنی بار چولا بدلتے ہیں۔ ویسے ایکناتھ شندے اور اجیت پوار جیسے لوگ تو ظاہر کے ساتھ باطن بھی بدل دیتے ہیں ۔ بی جے پی ان سانپوں کو پالتی ہے بقول راحت
تھے پہلے ہی کئی سانپ آستیں میں
اب اک بچھو بھی پالا جا رہا ہے
ایکناتھ شندے کے بعد اجیت پوار کو ساتھ لینے کی حکمت عملی پر یہ شعر صادق آتا ہے ۔ سانپوں کے ماہرڈاکٹر وولف گانگ بوہمے سانپ کی ایذا رسانی سے بچنے کی خاطر انسان کو ہمیشہ پاؤں زمین پر زور کے ساتھ رکھتے ہوئے چلنا کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ سانپ انتہائی لطیف سے ارتعاش کو بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ کسی شخص کو زور زور آتا محسوس کرکے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہوتا ہے ۔ ویسے تو نہایت بے حس ہوتے ہیں لیکن زور زور سے اپنے قریب آنے والے کے بارے میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مفید ہے یا مضر؟ بی جے پی کی مثال لیں تو جب اجیت پوار جیسا فائدہ بخش آدمی قریب آئے تو اس کا استقبال کیا جاتا ہے بصورتِ دیگر ایکناتھ شندے جیسے لوگوں کو بے دردی سے کچلنے کی سازش رچی جاتی ہے ۔ سانپوں کو زبان دو شاخہ ہوتی ہے لیکن سیاستدانوں کی زبان پر شاخوں کا شمار مشکل ہے جو کبھی بھی کچھ بھی بول سکتی ہے ۔ سانپ اپنی زبان کوحساس انٹینا کی طرح استعمال کرکے فضا میں سے بو کو جذب کرتا ہے جبکہ ہیمنتا بسوا سرما جیسے بدزبان سیاستداں اپنی زبان سے نفرت کا زہر پھیلاتے ہیں ۔ سانپ کو اپنی زبان سے شکار کے مقام، سمت اور رفتار کے بارے میں بھی معلومات مہیا ہوجاتی ہے ۔ سانپ کی زبان گویا ریڈار کی طرح کام کرتی ہے لیکن سیاستداں تو اپنے لچھے دار الفاظ سے رائے دہندگان کو فریب دے کر انہیں اپنا شکاربناتا ہے اور حسب موقع گرگٹ کی مانند اپنی زبان بدل دیتا ہے ۔
سانپوں کا ایک مشہور محاورہ ‘آستین کا سانپ ‘ تو سیاستدانوں سے زیادہ کسی طبقہ پر صادق نہیں آتا ( الاماشاء اللہ) اگر یقین نہ آتا ہو تو شرد پوار کے آستین کو دیکھیں وہاں پر بھتیجا اجیت پوار ضرور دکھائی دے گا ۔ جمہوری سیاست میں میڈیا سانپ کے سامنے نویلے کا کردار ادا کرسکتاہے مگر وہ اس سے لڑنے کے بجائے فی الحال وہ زہریلے سانپوں کے تلوے چاٹ رہا ہے ۔ اجیت پوار نہایت آرزو مند شخصیت کے حامل ہیں۔وہ پانچ مرتبہ نائب وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں اوراب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونا چاہتے ہیں ۔ اس دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے لیے ہی انہوں نے زعفرانی دامن تھاما ہے ۔ باقی اپنے آپ کو جیل جانے سے بچانے کے لیے اور دولت و ثروت کو محفوظ رکھنا بھی ایک مقصد ہے لیکن انہیں ایکناتھ شندے کے انجام سے عبرت پکڑنا چاہیے ۔ورنہ انہیں احمد سلمان کا یہ شعر پڑھنا پڑے گا
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں