میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فلسفہ قربانی اور ہم

فلسفہ قربانی اور ہم

جرات ڈیسک
جمعرات, ۲۹ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

مسلمانوں میں عیدین کا تصور اُن کے عالمی تہذیب وتمدن کی ہمہ گیر بنیاد فراہم کرتا ہے۔ عیدین کے حوالے سے واضح دینی احکامات مسلمانوں کے خوشی کے تصورات کو بھی دنیا کی تمام تہذیبوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ قومیں اپنے تہذیب وتمدن سے ہی پہچانی جاتی ہیں۔ اور تہذیبی تصورات تہواروں، غم، خوشی اور احساس شرکت کے حوالوں سے ہی اہمیت حاصل کرتے ہیں۔ قومیں اگر زندہ ہوں تو وہ اپنے تہوار بڑی گرمجوشی سے مناتی ہیں۔ کیونکہ یہ اُنہیں ایک ثقافتی وحدت اور حقیقی تشخص دیتے ہیں۔ اسلامی تہواروں میں عید الفطر اور عیدالضحیٰ کو غیر معمولی حیثیتیں حاصل ہیں۔ یہ دونوں تہوار تمام مسلم اقوام کو ایک ثقافتی وحدت اور غیر معمولی احساسِ شرکت کے ساتھ عالمگیریت کے اٹوٹ بندھن میں باندھتے ہیں۔ پھر یہ تہوار اسلام کی زبردست ہدایت کی روشنی میں خوشی کے تصورات کو بھی ایک ایسے نورانی ہالے میں سمودیتے ہیں کہ دنیا کی تمام تہذیبوں کی خوشیوں سے یہ امتیاز پا لیتے ہیں۔ خوشیاں، خرمستیاں اور سرمستیاں نہیں بنتیں بلکہ نورانی جذبوں کے ساتھ اجتماعی ذمہ داریوں کا بھی احساس اجاگر کرتی ہیں۔ ایسی خوشیوں کے کیا کہنے جو دوسروں کے ساتھ منائی جائیں اور بانٹی جائیں اور جس میں احکامات الہٰی کی غیر معمولی جھلکیاں دکھائیں دیں۔ عیدین کو روایتی شان وشوکت سے منانا مسلم برادری میں ایک اعتماد پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت دوسری قومیں مسلمانوں کے ساتھ اپنے رویے کو ایک تہذیبی برتری کے پیمانے میں ڈھال کر رسواکن تجزیے کی عادی ہو چکی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ افسوس ناک معاملہ قدیم عرب کے ایام جاہلیت سے چلا آتا ہے۔چنانچہ سرکار دو عالمﷺ نے مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد علاقائی تہواروں کے بجائے مسلمانوں کو اہتمام کے ساتھ عیدین منانے کی تاکید فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا:
قد أبدلکم اللہ بہما خیرا منہہا: یوم الأضحی ویوم الفطر (سنن ابو داود)
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں (جاہلیت کے تہواروں سے کہیں بہتر) عید الفطر اور عید الاضحی کے دو دن عطا فرمائے ہیں۔”
عید ین کا یہ تصور مسلم سماج کو خوشیوں سے لبریز کردیتا ہے۔ مگر اُسے گمراہیوں کی دلدل میں دھنسنے بھی نہیں دیتا۔چنانچہ مسلمانوں میں عید محض خوشی یا سیر و تفریح کا وسیلہ نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے ساتھ تکمیل شریعت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادکے یہ الفاظ اس تصور کی پوری تشریح کرتے ہیں ”عید محض سیر وتفریح،عیش ونشاط، لہو ولعب کاذریعہ نہیں ہے۔ وہ تکمیل شریعت کا ایک مرکز ہے وہ سطوتِ خلافت الٰہی کا ایک مظہر ہے، وہ توحید ووحدانیت کا منبع ہے، وہ خالص نیتوں اور پاک دلوں کی نمائش گاہ ہے۔ اس کے ذریعے ہر قوم کے مذہبی جذبات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اگر وہ اپنی اصلی حالت میں قائم ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ مذہب اپنی پوری قوت کے ساتھ زندہ ہے۔ اگر وہ مٹ گئی ہے یا بدعات ومزخرفات نے اس کے اصل مقاصد کو چھپا دیا ہے تو یقین کر لینا چاہیے کہ اس مذہب کا چراغ بجھ رہا ہے“۔
آج پوری دنیا کے مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کیلئے اسلام کے اہم رکن قربانی کا فریضہ اداکر رہے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا ہر حکم جہاں رب کائنات کی بندگی کی تعلیم دیتا ہے وہیں انسانیت اور معاشرے پر مثبت اثرات کا مظہر ہے۔ تمام عبادات میں اصلاح و خیر خواہی اور باہمی محبت و مردت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ نماز کو دیکھ لیجیے روزانہ5 مرتبہ اہل ایمان فریضہ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مزاج پرسی کر تے ہیں اسی طرح جمعہ میں بڑا اجتماع ہوتا ہے پھر اس سے بڑھ کر عیدین کے اجتماعات میں بھی یہی روح کار فرما ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اسلامیان عالم کا سالانہ عالمگیر اجتماع حج کے موقع پر منعقد ہوتا ہے جہاں دنیا بھر کے مسلمان رنگ و نسل کی تفریق مٹا کر ایک لباس اور ایک کلمہ کا ورد کرتے ہوئے بین الا قوامی اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں۔ عجیب منظر ہوتا ہے عربی عجمی گورے کالے مختلف زبانیں بولنے والے لوگ احرام میں ملبوس اللہ اکبر کی صدائیں بلند کر رہے ہوتے ہیں جس سے سننے والے بھی یک گونہ روحانی تسکین محسوس کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان قربانی کی سنت ادا کرنے کے لیے سال بھر انتظار کرتے ہیں۔ وہ جو صاحب استطاعت ہوتے ہیں، وہ حج بیت اللہ کی ادائیگی کے لیے ارادہ سفر باندھتے ہیں اور اس بڑے گھر سے حاضری کی درخواست قبول ہونے پر کعبتہ اللہ کی حاضری اور اپنے محبوب نبیﷺ کے در پر درودو سلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
ڈالر کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعدحج بیت اللہ کے اخراجات میں بھی اس تناسب سے اضافہ ہو گیا ہے لیکن حج تو فرض ہی صاحب استطاعت پرہے اور صاحب استطاعت لوگ اللہ کے مہمان کا درجہ پا چکے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ کی محبت اہل ایمان کا سرمایہ حیات ہے اور حج اور قربانی اس کے اظہار کا بہترین قرینہ ہیں۔ آج 4 ہزار برس سے زیادہ ہو گئے۔ ایسے عظیم واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے ذریعے یاد گار بنادیا اور قیامت تک اس کی یاد تازہ ہوتی رہے گی۔ حج اور قربانی دونوں عبادات ایثار تحمل برداشت اطاعت و بندگی اور فنافی اللہ جیسے عظیم اوصاف سے عبارت ہیں۔ آج ہم اگر اپنا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان اعمال نے ہماری زندگیوں پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ قربانی محض جانوروں کے گلے پر چھری پھیر دینے کا نام ہی نہیں بلکہ در حقیقت یہ عمل اپنے تمام نفسیاتی خواہشات پر ضرب کاری لگانے کا نام ہے جو نہ صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رسول اکرمؐ کی اطاعت سے روکے رکھتی ہے لیکن آج ہمارا معاشرتی بگاڑ اخلاقی گراوٹ ہمیں ہر طرح کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرپشن لوٹ کھسوٹ ظلم و زیادتی سرکشی اور فحاشی عریانی جھوٹ دھوکا دہی ملاوٹ باہم قتل و غارت ڈاکا زنی و چوری نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت استعمال الغرض ہر برائی و فساد میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔دنیا بھر میں تہواروں کی آمد پر کھانے پینے کی اشیا سے لے کر ملبوسات، جوتے اور کاسمیٹکس تک کے نرخ کم کردیے جاتے ہیں، یہ نیک کام غیرمسلم ممالک میں تسلسل سے ہوتا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نرخ دگنے تگنے ہوجاتے ہیں۔ہوشربا مہنگائی سے غریب تو پہلے ہی پریشان تھا، اب متوسط طبقہ بھی پریشان ہے یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ بازاروں میں رش کم دیکھنے میں آیا اور تاجر حضرات جن کی اکثریت اپنے نام کے ساتھ الحاج فلاں فلاں سابقہ استعمال کرتی ہے، یہ الحاج دکاندار بھی پریشان دکھائی دئے کیونکہ ان کے ایک اور عمرے یا حج کے اخراجات کا زیادہ تر دارو مدار
انھی تہواروں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ہم سب مسلمان ہیں لیکن بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کو بھی دل سے نہیں مانتے مثلاً رزق دینے والا اللہ ہے وہ وہاں سے بھی رزق دیتا ہے جہاں سے انسان کو ذرہ بھر توقع بھی نہیں ہوتی۔ اس سب کاقرآن پاک میں اعلان فرما دیا گیا ہے مگر ہم بھکاریوں کی طرح ارباب دولت و اقتدار کے دروازوں پر جھکے رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ خود ان کو دولت اور اقتدار کس نے دیا۔ہمارے اردگرد موجود لاتعداد ایسے لوگوں کی حقیقت ہم سب کو معلوم ہے کہ ان کی اصل اوقات کیا تھی جو اب ان کو یاد نہیں رہی اس وقت تو ڈالر کی حکمرانی ہے، اس کی قیمت کے ساتھ ہماری قسمت وابستہ ہو چکی ہے، اس کی قیمت میں جتنا اضافہ ہوتا ہے، ہماری اپنی قیمت اتنی ہی کم ہوتی جاتی ہے۔ بلکہ اب تو ہماری دولت گھٹنے کی گنجائش ہی ختم ہو چکی ہے۔
آج امت مسلمہ کی زبوں حالی ذلت و رسوائی اورعالم کفر کے سامنے بے بسی،دو ارب سے زیادہ آبادی اور بیش بہا وسائل سے مالامال اسلامی دنیاکی کیفیت یہ ہے کہ افغانستان، مصر، شام، ارض فلسطین یہودیوں کے پنجہ استبداد میں ہیں کشمیر پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے اور کشمیری مسلمانوں پر زندگی تنگ کررکھی ہے، مسجد اقصیٰ کسی صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑ کا وطن مالوف آج امریکی سامراج کے ظلم و جبر کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے لاکھوں مسلمان موت کی نیند سلا دیے گئے۔ آج کشمیر کی بیٹیاں پھر کسی محمد بن قاسم کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ کیا ہم وہی مسلمان ہیں جو ایک مظلوم کی آواز پر آندھی طوفان بن کر ظلم کی قوتوں کے مقابل آہنی دیوار بن جاتے تھے۔ آج ہم لاکھوں کی تعداد میں حج کرتے اور کروڑہا قربانیاں دیتے ہوئے سنت ابراہیم کی یاد تازہ کر تے ہیں لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ ان اعمال میں پوشیدہ حکمتیں اور تقاضے کیا ہیں؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہم حج اور قربانی جیسی عظیم عبادات کے حقیقی مقاصد اور تقاضوں کو بھلا چکے ہیں جبکہ حج ہمیں عالمگیر اخوت اور اتحاد وا تفاق کا درس دیتا ہے جبکہ امت مسلمہ قوموں اور وطنوں میں تقسیم ہے۔ قربانی اصلاح نفس اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان تک کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار ہے اور ہم موت سے خوفزدہ ہو کر کفر کی اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف ہیں۔ اسلام آخری دین ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت اپنے دین کے غلبہ کی ہے مسلمان آج دین سے دوری کی وجہ سے طوق غلامی پہنے اقوام مغرب کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں۔ کاش ہم عید الاضحی کے عظیم الشان موقع پر جانوروں کے گلے پر چھری پھیر کر چند لمحات اس پر بھی غور کر لیں کہ کیا واقعی ہم نے اپنے نفس کے منہ زور گھوڑے پر بھی چھری چلادی ہے۔ لالچ حرص حسد بغض عنا دبے دینی اور منہات و منکرات کا گھلا گھونٹ دیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو قربانیاں بھی مبارک حج کی سعادت بھی مبارک۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں