میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آزادی اظہار رائے کی آڑ میں چھپنے والے

آزادی اظہار رائے کی آڑ میں چھپنے والے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۹ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

راؤ محمد شاہد اقبال

 

معروف کینیڈین ماہر تعلیم نارتھ روپ فرائی نے اپنی کتاب” دی ایجوکیشن امیجی نیشن ”میںایک جگہ لکھا تھا کہ ” ہجوم اور آزادی اظہار ایک جگہ اکھٹے نہیں ہوسکتے ۔یعنی کوئی شخص اُس وقت تک آزادی اظہار کے قابل نہیں ہوسکتا، جب تک وہ یہ نہیں جان لیتا کہ زبان کو کیسے استعمال کیاجانا چاہیے ۔ زبان کے استعمال کا یہ علم (جسے ہم نستعلیق گفتگو کا فن بھی کہہ سکتے ہیں )کسی بھی انسان کو پیدائشی طور پر نہیں ملتا(جیسا کہ اکثر ہجوم کی زبان بولنے والے اپنی دانست میں خیال کرلیتے ہیں ) ۔ بلکہ اسے رفتہ رفتہ سیکھنا پڑتا ہے اور اِس کے لیے سخت محنت و ریاضت کرنا پڑتی ہے۔یعنی آزادیِ اظہار کا درست استعمال باقاعدہ طور پر تربیت سے آتاہے ،جس طرح سفر سے پہلے یہ سیکھنا لازم ہے کہ چلا کیسے جاتا ہے ” ۔نارتھ روپ فرائی کے مقدمہ کو سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ کسی بھی بالغ نظراور باشعور معاشرہ یاسماج میں آزادی ٔ اظہارِ رائے کی آزادی لوگوں کو کڑی شرائط کے ساتھ ہی تفویض کی جاتی ہے اور قواعد و ضوابط کا یہ التزام فقط اِس لیے روا رکھا جاتاہے۔تا کہ کوئی شخص آزادی اظہارِ رائے کا غلط فائدہ اُٹھاتے ہوئے کسی دوسرے فرد کی شخصی آزادی یا عزت و ناموس کو ہی اپنی گفتگو سے پامال نہ کرناشروع کردے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے جن ترقی یافتہ ممالک میں بھی آزادی اظہار کا غلغلہ ہے وہاں ساتھ ہی ہتک عزت کے مؤثر قانون کے تحت سخت ترین سزاؤں کی عمل داری بھی قائم کی گئی ہے۔یعنی مذکورہ ممالک میں آزادی اظہار رائے کا غلط استعمال کرنے والے کو بہرحال بہت بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے اور بعض اوقات بہتان طرازی ، یاوہ گوئی اور الزام تراشی کرنے والے شخص کو اپنا سنگین جرم ثابت ہوجانے پر لاکھوں ڈالرز کاجرمانہ ادا کرنا پڑجاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ہتک عزت کے سخت ترین قانون کے نفاذ کا کرشمہ ہی ہے کہ مغربی و یورپی ممالک کی عوام اوّل تو اپنے کسی مخالف کے خلاف آزادی ٔ اظہار کاحق سرے سے استعمال ہی نہیں کرتے اور اگر بحالتِ مجبوری کبھی کبھار کرتے بھی ہیں تووہ اِسے بروئے کار لانے میں حد درجہ شائستگی ،تہذیب اورغیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔کیونکہ وہ کم ازکم ایک بات تو بہت اچھی سے جانتے ہیں اُن کی زبان سے نکلا ہو اکسی کی دل آزاری کرنے والا ایک چھوٹا سا غلط لفظ لاکھوں ڈالرز میں پڑ کر،اُنہیں زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم بھی کرسکتاہے۔
یقینا کسی بھی صحت مند معاشرے اوراعلیٰ اقدار کے حامل سماج کے لیے آزادی اظہارِ رائے بہت ضروری ہے مگر اُس سے بھی کہیں زیادہ ضروری” ہتک عزت ”کے قانونی دائرے یا اچھی گفتگو کرنے وہ آداب قائم کرنا ہیں ،جوہر کس و ناکس کو آزادی اظہار ِ رائے کے مہلک ہتھیار کا غلط استعمال کرنے سے روکتے ہیں ۔کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستانی قوم کا ایک طبقہ اپنی ریاست سے مادر پدر آزادی اظہار ِ رائے تو چاہتاہے، مگر ”ہتک عزت ” کے قانون یا مہذب گفتگو کرنے کے کسی اُصول کو تسلیم کرنے سے یکسر انکاری ہے۔ ویسے تو من حیث القوم ہم نے کبھی یہ سمجھنے کی کوئی سنجیدہ علمی کوشش ہی نہیں کی کہ آخرکار آزادی اظہار ِ رائے کی درست تعریف ہے کیا؟اُوپر سے طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ پاکستانی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اقتدار پانے کی ہوس میں لفظ” شعور” کواپنے مخالفین کے خلاف طعن و تشنیع اور گالم گلوچ کرنے کے لیے نئے معنی پہنا کر آزادی اظہار رائے پر ایسا شب خون مارا کہ آزادی اظہار کے علمبردا ر ہی بالآخر یہ دہائی دینے پر مجبور ہوگئے کہ ہمیں ایسی آزادی اظہار رائے بالکل بھی نہیں چاہیے ۔جس میں کسی بھی اختلافِ رائے کرنے والے کی شخصی آزادی کو اپنی دریدہ دہنی تلے کچل کر اُس کی عزت و ناموس کی دھجیاں بکھیر کر یہ گمراہ کن نعرہ بلند کیا جائے کہ ”دیکھا عمران خان نے پاکستانی عوام کو کم ازکم شعور تو دے دیا ہے ”۔
عمران خان کا دیا ہوا نام نہاد شعور جھوٹے الزام سے شروع ہوتاہے اور گالم گلوچ پر جاکر ختم ہوجاتاہے اور اِس کا نشانہ ہر وہ شخص باآسانی بن سکتاہے جس کی گفتگو یا تحریر میں گمراہ کن حقیقی آزادی سے اختلاف کا ذرہ برابر بھی شائبہ پایا جاتاہو۔ حیران کن بات یہ ہے کہ منظم انداز میں وطن عزیز پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے نام پر اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنے والی جماعت کے سربراہ عمران خان دنیا بھر کو اپنی تقریروں میں یہ باور کروانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں کہ اُنہیں اور اُن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کو پاکستان میں اظہاررائے کی سخت قدغن کا سامنا ہے ۔ حالانکہ ریاست ِ پاکستان نے اُن کا نامِ نامی لیے بغیر الیکٹرانک میڈیا پر صرف بہتان تراشی ، کذب بیانی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کی جانے والی گفتگو پر پابندی عائد کی ہے ۔ اَب چونکہ موصوف مبنی بر حقائق سیدھی سادھی سمجھ میں آنے والی گفتگو سرے سے کرہی نہیں سکتے ۔ لہٰذا،بائیس کروڑ عوام میں صرف اکیلے اُنہیں ہی پاکستانی ذرائع ابلاغ پر بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
واضح رہے کہ کور کمانڈرز میٹنگ، فارمیشنز کمانڈرز اور پھر کابینہ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے متفقہ فیصلوں کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ نے ملکی دفاع کے ضامن سیکورٹی فورسز کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ پچھتر سال میں ہمارا ازلی دشمن ملک بھی کبھی نہیں کرسکا تھا۔لیکن اگر آپ کسی صاحب ِ دانش و بینش شخص سے رائے لیں تووہ بھی دردِ دل کے ساتھ یہ پکار اُٹھے گا کہ عمران خان نے ہماری تہذیبی،ثقافتی اور اخلاقی قدروں کو اپنی لایعنی طرزِ گفتگو اور تخریبی سیاست سے جو ناقابل تلافی ضرر پہنچایا ہے ۔بلاشبہ ایسا نقصان بھی گزشتہ پچھتر برس میں ہمیں کسی دوسرے دشمن نے بھی نہیں پہنچایا ۔ یہاں ملین ڈالر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کو مستقبل قریب میں اپنے ناقابل معافی جرم کی ایسی قرار واقعی سزا مل سکے گی ،جو پچھتر سال میں ہمارے ملک میں کسی بھی دوسرے مجرم کو نہ مل سکی ہو۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں