بلوچستان کا بجٹ تماشا
شیئر کریں
بلوچستان کا سال2022-23ء کا بجٹ بالآخر 21جون کو پیش کردیا گیا۔ بجٹ تماشا بنارہا ۔ صوبے کی پارلیمانی تاریخ میں ایک اور کر یہہ باب کا اضافہ ہوا ہے۔ پیش ازیں 18جون2021ء میں جا م کمال حکومت میں بجٹ کے دن بلوچستان اسمبلی کا احاطہ اکھاڑے میں بدل کر تاریخ رقم کی جا چکی ہے۔ یو ں اس بار فنڈز کے کش و بگیر میں ذہنی پستی کی مثا لیں قائم کردی گئی ہیں ہے۔ فنڈز کی کھینچا تانی کے بعد72ارب روپیخسارے کا بجٹ پیش کر دیا گیا ۔بجٹ کا کل حجم 612 ارب روپے ہے ،ترقیاتی اخراجات کی مد میں 191ارب روپے جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 367ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے 133ارب جبکہ 3470نئی اسکیمات کے لئے 59 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔چناں چہ ماہرین کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر بجٹ سخت مالیاتی پالیسی کمزور معیشت کو ظاہر کرتا ہے۔ بجٹ خسارہ 71 ارب ظاہر کیا گیا ہے جو درحقیقت شاید 90 ارب سے زیادہ ہو۔ پنشن میں اضافہ ایک چیلنج ہے۔ بجٹ ارکان اسمبلی میں تقسیم ہے اور انہیں نوازا گیا ہے۔ ترقیاتی منصوبے ناقص نوعیت کے ہیں، منصوبوں کی اکثریت، سڑکوں ، پی ایچ ای اور مقامی حکومت پر مشتمل ہے ،یعنی منصوبوں کی ایک بڑی تعداد بلاک ، انفرادی اور غیر پائیدار نوعیت کی ہے۔خسارے کا ماضی سے تقابل یہ ثابت کرتا ہے کہ صوبے اخراجات آمدن سے بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔غرض تفصیل اس کشمکش اور ہلکے پن کی یہ ہے کہ بجٹ اجلاس کے لئے 17جون کو شام چار بجے وقت مقرر ہوا تھا۔جو تیاری اور اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث منعقد نہ ہوسکا ۔اسطرح نیا شیڈول جاری کیا گیا اور 20جون چار بجے کا وقت متعین کیاگیا۔ یہ اجلاس بھی منعقد نہ ہوا ، جس کی عدم اتفاق رائے سمیت ایک وجہ بلوچستان عوامی پارٹی کے جماعتی انتخابات بنی۔ یوں بجٹ اجلاس کیلئے21جون کا دن مقرر کرکے شیڈول کیا گیا ۔ اس روز چار بجے اجلاس شروع ہونا تھا ۔مگر اجلاس مقررہ وقت پر شروع نہ ہوا ۔ اس وقت تک صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی نہ ہوسکا تھا۔
صوبے کی پارلیمانی تاریخ کے اندر یہ بات بھی رقم ہوئی کہ اتحادی جماعتوں پر مشتمل صوبائی کابینہ کی بجائے حزب اختلاف بھی مانگنے اور تجاویز میں شریک تھی۔ اول وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو، خود بلوچستان نیشنل پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی کی رہائشگاہ گئے تھے ۔ پیہم ملاقاتیں و رابط جمعیت علماء اسلام سے بھی رہیں۔ تاہم جمعیت علماء اسلام بجٹ اجلاس کے آخری لمحات تک کامل حصہ کے حصول کے مطالبے پر کھڑی رہی۔ جے یو آئی کی طرف سے پارٹی کے اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ملک سکند رکی بجائے دلیل بازی وفاقی وزیر مواصلات و تعمیرات مولانا عبدالواسع کررہے تھے۔ بی اے پی کے صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی نور محمد دمڑ بھی جارحانہ انداز اپنائے زیادہ فنڈز کے مطالبے پرڈٹے ہوئے تھے۔ چناں چہ ماحول پوری طرح تلخ رہا۔ اس طرح تین گھنٹے کی تاخیر سے اجلاس شروع ہوا۔ وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمان کھیتران جنہیں وزارت خزانہ کا اضافی چارج بھی سونپا گیا ہے نے بجٹ پیش کرنا شروع کردیا۔ یہاں انوکھی روایت ملاحظہ ہو کہ بجٹ تقریر تک شائع شدہ تھی۔ بیان گو کے سامنے متفرق صفحات تھے، جس سے اسے پڑھنے میں دقت کا سامنا رہا ۔عجب یہ کہ بجٹ کتابیں چھپ ہی نہ سکی تھیں۔ ایوان کو بجٹ دستاویزات کا مکمل سیٹ فراہم نہ ہوسکا، وہ یونہی تقریر سنتے رہا۔ تاسف کہ اس بد انتظامی پر حزب اختلاف کی جانب سے پھس پھسا سا اعتراض و احتجاج بھی نہ ہوا ۔ کیونکہ وہ اس عمل شریک تھی ۔ جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے عبدالقدوس اور اس کی جماعت کے وزراء کی دکھتی رگ پر پائوں رکھا تھا کہ ان کی طفیل و ہ وزارت اعلیٰ کی پرکشش کرسی پر براجمان ہے۔ اس بنا پورا پورا حصہ بٹور لینے میں کامیاب رہیں۔20جون کے اجلاس کے لئے اول تو بجٹ تیاری نہ تھی، دوئم انہیں انٹرا پارٹی و انتخابات کرانے کی پڑی تھی۔اس دن سول سیکرٹریٹ کے افسران کے ساتھ اجلاس ہورہا تھا کہ یہ سب اٹھ کر چلے گئے۔ بجٹ اس انتخابات کے لیے بطور آلہ استعمال کیا گیا کہ اپنی جماعت کے اراکین ادھر ادھر نہ جائیں ۔ ان انتخابات میں عبدالقدوس بزنجو صدر چنے گئے ۔ حالاں کہ پارٹی کے صدر جام کمال خان نے انٹرا پارٹی انتخابات19 اگست میں منعقد کرانے کا اعلان کر رکھاہے۔ مقصد یہاں جام کمال خان کو مزید پیچھے دھکیلنے کا بھی تھا۔ یہاں بھی یہ لوگ پارٹی عہدوں پر گتھم گتھا ر ہے۔ سیکریٹری جنرل کے عہدے کے لیے وزیر پی اینڈ ڈی نور محمد دمڑ نے خود کو پیش کیا تھا۔ بات نکلی ہے کہ رکن قومی اسمبلی سردار اسرار ترین اور نور محمد دمڑ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ نور محمد دمڑ نے ان پر جھپٹنے کی کوشش بھی کی ۔
جام کمال کو وزارت اعلیٰ میں سال2021-22ء کے بجٹ والے دن حزب اختلاف کے اراکین نے اسمبلی احاطہ اکھاڑے میں تبدیل کردیا تھا۔ توڑ پھوڑ کی جام کمال خان پر حملہ کی کوشش کی دھنگا فساد عبدالقدوس بزنجو ، حزب اختلاف وغیرہ کی ملی بھگت سے ہوا ۔اور پھر طے شدہ منصوبے کے تحت بجلی روڈ تھانہ گرفتاری دینے پر بھی چلے گئے ،جام کمال پر الزامات لگائے۔حالانکہ انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان رائے محمد طاہر برملا کہتے کہ وزیراعلیٰ اور اراکین اسمبلی کو اندر جانے کے لئے بکتر بند گاڑی کے ذریعے گیٹ توڑنے کا حکم اس نے خود دیا تھا۔ دیکھا جائے تو جام کمال تنہا کردیے گئے۔ نواب یوسف عزیز مگسی خانوادے کے فرد نوابزادہ طارق مگسی بھی ٹھہر نہیں سکا ہے ۔رہی بات چیف آف رند قبائل سردار یار محمد رند کی تو وہ اب تک کئی زقند لگا چکے ہیں۔ یعنی قدوس بزنجو رند کے گھر گئے یوںتلخیاں فراموش اور قدوس بزنجو اچھے قائد ایوان تسلیم کرلئے گئے ۔ یار محمد رند نے پہلے جام کے خلاف پلٹی کھائی تھی۔ دال نہ گلی تو عبدالقدوس کے خلاف ہوئے۔ جام کو اس نے اور ظہور بلیدی نے عدم اعتماد کے فر یب میں مبتلا کیا تھا ،یعنی بازی ان کی تھی ۔ گویا صوبے کی یہ خراب شناخت پشت پناہی سے قائم ہے، کہ سب ہی مستفید ہورہے ہیں ۔جام البتہ روک ٹوک کرتے تھے۔ مختلف امور میں قانون اور ضابطہ مد نظر رکھتے تھے۔جبکہ اب سب ہی کے لئے کھلی چھوٹ ہے۔ادھر ضلع لسبیلہ سے حب نکال کر الگ ضلع بنایا گیا جو دراصل جام کمال پر ضرب کاری کا حصہ ہی ہے۔ عبدالقدوس بزنجو دراصل اپنے خاندان کے لیے مسقبل کی پیوند کاری کرچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ صوبہ میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے بعد نا معقولیت ہی کو صوبے پر مسلط رکھا جائے۔ اسی میں پشت پناہ اپنی فلاح دیکھتے ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اشتراک سے کاری گری ہونے جارہی ہے۔ چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقلی کی تعیناتی اور عبدالخالق شیخ کی بطور آئی جی پولیس صوبے میں تقرری عیار کی سیاست کا حال بتاتا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ پچھلی کی مانند اس بار نگراں وزارت اعلیٰ کے منصب کی کیا بولی لگائی جائے گی۔ آیا پھر کوئی اسمگلر ڈھونڈا جائے گا۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔