پرائیویٹ اسکول انتظامیہ مافیابن گئی،یونیفارم ،اسٹیشنری کے نام پر لوٹ مار
شیئر کریں
کراچی کے بیشتر پرائیویٹ اسکول مافیا نے یونیفارم، کاپیوں ،کتابوں اوراسٹیشنری کا کاروبار خود ہی سنبھال لیا ۔تفصیلات کے مطابق کراچی کے اکثر تعلیمی اداروں میں پرائیویٹ اسکول مافیا نے عوام کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ہرا سکول یونیفارم، کاپیوں اور کتابوں کو از خود مہنگے داموں فروخت کرتا ہے اور تمام نجی تعلیمی ادارے ایسا یونیفارم، کاپیاں اور کتابیں تیار کرواتے ہیں جو مارکیٹ میں دستیاب نہ ہو اور مجبورا طلبا کو اسکول سے یہ اشیا مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہیں۔ تعلیم کے نام پر دھندا بند کیا جائے ،فیسوں کے نام پر لو ٹنا بند کیا جائے کاپی کی قیمت مارکیٹ میں50 روپے ہے اسکول والے اپنا مونوگرام لگا کر 130 روپے میں فروخت کررہے ہیں۔پرائیو یٹ اسکولوں سے کاپیاں کتابیں اور اسٹیشنری کے عمل پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ اسکولوں کا کام تعلیم کو فروغ دینا ہے نہ کہ کاروبار کرنا ہے۔جبکہ کورونا وبا کے باعث اسکول بند ہونے کی وجہ سے گزشتہ سال کی بچوں کی کاپیاںتقریبا خالی ہیں لیکن اسکول کی انتظامیہ اور ٹیچر ز کی جانب سے اسے دوبارہ استعمال کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بچہ(اول کلاس)پہلی جماعت سے دوسر ی جماعت (دوئم کلاس) میں چلاگیا ہے تو اس کی کتاب کو اگر پہلی جماعت کے بچے کو دے دیا جائے تو اسکول ٹیچرز کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ ہم نے نئی کتاب میں چند تبدیلی کی ہے آپ کو تمام کورس کی کتابیں ہمارے پاس سے نئی خریدنے پڑیں گی جبکہ ان نئی کتابوں میں ایک نظم یا ایک مضمون کوتبدیل کیا گیا ہے۔یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ وطنِ عزیز میں شعبہ تعلیم ایک منظم کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مختلف ادوار میں حکومتی سطح پر تعلیمی شعبے سے برتی جانے والی غفلت سے سرکاری اسکولوں کا معیار پست ہوتا گیا جس کے نتیجے میں پرائیویٹ اسکولوں کی ایسی اجارہ داری قائم ہوئی کہ اب نجی انتظامیہ کی طرف سے من مانی فیسیں وصولنے، کتابیں، یونیفارم مہنگے داموں فروخت کرنے کی شکایات عام ہو گئی ہیں۔ نجی اسکولز اور بعض بک شاپس کے گٹھ جوڑ کے باعث طالبعلموں کو مہنگی کتابیں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کراچی بکس ایسوسی ایشن کے نمائندے کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ اسکول والدین پر شرط عائد کرتے ہیں کہ نصابی کتابیں، کاپیاں مخصوص دکانوں سے لی جائیں جبکہ یہی کتب عام بک شاپس سے ساٹھ فیصد سستی ملتی ہیں۔ اس رجحان سے طلبا کے والدین کا مالی استحصال تو ہو ہی رہا ہے وہیں دوسری طرف حکومتی انتظامیہ کی طرف سے مختلف شہروں میں قائم کتابوں کے مرکز اردو بازار کے عام دکانداروں کی فروخت میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ ضروری ہو گیا ہے کہ اسکولوں کی مخصوص شاپس کے ذریعے مہنگی کتابیں بیچنے اور ناجائز منافع کمانے پر پابندی لگائی جائے۔ اسی طرح یہ شکایت بھی عام ہے کہ عدالت عظمی کے فیسوں میں ناجائز اضافہ ختم کرنے کے حالیہ فیصلے اور جون جولائی کی فیس میں سے ایک ماہ کی فیس واپس یا ایڈجسٹ کرنے کے احکامات پر عملدرآمد میں ابھی تک اکثر نجی اسکول ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، قابل افسوس ہے۔ عدلیہ کے احکامات پر عمل کیلئے وزارتِ تعلیم کو متحرک کردار ادا کرنا ہو گا، یہ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ تعلیمی شعبے کو کاروبار بنانے والوں کے خلاف ایکشن لے۔ہم تما م ارباب اختیار سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ تمام پرائیویٹ اسکولوں سے کاپیاں،کتابیں اور اسٹیشنری کے کاروبار پر پابندی عائد کی جائے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہے کہ کراچی کے تمام نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسے یونیفارم، کاپیوں اور کتابوں کا انتخاب کریں جو تمام تعلیمی اداروں میں یکساں ہوں اور باآسانی مارکیٹ میں دستیاب ہوں تاکہ بچوں کے والدین پر فیسوں کے بھاری بوجھ کے علاوہ مہنگا یونیفارم، کاپیوں اور کتابوں کو خریدنے کا بوجھ کم ہو سکے۔