میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کوڑے دان

کوڑے دان

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۹ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

بے لگام / ستارچوہدری

میرے زیادہ تر دوست عمر میں مجھ سے بڑ ے ہیں ،میں ان سے سیکھتا ہوں،ان کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر باتیں سنتا ہوں،میرا نظریہ ہے آدمی کو اپنے تجربے کرنے سے بہتر ہے دوسروں کے تجربے سے سیکھا جائے۔۔۔ اور سیکھنے کیلئے دوسروں کو سنا جائے،بولنے والے نہیں، سننے والے ہی سیکھتے ہیں۔۔۔ویسے بھی آدمی کو بولنے سے زیادہ سننا چاہیے،تکنیکی وجوہات ہی دیکھ لیں،اللہ تعالیٰ نے سننے کیلئے دوآلات (کان) دیئے ہیں جبکہ بولنے کیلئے صرف ایک آلہ (زبان)۔۔۔۔
دوستوں میں تمام شعبہ جات کے لوگ ہیں،ماہر معاشیات،قانون،سیاست،مذہب،میڈیکل ودیگر،جونہی کوئی مسئلہ پیش آئے،ان کے پاس جاتا ہوں،اگر جا نہ سکوں تو کال کرتا ہوں۔ یہ لوگ میرا سرمایہ ہیں،میری پہچان ہیں،میری طاقت ہیں،مجھے ان پرفخر ہے۔گزشتہ دنوں ایک سترسالہ دوست منظور صاحب کے ساتھ کہیں جانے کا اتفاق ہوا،راستے میں تین واقعات پیش آئے،ان تین واقعات نے میری سوچ تبدیل کرکے رکھ دی،مجھ میں ہروقت غصے میں رہنے والی عادت ختم کردی،میرے نظریات بدل گئے،ذہن پرراج کرنے والے منفی اثرات مثبت ہوگئے،میں ہر وقت سڑنے،بلنے کی بجائے خوش رہنے لگا،میں اب کھل کر مسکراتا ہوں،لطیفے پڑھتا ہوں،سنتا ہوں،سناتا ہوں، موسیقی سے لطف اندوز ہوتا ہوں،ہفتے میں ایک،دوبارمووی بھی دیکھتا ہوں۔زندگی بدل کر رہ گئی ہے،یوں لگتا ہے کالج لائف لوٹ کرآگئی ہے۔میں اپنے ان،ساٹھ،ستر سال کی عمر کے دوستوں کو ہمیشہ نوجوان کہہ کر مخاطب ہوتا ہوں،جب انہیں کہتا ہوں۔۔۔۔
نوجوان!! کیا حال ہے،وہ مسکراتے ہیں،اکثر وہ پھر مجھے آگے سے کہتے ہیں،جی بابا جی۔۔۔بات کرتے ہیں،ان تین واقعات کی، جنہوں نے میری زندگی بدل کررکھ دی۔۔۔منظور صاحب گاڑی چلا رہے تھے،میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا،ایک موٹر سائیکل سوار نے گاڑی کو ٹکر ماردی،گاڑی کو کافی بڑا گڑھا پڑ گیا،ہم دونوں گاڑی سے اترے،منظور صاحب نے غصے ہونے اور اس آدمی کوبرا بھلا کہنے،اس سے لڑنے جھگڑنے کے بجائے اس کی خیریت دریافت کی،پوچھا،کہیں چوٹ تو نہیں آئی، پانی کی بوتل دی۔۔۔معذرت کرتے ہوئے دوبارہ گاڑی میں آکر بیٹھ گئے، موٹر سائیکل سوار منہ دیکھتا رہ گیا۔۔۔ دوسرا واقعہ مارکیٹ میں پیش آیا،کار پارک کرتے ہوئے ایک شخص نے منظور صاحب کو غلیظ ترین گالی نکال دی،ایسی گالی پر تو قتل ہوجاتے ہیں،دشمنیاں پڑ جاتی ہیں،مجھے کافی غصہ آگیا،میں اس شخص کو سبق سکھانے کیلئے آگے بڑھا،منظور صاحب نے میرا ہاتھ پکڑلیا،مسکرائے،کہنے لگے غصے کو تھوک دو،خود پر کنٹرول کرناسیکھو،وہ شخص ردعمل دیکھنے کیلئے تیار کھڑا تھا،منظورصاحب ان کے پاس گئے،بولے،بھائی جان میری وجہ سے آپ کو کوئی تکلیف ہوئی ہے تو اس سے معذرت چاہتا ہوں، سوری بولتے ہوئے منظورصاحب میرا ہاتھ پکڑ کرچل دیے،وہ شخص منہ دیکھتا رہ گیا۔۔۔تیسراواقعہ منظورصاحب کے دفتر میں پیش آیا، دفتر کے پیچھے ان کا گھر ہے، آگے کافی بڑا صحن،دفتر کے آگے کافی بڑی کارپارکنگ ہے،آگے چار دیواری اور گیٹ ہے،ہمسائے نے ٹریکٹر ٹرالی گزارتے ہوئے ٹکر مارکردیوار گرا دی،گرنے کی کافی اونچی آواز آئی اور زلزلے کی طرح جھٹکا لگا،ہم بھاگ کر باہر آئے دیوارگری ہوئی تھی، ہمسایہ شرمندہ ہونے یا ڈرنے کے بجائے لڑنے کے موڈ میں کھڑا تھا،یوں لگ رہا تھا جیسے غلطی دیوار کی ہو،دوسری طرف منظور صاحب خوش باش،ہنستے ہوئے اس شخص کے پاس گئے اور کہا ٹریکٹر کو زیادہ نقصان تو نہیں پہنچا،اگر کوئی خرابی پیدا ہوئی تھی تو میرے دوست کی ورکشاپ ہے وہاں ٹھیک کروالینا،اس آدمی کا ہاتھ پکڑا اور دفتر لے گئے،شربت پلایا،گپ،شپ کی اور پھر اسے باہر چھوڑ کرآئے۔۔۔ وہ شخص منہ دیکھتا رہ گیا۔۔۔ڈنر کا وقت ہوگیا،ہم دونوں نے دفتر میں ہی کھانا کھایا، فارغ ہوکرلان میں آکر بیٹھ گئے،چائے کے ساتھ گپ شپ شروع ہوگئی۔۔۔میرے آنکھوں کے سامنے تین واقعات ہوئے تھے،میرے پاس کرنے کیلئے کافی سوال تھے، جومیں پوچھنا چاہتا تھا، بات چل پڑی۔۔۔منظور صاحب!! بتاؤ،موٹر سائیکل سوار کی غلطی تھی،اس نے گاڑی کو کافی نقصان پہنچایا،الٹا آپ نے اس سے معذرت کی، اور پھر پارکنگ میں جو واقعہ پیش آیا،اس آدمی کی غلطی تھی،گالی نکالی،اور آپ نے اس کو سوری بولا اور جس شخص نے دیوار گرائی،آپ نے اس سے بھی معذرت کی۔۔۔یہ سب کیا ہے؟ آپ نے ان لوگوں کے غلط کاموں کی حوصلہ افزائی کی ہے، وہ اور لوگوں کے ساتھ بھی ایساسلوک کرینگے،وہ عادی ہوجائیں گے،اس کے ذمہ دار آپ ہیں۔۔۔
منظورصاحب مسکرائے،بولے ایسا نہیں،جیسا آپ سوچ رہے ہیں۔دیکھو!! یہ لوگ دکھی ہیں،پریشان ہیں،غمگین ہیں،ستائے ہوئے ہیں،ڈپریشن کا شکار ہیں،کوئی بیوی سے لڑ کر آرہا ہوتا ہے کوئی والدین سے،کوئی بچوں سے تنگ ہوتا ہے،کوئی یوٹیلٹی بلز کی وجہ سے پریشان، کوئی گھر کے کرائے کی وجہ سے دکھی،کوئی ا سکول میں بچوں کی فیس لیٹ ہونے پرمایوس،کسی کو عمران خان کی قید کا غصہ،کسی کو نواز شریف کے وزیراعظم نہ بننے کا دکھ،کسی کو فوج سے،کسی کوعدلیہ سے،کسی کو پولیس سے گلہ شکوہ،کوئی رشتے داروں سے ناراض،کسی کا بھائیوں سے جائیداد کاپھڈا،کوئی بینک کے قرضوں میں جکڑا ہوا۔۔۔ ایسے لوگ اپنے غم ساتھ لے کر پھر رہے ہوتے ہیں،ہر وقت غصے میں ہوتے ہیں، انہیں لڑنے کیلئے بس کوئی بہانہ چاہیے،یہ لوگ اپنا غصہ دوسروں پر نکالتے ہیں،اپنا اور دوسروں کا نقصان کرتے ہیں،عقل مندی یہی ہے، ان سے لڑنے کے بجائے،معذرت کرلیں،ممکن ہے شرمندہ ہوکرآئندہ ایسا نہ کریں۔۔۔۔منظور صاحب نے چائے کاآخری گھونٹ لیا اور بولے،نوجوان!! آپ یہ سمجھیں،ایسے لوگ کوڑے کے ٹرک لیکر چل پھر رہے ہوتے ہیں،انہیں بس کوڑے دان کی تلاش ہوتی ہے،جونہی کوئی کوڑے دان نظرآیا،یہ اپنا ٹرک وہاں الٹ دیتے ہیں۔۔۔۔ اور میں کوڑے دان نہیں بننا چاہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں