اسلامی ٹچ
شیئر کریں
دوستو، کپتان کے آزادی مارچ میں تقریر جاری تھی اچانک درمیان میں ان کے ایک قریبی ساتھی نے باآواز بلند سرگوشیانہ انداز میں خان صاحب کے کان میں کہا۔۔ تھوڑا اسلامی ٹچ بھی دیں۔۔یعنی تقریر میں کوئی اسلامی بات بھی کریں۔۔ یہ چھوٹا سا کلپ سوشل میڈیا پر اتنا وائرل ہوا کہ ہم بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔۔ ہمارے احباب اکثر ہم سے شکوہ کرتے ہیں کہ ۔۔آپ کی اوٹ پٹانگ باتوں سے ہم بہت لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اچانک آپ ان اوٹ پٹانگ باتوں میں اسلامی ٹچ دے دیتے ہیں تو ہمیں سنجیدہ ہونا پڑجاتا ہے۔۔ایسے احباب کو ہم جواب میں کہتے ہیں۔۔ بطور مسلمان جب تک ہماری زندگیوں میں اسلامی ٹچ نہیں آئے گا، ہم مسلمان کہلائے جانے کے مستحق نہیں ہوں گے۔۔ اسلامی ٹچ ہماری چوبیس گھنٹے کی زندگی میں ازحد ضروری ہے۔۔ دن میں پانچ نمازیں، جھوٹ سے مکمل پرہیزایسے لاتعداد اعمال ایسے ہیں جن پر عمل کیا جائے تونہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی بھلائی ہی بھلائی اور موجاں ای موجاں۔۔ بقول علامہ اقبال صاحب۔۔عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔۔یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے ناری ہے۔۔اس شعر کو ہمارے ایک لبرل دوست جب بھی پڑھتے ہیں تو ’’خاکی‘‘ پر زور دیتے ہیں، جب ہم اس زور کی وجہ دریافت کرتے ہیں تو ببانگ دہل کہتے ہیں۔۔ ’’خاکی‘‘ سے ہی اس ملک کا نظام چل رہا ہے ورنہ سیاست دانوں نے تو اس ملک کو ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔چ لیے یہ باتیں تو چلتی رہیں گی۔۔ اپنی اوٹ پٹانگ باتیں شروع کرتے ہیں، آج چونکہ اتوار ہے اس لیے آج فل تفریح ماحول ہونا چاہیئے۔۔
جون ، جولائی میں ہرسال بچوں کے اسکولوںکی چھٹیاں پڑتی ہیں۔۔ اس بار کے لیے باباجی نے تمام شوہروں کو ایک نسخہ کیمیا دیا ہے۔۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔گرمیوں کی چھٹیاں ہونے والی ہیں۔ کسی ایک کے گھر جاکر اُس پر بوجھ نہ بنیں۔ بچوں کو نانی کے گھر بھیج دیں ۔۔بیوی کو اُس کے ابو کے گھر بھیج دیں۔۔اور آپ خود اپنے سسرال چلے جائیں۔۔ایک نوجوان پہلی بار ٹرین میں سفر کررہا تھا۔۔ مسافروں سے پوچھا، ساہیوال کب آئے گا، مجھے اترنا ہے۔۔مسافروں نے کہا۔۔بھائی یہ ٹرین ساہیوال سے گزرے گی مگر رکے گی بالکل بھی نہیں۔۔یہ سن کر نوجوان گھبرا گیا ، مگر مسافروں نے اسے تسلی دی ، دلاسہ دیا کہ گھبرانا نہیں ہے۔۔ساہیوال اسٹیشن سے گذرتے ہوئے یہ ٹرین آہستہ ہو جاتی ہے۔۔تم ایک کام کرنا جیسے ہی ٹرین آہستہ ہو تو تم دوڑتے ہوئے ٹرین سے اتر کر آگے کی طرف بھاگ پڑنا،جس طرف ٹرین جا رہی ہے اس طرح کرو گے تو تم گروگے نہیں۔۔نوجوان کو مسافروں کا مشورہ بہت پسند آیا۔۔ ساہیوال آنے سے پہلے ہی مسافروں نے نوجوان کو گیٹ پر لے جاکرکھڑا کردیا۔۔جیسے ہی ساہیوال اسٹیشن پر ٹرین تھوڑی آہستہ ہوئی تو نوجوان نے مسافروں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پلیٹ فارم پر چھلانگ لگادی اور کچھ زیادہ ہی تیزی سے دوڑ گیا۔۔اتنا تیز دوڑا کہ گرتا پڑتا ساتھ والے اگلے ڈبے تک جا پہنچا۔ اگلے ڈبے کے کچھ مسافر دروازے میں کھڑے تھے ان مسافروں میں کسی نے نوجوان کا ہاتھ پکڑا، تو کسی نے شرٹ پکڑی اورنوجوان کو کھینچ کر ٹرین میں چڑھا لیا۔۔اب ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی اور سب مسافر کہے رہے تھے۔۔تیرا نصیب اچھا ہے جو تجھے یہ گاڑی مل گئی۔ورنہ یہ ٹرین ساہیوال میں نہیں رکتی!! واقعہ کی دُم: یہ قصہ قطعی غیرسیاسی ہے،اسے حالات حاضرہ سے ہرگز نہ جوڑا جائے۔۔
خاتون خانہ نے گھر کی ملازمہ کو دیکھا جو صوفے پر بیٹھی بڑے آرام سے موبائل پر کسی سے گفتگو کررہی تھی۔۔ خاتون خانہ نے طنزبھرے انداز میں ملازمہ سے پوچھا۔۔ تم بیکار بیٹھی بیٹھی تھک نہیں جاتیں۔۔ملازمہ نے بیگم صاحبہ کے طنز کو نظرانداز کرتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا۔۔ مجھے آپ کی خاطر تھکنے کی پروا نہیں۔۔بقرعید بھی سر پر کھڑی ہے۔۔ شہر شہر مویشی منڈیوں کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ کراچی میں بھی مویشی منڈی ہرسال کی طرح اس سال بھی لگائی جارہی ہے، جسے ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی بھی کہاجاتا ہے۔کسی نے دیہاتی سے سوال کیا۔۔یہ سامنے جو گائے نظر آرہی ہے، اس کے سینگ کیوں نہیں ہیں۔۔دیہاتی نے غورسے سوال کرنے والے کا چہرہ دیکھا اور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے بڑے فلسفیانہ اندازمیں بولا۔۔سینگ نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں، بعض کے سینگ ٹوٹ جاتے ہیں اور بعض کے ہم کاٹ دیتے ہیں، باقی رہی وہ سامنے والی گائے ۔۔تو اس کے سینگ اس لیے نہیں ہیں کہ وہ گائے نہیں، گھوڑا ہے۔۔۔بچپن میں ایک بار ٹیچر نے ہم سے پوچھا تھا۔۔گائے کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں۔۔ ہم نے اپنے ٹیچرسے کہا۔۔سر،یہ تو کوئی بے وقوف بھی بتادے گا۔۔ ٹیچر تو پھر ٹیچر ہوتا ہے، برجستہ بولے۔۔اسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔ایک بار ہم نے باباجی سے سوال کیا تھا۔۔کیا آپ بتاسکتے ہیں، گائے مفید ہے یا بکری۔۔باباجی نے ہمارے سوال کو بڑے دھیان سے سننے کے بعد جواب دیا۔۔ میرے خیال میں بکری مفید ہے، اس لیے کہ گائے نے ایک بار مجھے ٹکر ماری تھی۔۔
اب ذرا اوٹ پٹانگ باتوں میں تھوڑا سا ’’اسلامی ٹچ‘‘ بھی ہوجائے۔۔ذکر باباجی کا ہورہا ہے تو ایک روز رمضان المبارک میں ہم نے انہیں اتوار کے دن ٹوپی لگائے گلی سے گزرتے دیکھا تو آواز لگائی۔۔باباجی ، کہاں جارہے ہیں؟؟ اتنے تیارشیار ہوکر اور سرپر ٹوپی سجائے۔۔باباجی نے سنجیدگی سے کہا۔۔جمعہ پڑھنے۔۔ہم نے حیرت سے باباجی کی بات سنی اور کہا۔۔مگر آج تو اتوار ہے۔۔ کہنے لگے۔۔ جمعے کے دن مسجد میں رش بہت تھا، میں پڑھ نہیں سکا تھا۔ میں نے سوچا، آج پڑھ لوں۔۔حج سے واپسی پر کچھ ہفتوں تک بیوی نوٹ کرتی رہی کہ ۔۔حاجی صاحب اب مجھے، میری جان۔۔میری پیاری جان۔۔میری ڈارلنگ۔۔ میری جندجان۔۔میری جند دے ٹوٹے جیسے کلمات سے نہیں پکاررہے ہیں۔۔پوچھنے پر حاجی صاحب کہنے لگے۔۔اب بَس! میں اور زیادہ جھوٹ نہیں بولوں گا۔۔شیخ صاحب نے کافی مقدار میں نیل پالش امپورٹ کرلی ۔۔مگر کچھ دن کے بعد ہی مارکیٹ سے شکایت آگئی کہ یہ نیل پالش ناقص ہے کیونکہ ہاتھ دھونے سے اتر جاتی ہے۔ یوں اس کی سیل بالکل ٹھپ ہو گئی لیکن شیخ صاحب بالکل پریشان نہ ہوئے اور انہوں نے نیل پالش کی پیکنگ کو اسلامی ٹچ دے کر لکھوا دیا۔۔۔نمازی خواتین کے لیے Removeable نیل پالش۔۔بس پھر کیا تھا آناً فاناً سارا اسٹاک نکل گیا۔۔فی زمانہ اچھا مال رکھنا کامیاب کاروبار نہیں، دو نمبر مال کو اچھی طرح بیچنا کامیاب کاروبار ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کوئی کسی کا منتظر نہیں ہوتا، ہم فقط خود کو بے وقوف بناتے ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔