میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سوڈان میں خانہ جنگی ایک نیا المیہ

سوڈان میں خانہ جنگی ایک نیا المیہ

ویب ڈیسک
هفته, ۲۹ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوڈان دوحصوں میں تقسیم ہونے کے باوجودآج بھی رقبے کے لحاظ سے افریقہ کا تیسرا بڑا ملک ہے جس میں سے مشہور دریائے نیل گزرتا ہے جواِس کی زرعی پیداوار کا اہم ذریعہ ہے۔ کپاس،گندم،مونگ ، سورج مکھی،باجراوغیرہ اہم زرعی مصنوعات ہیں۔ اِس ملک کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ اگر توجہ دی جائے تو اکیلا سوڈان تمام عرب ممالک کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ زراعت کے ساتھ اِس ملک میں کئی ایک صنعتیں بھی ہیں جو پیٹرولیم ،دواسازی ،صابن ،جوتے،ہتھیار اور آٹوموبائل کا سامان تیار کرتی ہیں اِس ملک کا شمار دنیا کے ایسے خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جس کی برآمدات میں زرعی وصنعتی دونوں قسم کا سامان ہیں لیکن آج کل بدقسمتی کی عملی تصویر ہے جس کی وجہ ملک کے محافظ ہیں۔
رواں ماہ 19اپریل بدھ سے دارالحکومت خرطوم سمیت کئی علاقوں میں شدید لڑائی جاری ہے جنگی طیارے بھی حملے کررہے ہیں ۔ میزائل ، راکٹ اور دیگر خود کار ہتھیاروں سے فوج اور نیم فوجی دستے آپس میں برسرِ پیکار ہیں۔ یہ مسلم اکثریتی ملک ایسی خانہ جنگی کا شکار ہے جس کے دونوں فریق بے دریغ عام شہریوں کو بھی بے قتل کررہے ہیں قتل و غارت کا یہ سلسلہ وعدے کے باوجود عید کے روز بھی نہ تھم سکا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہزاروں شہری ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں ایک مصری اتاشی بھی شامل ہے ۔مزید ستم یہ کہ زخمیوں کوعلاج و معالجے کی سہولیات ہی میسر نہیں کیونکہ ملک میں نہ صرف ادویات اورکھانے پینے کی اشیا کی قلت ہے بلکہ زیادہ تر ہسپتال بھی تباہ کردیے گئے ہیں۔ دارالحکومت خرطوم سے نہ صرف شہری دوسرے علاقوں کی طرف جارہے ہیں بلکہ ہمسایہ ملک چاڈ ،مصر اورجنوبی سوڈان کی طرف ہجرت کرنے لگے ہیں۔ متحارب سپاہ اپنے ملک کو کھنڈرات بنانے میں مصروف ہے جبکہ عالمی طاقتیں امن بحال کرنے کی بجائے اپنے مفاد کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں ۔ خیر کسی کو کیا الزام دیا جائے جب اقتدار کی ہوس میں محافظ ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف ہوں اگر جلد افہام و تفہیم نہ ہواتو سوڈان میں جاری خانہ جنگی المیے کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے ۔
سوڈان میں حالیہ خانہ جنگی کا باعث ایسی اطلاعات بنیں کہ مصر اور اردن میں تربیت پانے والے باسٹھ سالہ فوجی کمانڈر جنرل عبدالفتاح برہان ایسی کوششوں میں مصروف ہیں کہ نہ صرف ملک میں سویلین سیٹ اِپ دوبارہ بحال ہو ابلکہ اِس حوالے سے اُن کی ترجیح ایک بار پھراسلام پسند عمرحسن البشیرہیں( یادرہے کہ 2000میں میں مغربی دارفر میں قبائلی بغاوت کچلنے میں مہارت کا مظاہرہ کرنے پر ہی عمر البشیرنے محمد حمدان المعروف جوحمیتی کو نئی تشکیل پانے والی ریپڈ سپورٹ فورسز کا سربراہ بنایا بلکہ اپنا ذاتی معاون بھی بن لیا ) لیکن جنرل البرہان اب آر ایس ایف کے نیم فوجی دستوں کو ریگولر فوج میں ضم کرنا چاہتے ہیں تاکہ تمام سیکورٹی دستے ایک کمان کے تابع ہو جائیں۔ سویلین سیٹ اَپ کی بحالی سے نہ صرف چالیس سالہ جنرل محمد حمدان کو بے اختیاری کا خدشہ ہے بلکہ نیم فوجی دستوں کو ریگولر فوج کا حصہ بننے سے بھی وہ دوسرے کی ماتحتی میں جانے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ اِس طرح اُن کا جاہ جلال اور خود مختارحثیت متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ سوچ کر ہی آر ایس ایف کے کمانڈر نے بغاوت کی اور اپنی فوج سے دوبدولڑائی میں مصروف ہیں لیکن دوبڑوں کی لڑائی میں شہری آبادی خاک کا رزق بن رہی ہے اور اپنے ملک میں خود کو غیر محفوظ سمجھ کر شہری دارالحکومت چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ تیس ہزار سے زائد شہری ہمسایہ ملک چاڈ میں پناہ لے چکے ہیں کیونکہ حفاظت پر مامور فوجی اپنے شہریوں کو مارنے میں مصروف ہیں جس سے نہ صرف بدترین خانہ جنگی کاخطرہ ہے بلکہ المیہ جنم لے سکتاہے۔ یہ خانہ جنگی کب ختم ہوگی ااور ملک میں حقیقی و پائیدار امن قائم ہو گا، اِس بارے میں یقین سے کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
سوڈان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اِس ملک میں فوج کا کردار کبھی ختم نہیں ہوابلکہ 1956 میںبرطانیہ سے آزادی ملتے ہی حکومتیں ختم کرنے اور تشکیل دینے میں فوج کا کردار کلیدی رہا ہے یہاں کی فوج باربار سیاست میں مداخلت کی مرتکب ہوتی رہی۔ آزادی کے صرف دوبرس بعد1958 میں ملک کے آرمی چیف میجر جنرل ابراہیم آبود نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر بغاوت کی اور اقتدار چھین لیا جب عوامی اضطراب نے انگڑائی لی اور ملک کے طول و عرض میں مظاہر ے ہونے لگے تو 1964 میںفوج اقتدارسے الگ ہوگئی لیکن محض پانچ برس بعد ہی 1969 میں تیسری دفعہ کرنل جعفر نمیری کی سربراہی میں ایک اور فوجی بغاوت نے سویلین سے اقتدار چھین لیا۔ یہ فوجی حکمران بھی عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے۔ غربت و افلاس اور بے روزگاری کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں میں باربارعوامی بغاوتیں ہوتی رہیں ۔ جنھیں فوج بزور دباتی رہی ۔اِس دوران بڑی تعداد میں ہلاکتیں بھی ہوتی رہیں۔ یہ اسلامی ملک طویل عرصہ مسلسل افراتفری اور بے چینی کا مرکز بنا رہا ۔آخر کار 1985میں لیفٹیننٹ جنرل عبدالرحمٰن الدحاب کی سربراہی میں ایک اور فوجی گروہ نے جعفر نمیری سے اقتدار لے لیا، لیکن بڑھتے ملکی مسائل اور عوامی بے چینی سے تنگ آکر ایک برس بعد ہی 1986 میںمنتخب حکومت کے وزیرِ اعظم الصادق الماہدی کے حوالے اقتدار کر دیا مگر یہ منتخب حکومت بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکی کیونکہ ملک میں بے چینی کم ہونے کی بجائے بڑھتی گئی جس کی وجہ سے حکومتی رَٹ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ۔آخرکار فوج کے اسلام پسند بریگیڈئیر عمرحسن البشیرنے جون1989میں الماہدی سے اقتدار چھین لیا اور تیس برس تک بلاشرکت غیرے ملک کے حکمران رہے۔ انھوں نے امریکہ اور برطانیہ کے باربار کہنے کے باجود اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسرائیلی حکومت اُن پر الزام عائد کرتی رہی کہ وہ حریت پسند فلسطینیوں کو ہتھیار وغیر ہ فراہم کرتے ہیں لیکن عمر البشیرنے ہمیشہ ایسے الزامات کی تردید کی مغربی ممالک کے زیرِا ثر این جی اوز کے اُکسانے پر ملک میں عوامی مظاہرے معمول بننے لگے جن کے بارے یہ بات اب پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ مظاہروں کے لیے رقوم بھی مغربی ممالک فراہم کیں عوامی تحریک کے عروج کے دنوں میں ریگولر فوج اور نیم فوجی دستوں کے سربراہان جنرل عبدالفتح البرہان اور محمد حمدان جوحمیتی کے نام سے شہرت رکھتے ہیںنے بھی عمر البشیر حکومت کے خلاف اتحاد کر لیا۔آخرکاروہ گیارہ اپریل 2019کوناقتدار سے دستبردار ہوگئے ۔وہ ابھی تک نظربندہیں لیکن حقیقی جمہوریت بحال نہ ہوسکی۔ جنرل البرہان اور جنرل حمدان نے مظاہرین کو کچلنے کے لیے فوجی دستوں کو وسیع اختیار دیے جنھوں نے سینکڑوں مظاہرین
کو موت کی نیندسُلا دیا۔دونوں جنرلز نے اکتوبر2021 میں عبداللہ حمدوک ایسی حکومت کا خاتمہ کر دیا جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں خاصی عجلت دکھائی لیکن جلد ہی دوبارہ اقتدار واپس دینا پڑا کیونکہ امریکہ اپنے ہمنوا کو ہر صورت اقتدار میں دیکھنے کا خواہشمند تھاحالانکہ سعودی عرب اور امارات نے فوجی حکومت کی مذمت کرنے کی بجائے چُپ سادھے رکھی۔ یہ اشارہ تھا کہ دونوں عرب ممالک کو فوجی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں ۔
سوڈان کے دونوں متحارب جنرلز پر بدعنوانی کے کئی طرح کے الزامات ہیں جنرل حمدان نے اونٹوں کی تجارت چھوڑ کر ایک دم طاقتور ملیشیا کے کمانڈرکا عہدہ سنبھال لیا ان کی شہرت ایسے سفاک ترین کمانڈر کی ہے جنھوں نے بہت کم وقت میں دولت کے انبار جمع کیے اورکم وقت میںحکومتی صفوں میں اثرورسوخ بنایا۔ حمدان نے سونے کی کانوں کے رعایتی منصوبوں سے بھاری رقوم کمائیں ۔اُن پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ یمن جنگ میں ہزاروں فوجی بھیج کرسعودیہ اور یو اے ای سے خطیر رقوم حاصل کیں۔ مغربی ممالک کی ایما پرمہاجرین کو بظاہر روک کر ایک طرف پیسے بٹورے تو دوسری طرف انسانی اسمگلنگ کے ذریعے بھی بھاری مال بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ۔اسی طرح البرہان بھی دولت اور اقتدار کی ہوس کا شکار ہیں ۔یہ دونوں جنرلز دولت اور اقتدار کے بھی بھوکے ہیں اور شہریوں کو مارنے میں بھی دونوں کا ریکارڈ ایک جیسا ہے ۔یہی کچھ آج سوڈان میں ہو رہا ہے۔ اگر متحارب جنرلز اقتدار،دولت اور سفاکی چھوڑ دیں تونہ صرف سوڈان امن وآشتی کا گہوارہ بن سکتا ہے بلکہ یہ ملک زراعت و صنعت میں بھی بے مثال ترقی کرسکتاہے ۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں