میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیر اعظم بلاول؟

وزیر اعظم بلاول؟

ویب ڈیسک
هفته, ۲۹ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بلاول بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی بحران کے کسی موڑپر اگر شہباز شریف وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہوتے ہیں اس میں جو خلا پید ا ہوگا اس موقع کی مناسبت سے آصف زرداری ایک مرتبہ پھر ایک بڑے سیاسی کھلاڑی کی صورت میں اقتدار کے تمام اہم مراکزکو ان کے اطمینان کے مطابق یہ یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی تمام اتحادی جماعتوں کی مدد سے ملک کی معیشت کو ترقی کی طرف گامزن کرے گی۔ سیاسی اور معاشی استحکام پید ا کرے گی۔ بین الاقوامی تعلقات میں توازن رکھے گی ۔ محاذآرائی سے گریز کرے گی ۔ساتھ ہی آصف زرداری اور بلاول بھٹو تحریک انصاف کے سواباقی ان تمام سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرلیتے ہیںجو اس وقت اقتدار میں ہیں، اسی صورت میں بلاول نئے بھٹو وزیر اعظم ہوں گے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے حالات کا رخ ایک ایسی سمت بھی جا سکتاہے جہاں ملک کے سیاسی بحران میں ایسے حالات پید ا ہو سکتے ہیں کہ تمام اہم قوتیں اور موجودہ پی ڈی ایم کسی دبائو اور حالات کی سنگینی کے تحت بلاول بھٹو کوقائد ایوان منتخب کرلے اور وہ وزیر اعظم بن جائیں لیکن یہ ایک عارضی انتظام ہوگا اور چھ ماہ یا سال بعد انہیں انتخابات میں جانا ہوگا۔
عوامی سطح پر مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت کا خوفناک طوفان برپا ہے جس کی شدّت میں روز بروز اضافہ ہورہاہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ برسراقتدار جماعتوں کی عوامی حمایت میں روز بروز کمی واقع ہورہی ہے۔ بلاول بھٹو کی وزارت عظمٰی کے راستے کا بہترین طریقہ کار ذوالفقار علی بھٹو والی پیپلز پارٹی کی واپسی ہے۔ ایک ایسی مقبول عوامی اور نظریاتی جماعت جس کی جڑیں ملک کے تمام حصوں ، محلوں اور گلیوں میں ہو۔یہ ایک مشکل راستہ ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ اس معاملے میں ایک ادارہ بنایا جا سکتا ہے جو بالکل آزاد ہو جس طرح بھارت میں پرشانت کشور نے ایک ادارہ بنا کر مودی کو ملک کا وزیر اعظم بنایااور بی جے پی کو مقبول ترین جماعت بنا دیااسی پرشانت کشور نے بعد میں مودی سے تعلقات ختم کرلیے اور بنگال میں ممتا بنرجی کے لیے کام کیا بی جے پی نے پورے بھارت کے وسائل ،انتظامیہ اور وفاقی ادارے ممتا بنرجی کو ہرانے کے لیے استعمال کیے لیکن پرشانت کشور نے ایسی حکمت عملی اور انتخابی مہم تیار کی کہ ممتا بنرجی نے بی جے پی کے طوفانی حملے کو تہس نہس کردیا اور بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔ پاکستان کی سیاست اور بین الاقوامی سیاسی کھلاڑیوں کے معاملات کو سمجھنے والا شخص ایسا ادارہ بنا سکتا ہے جس کا تعلق پارٹی سے نہ ہو۔ پرشانت کشور کے معاملات کانگریس سے اس لیے طے نہیں ہوسکے کہ سونیا گاندھی،راجیو گاندھی،اور پریانکاگاندھی نے پرشانت کشور کومکمل آزادانہ کام کرنے سے روک دیا۔ وہ بی جے کی بیشتر مخالف جماعتوں کااتحاد بنانے والے تھے لیکن کانگریس پارٹی قیادت کے گرد ایسے لوگوں نے گھیرا ڈال رکھاتھاجو پرشانت کشور کو کامیاب ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ حالانکہ پرشانت کشور کانگریس میںشامل ہونے کو بھی تیار ہوگئے تھے اور کانگریس کو اس کے عروج والی حیثیت میں واپس لانے کاتحریری منصوبہ پیش کرچکے تھے جس پر پارٹی قیادت نے اتفاق کر لیا تھا لیکن اس کے عملدرآمد پر اختلاف رائے پیدا کرایا گیا اور یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ پاکستان میں نچلی عوامی سطح خصوصاً نوجوانوں میںپارٹی کو مقبول بنانے کے لیے ایسا ادارہ تیار کیا جاسکتا ہے لیکن پارٹی قیادت کے قریبی لوگ ہی اس میں رکاوٹ کا باعث بن سکتے ہیں۔عموماً پارٹی قیادت کے ارد گرد موجود بعض اچھے منصوبوں سے پارٹی قیادت کو دور کردیتے ہیں ۔ دوسرا اہم مسئلہ موجودہ اتحاد ہے مسلم لیگ ن یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ پنجاب میں ان کی عوامی حمایت مسلسل کم ہورہی ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے تحریک انصاف سے مذاکرات کے لیے اس پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے پاس سوائے بحران کو طول دینے اور معاملات کو جوںکاتوں رکھ کر وقت گزارنے کے سوا کوئی حکمت عملی نہیں ہے ۔ شہباز شریف آئندہ مدت کے لیے بھی وزیر اعظم رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو کسی صورت میں بھی پنجاب کی سرزمین پر سیاسی طاقت حاصل نہیں کرنے دیں نہ ہی بلاول بھٹوکو بحیثیت وزیراعظم قبول کریں گے۔ البتہ وہ کسی بہت بڑی مجبوری میںنہ چاہتے ہوئے بھی اسے قبول کر سکتے ہیں۔ مولانافضل الرحمان کو آصف زرداری اپنی مفاہمت کی جادگری سے منا سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ بڑے مطالبات مان لینے کی صورت میںمولانا راضی ہو جائیں۔ فی الحال وہ نواز شریف کے قریب ہیں۔انہیں اس دائرے سے باہر نکالنے کا کمال صرف آصف زرداری کے لیے ہی ممکن ہوگا۔ ایک اور مسئلہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کا ہے ۔خود نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیںلیکن اس کے لیے ماحول نہیں بنایا جا سکا ہے۔ نوجوان بلاول جو توانائی اور سیاست میں مسلم لیگی قیادت سے آگے بڑھ رہا ہے اسے مریم نواز پر فوقیت دینا نواز شریف کے لیے مشکل ہوگا۔
موجودہ حالات میں بلاول وزیر اعظم بن سکتے ہیں لیکن سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے جو مسلسل زوال پزیرہے۔ قومی اسمبلی ادھوری ہے دو صوبوں میں اسمبلیا ں نہیں ہیں جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے۔ فوری طور پر کئی ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ مہنگائی میں کمی اور ڈالر کی قیمت کو کم کیے بغیر معیشت کے منجمند پہیّے کو چلانا ناممکن ہے۔ عام انتخابات کے لیے دبائو بڑھتا جا رہاہے۔ انتخابات کی مخالفت سے یہ تاثر دنیا بھر میں عام ہو رہاہے کہ موجودہ حکومت اپنی عوامی حمایت کھو چکی ہے ۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ تباہ شدہ معیشت کو چھ ماہ میں بحال کردیں گے لیکن اب تک انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی کوئی کامیابی نہیں ہے ۔خصوصاً بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداداس حکومت سے سخت ناراض ہے۔ اس کے اثرات سے خود پیپلز پارٹی بھی محفوظ نہیں رہ سکتی۔ آصف زرداری نے حالات کا اندازہ لگایا اور بیان دیا کہ ہم حکومت کے تمام اقدامات کے لیے جوابدہ نہیں ہیں ہم حکومت میں شامل ہیں لیکن یہ ہماری حکومت نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کسی وقتی انتظام میںبلاول بھٹو کو کمزور وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیںیا پھر ایک ایسا وزیر اعظم جو عوام میں بھی مقبول ہو اور طاقت کے مراکز کے لیے بھی قابل قبول ہوزیادہ بہتر ہوگا ۔ موجودہ حالات میں ایک زوال پزیر مسلم لیگ ن کا سہارا بن کر کب تک وہ اس کے منفی اثرات سے خود کو محفوظ رکھیں گے ۔اگر پیپلز پارٹی ایک موثر جماعت کی صورت میں سامنے نہ آئی اور اس کی عوامی مقبولیت پر منفی اثرات کا دائرہ سندھ تک پہنچا تو ایک بڑا خلا پیدا ہوگا اور کوئی نئی سیاسی قوت اس خلا کو بھردے گی۔ پیپلز پارٹی کو ہر صورت اپنی پارٹی کو ایک قومی پارٹی بنانے کے دشوار راستے کو چننا ہوگا آسان راستے سے حاصل کی جانے والی کامیابی دیرپا نہیں ہوگی اور پارٹی پر بھی اس کے منفی اثرات ہوں گے ۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں