رام کا نام روشن کرنے والے بھگت
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے عید الفطر کے موقع پر شہریوں کو مبارکباد پیش کرتے ٹویٹ کیا:عید الفطر کی مبارکباد۔ ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی اور ہمدردی کا جذبہ مزید فروغ پائے ۔ میں سب کی شاندار صحت اور خوشحالی کے لیے بھی دعا گو ہوں۔ عید مبارک!‘‘۔ اسی طرح کا سیدھا سادہ پیغام وزیر اعلیٰ یوگی بھی دے سکتے تھے لیکن انہوں نے مبارکباد دینے کے بجائے کہا کہ عید کی نماز پڑھی جارہی ہے مگر آمدو رفت بند نہیں ہے ۔ اس لیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے ۔ یہ بات اگر درست ہوتی تو ہندو تہواروں کے وقت بھی آمدو رفت متاثر نہیں ہوتی لیکن ایسا تو نہیں ہوتا۔ دوسری دعویٰ یہ کیا کہ کوئی دنگا فساد نہیں ہے ۔ ملک کے سارے فسادی تو ان کی بھارتیہ دنگا پارٹی میں جمع ہیں۔ وہ لوگ تہوار منانے کے بجائے رام نومی یاہنومان جینتی کے وقت راستوں میں جلوس نکال کر دنگا فساد کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کی طرح اگر وہ بھی عزت و قار کے ساتھ اپناتہوار منائیں اور مساجد کے آگے تلوار لہرا کر اشتعال انگیز نعرے نہ لگائیں تو اس موقع پر بھی امن و امان قائم رہے گا لیکن دوسروں کو برا بھلا کہے بغیر ان کی سیاست ہی نہیں چمکتی ۔
گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وزیر اعظم نے نریندر مودی نے فرقہ وارانہ فساد اور جعلی انکاونٹرس کو اپنی سیاست چمکانے کاذریعہ بنایا۔ گجرات فساد کے بعد سہراب الدین سے لے کر عشرت جہاں تک کئی ماورائے قتل کرواکر وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم بن گئے ۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ اسی راہ پر گامزن ہوکر وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ مودی کی جنم بھومی گجرات اور کرم بھومی اترپردیش میں انصاف اور قانون کی نہایت بے حیائی کے ساتھ دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ اس طرح کی قتل و غارتگری سے نہ صرف قانون کو پامال کیا جاتا ہے بلکہ بھٹنڈا کے اندر فوجیوں کے قتل اور جموں کے پونچھ میں حملے کا شکار ہوکر مارے جانے والے فوجیوں کی واردات کو ڈھانپ دیا جاتا ہے ۔ فرقہ پرستی کے نشے میں دھت کرکے جن لوگوں کے ضمیر کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے وہ لوگ عتیق احمد کی اہلیہ شائستہ احمد کی ہراسانی پر خوشی مناتے ہیں۔ ان بزدلوں کو ایک ایسی بیوہ خاتون کا درد بھی محسوس نہیں ہوتا جس کے شوہر کا قتل انتظامیہ کی لاپروائی سے ہوا ۔ اس کے باوجود جب یوگی اپنے حساس انتظامیہ کی تعریف کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے ۔
عتیق احمد اور اشرف کے قاتل لولیش تیواری (22)، موہت عرف سنی پرانے (23) اور ارون کمار موریہ (18) نے خود کو مقامی صحافی ظاہر کرکے اور بھیڑ کے ساتھ گھل مل کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔سچ تو یہ ہے کہ ان بدمعاشوں نے تو صرف ایک بار عتیق احمد کو آدھے منٹ میں قتل کردیا مگر بے غیرت میڈیا پورا ہفتہ اس کہانی کو چیونگم کی مانند چبا چبا کر عوام کے ذہنوں کو مسموم کررہا ہے ۔ اس لیے گودی میڈیا کے نام نہاد صحافیوں جرم ان قاتلوں سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ ان تینوں کے خلاف تو تعزیرات ہند کے تحت قتل اور قتل کی کوشش سے متعلق دفعات اور آرمس ایکٹ اور فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے لیکن گودی میڈیا کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دریں اثنا اتر پردیش حکومت نے عتیق احمد اور اشرف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک تین رکنی عدالتی کمیشن بھی تشکیل دیا ہے ۔ اس کمیشن کی سربراہی ہائی کورٹ کے سابق جج اروند کمار ترپاٹھی کریں گے ۔ سابق جج برجیش کمار سونی اور اتر پردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس سبیش کمار سنگھ اس کے ارکان ہوں گے لیکن ان لوگوں سے عدل و انصاف کی توقع کوئی دیوانہ ہی کرسکتا ہے ۔
میڈیا کا طوطا تو خیر وہی بولتا ہے جو اس کا آقا چاہتا ہے لیکن اس دوران سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرکے عتیق احمد اور اشرف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ماہر کمیٹی تشکیل دینے کی درخواست کی گئی۔اس عرضی میں ایڈوکیٹ وشال تیواری نے 2017 سے اتر پردیش میں ہونے والے تمام 183 ‘‘انکاؤنٹرس’’ کی تحقیقات ک مطالبہ کیا ۔ تیواری نے ماورائے قتل وارداتوں کو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے شدید خطرہ قرار دیا۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‘‘جمہوری معاشرے میں پولیس کو حتمی انصاف فراہم کرنے کا طریقہ یا سزا دینے والی اتھارٹی بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سزا دینے کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس ہے ۔ویسے تو یہ حملہ کھلے عام ہوا ور بظاہر لولیش تیواری، سنی اور ارون موریہ انڈرورلڈ میں اپنا نام کمانے کے لیے کیا لیکن تفتیشی ایجنسیوں کے سامنے سب سے بڑاچیلنج تینوں حملہ آوروں کے سہولت کاروں کا سراغ لگانا ہے ۔ تین مختلف شہروں کے ان مسکین حملہ آوروں نے 7 لاکھ روپے کی جگانہ پستول کیسے حاصل کرلی یہ اہم سوال ہے ۔اس معاملے میں دکھاوے کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے 5 پولیس اہلکاروں کو معطل کردیاگیا ہے جن میں شاہ گنج پولیس اسٹیشن کے انچارج اشونی کمار سنگھ بھی میں شامل ہیں۔ان کے علاوہ ایک سب انسپکٹر اور تین کانسٹبل شامل ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ لیپا پوتی کی کارروائی ہے ۔
عدالتِ عظمیٰ کے علاوہ عتیق احمد اور اشرف کے قتل معاملہ میں یوپی پولیس پر اب قومی حقوق انسانی کمیشن (این ایچ آر سی) نے یوپی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے ۔ این ایچ آر سی یوپی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل اور پریاگ راج کے پولیس کمشنر کو نوٹس بھیج کر 4 ہفتوں میں رپورٹ مانگی ہے ۔ایسا لگتا ہے عالمی میڈیا میں جس طرح حکومت ہند پر زبردست تنقید ہورہی ہے اس کا دباو کم کرنے کی خاطر یہ مرکزی حکومت کی ایک کوشش ہے ۔ این ایچ آر سی نے اپنے نوٹس میں قتل سے متعلق وقت، جگہ اور گرفتار کرنے کی وجہ سے متعلق تمام تفصیلات طلب کی گئی ہیں ۔ حقوق انسانی کے ادارے نے ان کے خلاف درج کی گئی شکایت اور ایف آئی آر کی کاپی منگوائی ہے اور انتظامیہ سے سوال کیا گیا ہے کہ اس نے ملزمین کی گرفتاری کے بارے میں ان کے گھر والوں کو بتایا یا نہیں؟ یوپی کی سفاک حکومت کا اس حساسیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ میڈیا کے ذریعہ جھوٹ سچ نشر کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی ہے ۔
ایک ایسے قتل کی بابت جو کیمرے کے سامنے کیا گیا اور نشر بھی ہوگیا این ایچ آر سی کے ذریعہ یوپی پولیس سے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے ساتھ اس کی ویڈیوگرافی کا سی ڈی بھی پیش کی جائے ٹائپ شدہ رپورٹ کاطلب کیا جانا بے معنیٰ مشق لگتی ہے ۔ ان سب کو دیکھ کر یہ بدگمانی ہوتی ہے مبادہ یہ مجرموں کو بچانے کے لیے حرکت تو نہیں کی جارہی ہے ؟ آج کل سیاستدانوں کے علاوہ انتظامیہ کے نے بھی لاج شرم کو بالائے طاق رکھ دیاہے ۔ فی الحال چاپلوس افسران جانچ کے دوران مقدمہ کو اس قدر کمزور کردیتے ہیں کہ ملزم بہ آسانی چھوٹ جاتاہے ۔نروڈا پاٹیا اور گاوں میں تو جملہ ایک سو آٹھ لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ نرودا گاوں کے تمام مجرم سیشن کورٹ سے باعزت بری ہوگئے ۔ نروڈا پاٹیا کی مایا کوندنانی تو چھوٹ گئی تھیں مگربابوبجرنگی بھی اکیس سال کی سزا کے باوجود باقی سڑسٹھ لوگ بھی ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں ۔ اس سے قبل گجرات کے اندر کلول میں12؍سے زائد افراد کے قتل عام اورایک خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا الزام میں 39 ملزمین میں سے 26 کو پنچ محل ضلع کی ہلول ایڈیشنل سیشن جج نے ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا۔ ان میں سے 13 ماخوذ فیصلہ سے پہلے موت کا مزہ چکھ چکے تھے ۔
فرقہ وارانہ فسادات ااور اس طرح کی قتل و غارتگری کے معاملے میں جانچ کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر یہ کافی نہیں ہے کیونکہ اترپردیش کے ملیانا میں36 سال قبل جن 72 مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا گیا تھا اس کے 39 ملزمین کو عدالت نے تین دہائیوں تک مقدمہ چلانے کے بعد رہا کر دیا گیا ۔قتل عام کا یہ واقعہ 22 مئی 1987 کو رمضان کے آخری جمعہ کے دن پیش آیا تھا۔ اس کے دوسرے دن 24 مئی کو ایک مقامی شخص یعقوب علی نے اس واقعے کے سلسلہ میں 93 افراد کے خلاف ایک مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ ان میں سے 23 کی گزشتہ سماعتوں کے دوران موت ہو گئی اور 31 کا سراغ ہی نہیں لگایا جا سکا۔اس کیس میں جملہ 900 سماعتوں کے بعد بھی مقتولوں کے لواحقین کو انصاف نہیں ملا۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج لکھویندر سنگھ سود کی عدالت نے پچھلے دنوں 39 ملزمان کو یہ کہتے ہوئے رہا کر دیا کہ استغاثہ اس کیس میں کافی ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ مقتولین کے لواحقین اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کریں گے لیکن وہ کب تک چلے گا کوئی نہیں جانتا اوراس وقت کوئی ملزم زندہ بچے گا بھی نہیں یہ کہنا مشکل ہے ۔
وطنِ عزیز میں عام لوگوں کے ساتھ انصافی کا سلسلہ نیا نہیں ہے مگر یہ فرق ضرور واقع ہوا ہے کہ پہلے اس طرح کی ناانصافی کا ارتکاب کرنے کے بعد لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر سزا کے خوف شرمندہ دکھائی دیتے تھے کوئی ڈھٹائی سے اس کا اعتراف نہیں کرتا تھا۔ اب صورتحال قدرے بدل چکی ہے مجرمین کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ان کی ہمدرد و بہی خواہ سرکار انہیں انتظامیہ اور عدالت کے ذریعہ بچا لے گی۔ اس لیے وہ ببانگ دہل جرائم کا ارتکاب کرکے فخریہ انداز میں جئے شری رام کا نعرہ لگا دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر جئے شری رام کا نعرہ دراصل خود مریادہ پرشوتم رام کا نام روشن نہیں کرتا بلکہ انہیں شرمندہ کرنے والا ہے مگرکرسی کی رعونت کا شکار رام بھگتوں کو اس کا احساس ہی نہیں ہے کہ وہ خود اپنے مذہب کوبدنام کررہے ہیں۔ آنجہانی دیو آنند کی ‘ہرے راما ہرے کرشنا’ نامی فلم کا یہ نغمہ اقتدار کے نشے میں مست کل یگ کے رام بھگتوں سے فریاد کرتا ہے
دیکھو اے دیوانو تم یہ کام نہ کرو
رام کا نام بدنام نہ کرو، بدنام نہ کرو
٭٭٭