میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فارما کمپنیوں کا جادو برقرار، قیمتوں کے فراڈ میں وزارتِ صحت کے بہانے جاری

فارما کمپنیوں کا جادو برقرار، قیمتوں کے فراڈ میں وزارتِ صحت کے بہانے جاری

ویب ڈیسک
پیر, ۲۹ اپریل ۲۰۱۹

شیئر کریں

(جرأت انوسٹی گیشن سیل) وزارت صحت تاحال فارما کمپنیوں کی نحوست سے باہر نہیں نکلی۔ وزیر صحت کی تبدیلی نے بھی تبدیلی سرکار کے ایجنڈے کو وزارت صحت میں حرکت نہیں دی۔ اور وزارت صحت اپنی وہی بے تکی باتوں کی تکرار اور بے ڈھنگی رفتارکی شکار ہے۔ اس امر کا انداز ا قومی اسمبلی میں وزارت صحت کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے دیے گئے جوابات سے ہوتا ہے۔ وزارت صحت نے یہ تو تسلیم کیا کہ 31/ دسمبر 2018 کو بھی ہارڈ شپ زمرے کے تحت 490 ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔اول تو یہ ادھورا اعتراف ہے۔ کیونکہ جن ادویات کی قیمتوں میں ا ضافہ ہوا وہ 490 سے کہیں زیادہ تھیں، دراصل ڈریپ(ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی) کے پاس رجسٹرڈ ادویات کا بھی کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں۔ نہ ہی وہ اسے منظرعام پر لانے میں دلچسپی رکھتا ہے، کیونکہ اس طرح ایک تقابل سامنے آجائے گا۔ لہذا وہ کم سے کم معلومات کی دستیابی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کھیل کھیلنے کی گنجائش اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔اس کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر چند مہینوں میں ادویات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر کیوں ہوشربااضافہ ہوا؟ اس کا جواب بھی قومی اسمبلی میں نہایت فضول دیا گیا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزارت صحت یا تو معاملات کا درست ادراک نہیں کرپارہی یا پھر وہ لین دین کے معاملات سے باہر نکل کر عوامی مفادات میں کوئی کام کرنے کو تیار ہی نہیں۔ وزارتِ صحت نے جمعہ کو وقفہئ سوالات میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات قومی اسمبلی میں بتاتے ہوئے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 26فیصد کمی کو اس کا سبب قرار دیا۔ یہ ایک فضول اور ادویہ سازی کے پورے عمل سے مکمل ناواقفیت پر مبنی دقیانوسی موقف ہے جسے باربار، بتکرار دہرایا جاتا ہے۔وزارتِ صحت کے جس عملے نے یہ جواب تیار کیا ہے، اُنہیں اس جواب کی بنیاد پر نوکریوں سے کان پکڑ کر فارغ کردینا چاہئے۔اول تو ادویہ سازی میں استعمال ہونے والے خام مواد کی کیونکہ یہ رقوم کی باہر منتقلی یا منی لانڈرنگ کا ذریعہ ہے۔مگر یہی ایک وجہ نہیں۔


ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی اور نیب غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرفErythrocin سے کمائے گئے ناجائز منافع کے بارے میں تفتیش کریں تو کروڑوں روپے کی ریکوری ہو سکتی ہے


ادویہ ساز ادارے اس سے بھی کہیں زیادہ مکروہ کھیل میں ملوث ہے۔ اول تو ادویہ ساز ادارے خام مال کے مواد کو جب درآمد کرتے ہیں تو اس کا معیار اور مقام یورپی ملک بتاتے ہیں۔ مگر چند ہفتوں بعد وہ یہ خام مواد بھارت اور چین سے منگوانا شروع کردیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر قیمتوں کا کوئی تعین بھی نہیں کراتے۔ یوں وہ معیار کی کمتری کے باوجود ڈالراور رقم کے کسی ٹھوس موازنے کے بغیر ہی قیمتوں میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ اگر ڈالر اور روپے کی قدر کے کسی بھی فارمولے پر ان ادویات کے خام مال کی درآمدات کا مکمل جائزہ اور اس کی عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا موازنہ کر لیا جائے تو تمام کی تمام فارما کمپنیوں اپنی اوقات میں آجائیں گی۔ اس ضمن میں تفصیلات ادویات کے ناموں کے ساتھ بہت جلد شائع کی جائیں گی۔ نیز نیب اگر اس پر ٹھوس تحقیقات کے ساتھ اقدامات کرنا چاہے تو ادارہ جرأت اپنے پاس موجود بے پناہ تفصیلات بھی مہیا کرسکتا ہے۔ جس سے تمام ادویہ ساز اداروں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ یہاں صرف اس ایک نکتے کو واضح کرنا مقصود ہے کہ اس ضمن میں کوئی فارمولا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ پورا کھیل فارما کمپنیوں، وفاقی ڈرگ انسپکٹرز اور ڈائریکٹر ڈرگ پرائس امان اللہ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں اگر امان اللہ کی جائیدادوں کی تفصیلات جمع کرلی جائیں اور ان کے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو سب حقیقتیں بے نقاب ہو جائیں گی۔سردست یہاں ہلٹن اور انڈس فارما کی محض ایک پراڈکٹ کے ذریعے یہ واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ادویات کی قیمتوں کا معاملہ سوائے دھوکے کے کچھ نہیں۔


ہلٹن نے تین ماہ میں Lumefantrine کے خام مال کی پانچ پانچ سو کلو کی تین شپمنٹ درآمد کیں، انوائسز میں اس کی قیمت ڈیڑھ سو ڈالر فی کلو ظاہر کی، جب کہ اس وقت درآمدی قیمت60ڈالر فی کلو تھی


ناجائز منافع خوری، خام مال کی ہیر پھیر اور غیر معیاری ادویہ ساز اداروں کی سرپرستی، ان میں کوئی بھی کام ایسا نہیں جس میں ادویہ ساز اداروں کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، اور پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچرزایسوسی ایشن کی سرپرستی حاصل نہ ہو، ان دونوں کی شہ پر ہی گیٹز اور ہلٹن جیسی کمپنیاں خام مال کی درآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کرتی ہیں تو زافا اور جی ایس کے جیسی کمپنیاں اہم ادویات کی مصنوعی قلت اور ان کی بلیک مارکیٹنگ جیسے کالے دھندے کرتی ہیں، ان اداروں کی سرپرستی میں ہی فارما سیوٹیکل مینو فیکچرزایسوسی ایشن(پی پی ایم اے) کی سبجیکٹ کمیٹی شعبہ برآمدات جنوب کے شریک چیئر مین کے عہدے پر فائز شیخ قیصر وحید جیسے لوگ پنپتے ہیں جو اہل خانہ کے ساتھ مل کر جعلی ادویات بنانے والی کمپنیوں کو غیر قانونی طریقوں سے خام مال فراہم کرتے ہیں۔ فارما سیوٹیکل مینو فیکچرزایسوسی ایشن کے نام پر کلنک کا ٹیکا بن جانے والے قیصر وحید اور ان کے اہل خانہ نے خود تو ادویات کے خام مال میں ہیر پھیر کرکے بے تحاشا دولت سمیٹی بلکہ ان کی سرپرستی میں کئی دیگر ادویہ ساز اداروں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔قیصر وحید کی طرح پی پی ایم اے کے چیئر مین اور انڈس فارما کے مالک زاہد سعید اور ملک بھر میں فلاحی کاموں کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی کمپنی ہلٹن فارما سب سے آگے ہیں۔


ڈریپ اور پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچرزایسوسی ایشن کی سرپرستی میں گیٹز، ہلٹن خام مال کی درآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کرتی ہیں اورزافا، جی ایس کے اہم ادویات کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ جیسے کالے دھندے کرتی ہیں


ہلٹن فارما نے متحدہ عرب امارارت میں واقع کمپنی ARTانٹر نیشنل سے اپنی دافع ملیریا دواPlus Artem کے ایک موثر جُز Lumefantrine کے درآمدی بل میں زیادہ قیمت ظاہر کرکے لاکھوں ڈالر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کیے۔ ہلٹن نے تین ماہ کے عرصے میں مجموعی طور پر اس خام مال کی پانچ پانچ سو کلو کی تین شپمنٹ درآمد کیں۔ انوائسز میں اس خام مال کی قیمت ڈیڑھ سو ڈالر فی کلو ظاہر کی گئی، جب کہ اس وقت Lumefantrine کی درآمدی قیمت60ڈالر فی کلو تھی۔ ہلٹن فارما نے24 /ستمبر، 22 /اکتوبر اور29 / نومبر2012 کو درآمد ہونے والی ان تین شپمنٹ کی مد میں دو لاکھ25ہزار ڈالر کی ادائیگی کی، جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے پندرہ سو کلو Lumefantrine کی ادائیگی نوے ہزار ڈالر کی جانی چاہیے تھی، لیکن ناجائز منافع خوری سے کمائے گئے کالے دھن کو بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے انوائسز میں زیادہ قیمت درج کرتے ہوئے ایک لاکھ 35ہزار ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک بھیجا گیا۔ ایک طرف تو ہلٹن فارما نے ملیریا جیسی بیماری کی ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت زیادہ ظاہر کی دوسری جانب اس کی خوردہ قیمت ایبٹ لیبا رٹریز جیسی کثیر القومی کمپنی کی دوا سے بھی زائد رکھی گئی ہے، حالانکہ ان دونوں ادارو ں کی مینو فیکچرنگ فیسلیٹی میں زمین آسمان کو درآمد ہونے والی ان تین شپمنٹ کی مد میں دو لاکھ25ہزار ڈالر کی ادائیگی کی، جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے پندرہ سو کلو Lumefantrine کی ادائیگی نوے ہزار ڈالر کی جانی چاہیے تھی، لیکن ناجائز منافع خوری سے کمائے گئے کالے دھن کو بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے انوائسز میں زیادہ قیمت درج کرتے ہوئے ایک لاکھ 35ہزار ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک بھیجا گیا۔ ایک طرف تو ہلٹن فارما نے ملیریا جیسی بیماری کی ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت زیادہ ظاہر کی دوسری جانب اس کی خوردہ قیمت ایبٹ لیبا رٹریز جیسی کثیر القومی کمپنی کی دوا سے بھی زائد رکھی گئی ہے، حالانکہ ان دونوں ادارو ں کی مینو فیکچرنگ فیسلیٹی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ہلٹن فارما کی دوا Artem DS Plus 80mg/480mg کے چھ گولیوں کے پیکٹ کی قیمت 379 روپے پچاس پیسے ہیں، جبکہ ایبٹ لیبارٹریز کی Defal کے نام سے اسی پاؤر میں بننے والی دوا کی قیمت351روپے ہے۔ ہلٹن فارما اسی دوا کے تیس ملی لیٹر سسپنشن کو 172روپے پچاس پیسے میں اور ایبٹ لیبارٹریز Defalسسپنشن کو91روپے29پیسے میں فروخت کر رہی ہے۔ ناجائز منافع خوری کی اس دوڑ میں پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچرز ایسو سی ایشن کے چیئر مین اور انڈس فارما کے مالک زاہد سعید سب سے آگے ہیں، ان کی دافع ملیریا دوا Indomal HD 480mg/80mg کے چھ گولیوں کی پیکٹ کی قیمت382روپے66پیسے اور تیس ملی لیٹر سسپنشن کی قیمت105روپے56پیسے ہے۔ یاد رہے کہ ادویات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے میں زاہد سعید کا کردار نہایت مشکوک رہا، اور وہ عوام کو لوٹنے کی اس مہم میں بھرپور طریقے سے شریک رہے۔اگر انڈس فارما میں تیار ہونے والے صرف ایک پراڈکٹ Erythrocin کی گزشتہ تین ماہ کی پروڈکشن اور فروخت کا ریکارڈ نکال لیا جائے تو سارا معاملہ کھل کر سامنے آجائے گا کہ صرف ایک پراڈکٹErythrocin سے ہی عوام سے ہمدردی کا سوانگ بھرنے والے اس بہروپیے نے چند ماہ میں کروڑوں روپے کا اضافی منافع کما لیا۔ انڈس فارما نے Erythrocin ٹیبلیٹ کے سو گولیوں والے پیکٹ کی قیمت 548روپے سے کئی سو گنا بڑھا کر 921روپے کردی، جب کہ اریتھروسین 500ملی گرام کے سو گولیوں کے پیکٹ کی قیمت 1039روپے پچاس پیسے سے بڑھا کر 1640روپے کر دی۔ اگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے منظور شدہ اضافے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو 15فیصد کے حساب سےErythrocin 250ملی گرام کی نئی قیمت 630روپے اوراریتھروسین 500ملی گرام کی قیمت بارہ سو روپے تک ہونی چاہیے تھی، لیکن پاکستان فارماسیوٹیکل مینو فیکچرر ایسو سی ایشن کے چیئر مین چنے کی طرح بکنے والی اس معمولی مگر اہم دوا کے ایک پیکٹ پر291 روپے سے چار سو روپے تک کا ناجائز منافع کماتے رہے۔ اگر ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی اور قومی احتساب بیورو غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اس ایک پراڈکٹ سے کمائے گئے ناجائز منافع کے بارے میں تفتیش کریں تو کروڑوں روپے کی ریکوری ہو سکتی ہے۔
ہلٹن فارما نے سنگا پور میں قائم ایگر و میڈ نامی کمپنی (گیٹز فارما کے لیے کام کرنے والی ’مارس فائن کیمیکلز‘ اور ہلٹن فارما کے لیے کام کرنے والی جعل ساز کمپنی ایگرو میڈ ریسورسز پرائیوٹ لمیٹڈ کا رجسڑڈ کاروباری پتا ایک ہی تھا اس بابت تفصیلی رپورٹ گزشتہ شماروں میں شائع ہوچکی ہے) سے اپنی دوا Methycobalمیں استعمال ہونے والے خام مال Mecobalamin کی درآمدات میں تو بدعنوانی کی نئی مثالیں قائم کردیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ساڑھے تین ہزار ڈالر فی کلو کی اوسط درآمدی قیمت پر ملنے والے اس خام مال کی قیمت انوائس میں 27 ہزار500 ڈالر فی کلو ظاہر کی گئی۔ ہلٹن نے 9/مئی 2012کو دو کلو، 15/جون 2012کودو کلو،11/جولائی کو درآمد ہونے والی ان تین شپمنٹ کی مد میں دو لاکھ25ہزار ڈالر کی ادائیگی کی، جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے پندرہ سو کلو Lumefantrine کی ادائیگی نوے ہزار ڈالر کی جانی چاہیے تھی، لیکن ناجائز منافع خوری سے کمائے گئے کالے دھن کو بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے انوائسز میں زیادہ قیمت درج کرتے ہوئے ایک لاکھ 35ہزار ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک بھیجا گیا۔ ایک طرف تو ہلٹن فارما نے ملیریا جیسی بیماری کی ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت زیادہ ظاہر کی دوسری جانب اس کی خوردہ قیمت ایبٹ لیبا رٹریز جیسی کثیر القومی کمپنی کی دوا سے بھی زائد رکھی گئی ہے، حالانکہ ان دونوں ادارو ں کی مینو فیکچرنگ فیسلیٹی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ہلٹن فارما کی دوا Artem DS Plus 80mg/480mg کے چھ گولیوں کے پیکٹ کی قیمت 379 روپے پچاس پیسے ہیں، جبکہ ایبٹ لیبارٹریز کی Defal کے نام سے اسی پاؤر میں بننے والی دوا کی قیمت351روپے ہے۔ ہلٹن فارما اسی دوا کے تیس ملی لیٹر سسپنشن کو 172روپے پچاس پیسے میں اور ایبٹ لیبارٹریز Defalسسپنشن کو91روپے29پیسے میں فروخت کر رہی ہے۔ ناجائز منافع خوری کی اس دوڑ میں پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچرز ایسو سی ایشن کے چیئر مین اور انڈس فارما کے مالک زاہد سعید سب سے آگے ہیں، ان کی دافع ملیریا دوا Indomal HD 480mg/80mg کے چھ گولیوں کی پیکٹ کی قیمت382روپے66پیسے اور تیس ملی لیٹر سسپنشن کی قیمت105روپے56پیسے ہے۔ یاد رہے کہ ادویات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے میں زاہد سعید کا کردار نہایت مشکوک رہا، اور وہ عوام کو لوٹنے کی اس مہم میں بھرپور طریقے سے شریک رہے۔اگر انڈس فارما میں تیار ہونے والے صرف ایک پراڈکٹ Erythrocin کی گزشتہ تین ماہ کی پروڈکشن اور فروخت کا ریکارڈ نکال لیا جائے تو سارا معاملہ کھل کر سامنے آجائے گا کہ صرف ایک پراڈکٹErythrocin سے ہی عوام سے ہمدردی کا سوانگ بھرنے والے اس بہروپیے نے چند ماہ میں کروڑوں روپے کا اضافی منافع کما لیا۔ انڈس فارما نے Erythrocin ٹیبلیٹ کے سو گولیوں والے پیکٹ کی قیمت 548روپے سے کئی سو گنا بڑھا کر 921روپے کردی، جب کہ اریتھروسین 500ملی گرام کے سو گولیوں کے پیکٹ کی قیمت 1039روپے پچاس پیسے سے بڑھا کر 1640روپے کر دی۔ اگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے منظور شدہ اضافے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو 15فیصد کے حساب سےErythrocin 250ملی گرام کی نئی قیمت 630روپے اوراریتھروسین 500ملی گرام کی قیمت بارہ سو روپے تک ہونی چاہیے تھی، لیکن پاکستان فارماسیوٹیکل مینو فیکچرر ایسو سی ایشن کے چیئر مین چنے کی طرح بکنے والی اس معمولی مگر اہم دوا کے ایک پیکٹ پر291 روپے سے چار سو روپے تک کا ناجائز منافع کماتے رہے۔ اگر ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی اور قومی احتساب بیورو غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اس ایک پراڈکٹ سے کمائے گئے ناجائز منافع کے بارے میں تفتیش کریں تو کروڑوں روپے کی ریکوری ہو سکتی ہے۔
ہلٹن فارما نے سنگا پور میں قائم ایگر و میڈ نامی کمپنی (گیٹز فارما کے لیے کام کرنے والی ’مارس فائن کیمیکلز‘ اور ہلٹن فارما کے لیے کام کرنے والی جعل ساز کمپنی ایگرو میڈ ریسورسز پرائیوٹ لمیٹڈ کا رجسڑڈ کاروباری پتا ایک ہی تھا اس بابت تفصیلی رپورٹ گزشتہ شماروں میں شائع ہوچکی ہے) سے اپنی دوا Methycobalمیں استعمال ہونے والے خام مال Mecobalamin کی درآمدات میں تو بدعنوانی کی نئی مثالیں قائم کردیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ساڑھے تین ہزار ڈالر فی کلو کی اوسط درآمدی قیمت پر ملنے والے اس خام مال کی قیمت انوائس میں 27 ہزار500 ڈالر فی کلو ظاہر کی گئی۔ ہلٹن نے 9/مئی 2012کو دو کلو، 15/جون 2012کودو کلو،11/جولائی کو دو کلو،29/اگست کو دو کلو،19 /اکتوبر کو دو کلو اور27/نومبر کودو کلوMecobalamin 27کئی سو گنا زائد قیمت پر درآمد کروایا۔ درآمد ہونے والے 14کلو Mecobalamin کی ادائیگی تین لاکھ 85ہزار ڈالر کی گئی، جب کہ اس کی حقیقی قیمت49ہزار ڈالر تھی، 14 بدعنوانی کی نئی مثالیں قائم کردیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ساڑھے تین ہزار ڈالر فی کلو کی اوسط درآمدی قیمت پر ملنے والے اس خام مال کی قیمت انوائس میں 27 ہزار500 ڈالر فی کلو ظاہر کی گئی۔ ہلٹن نے 9/مئی 2012کو دو کلو، 15/جون 2012کودو کلو،11/جولائی کو دو کلو،29/اگست کو دو کلو،19 /اکتوبر کو دو کلو اور27/نومبر کودو کلوMecobalamin 27کئی سو گنا زائد قیمت پر درآمد کروایا۔ درآمد ہونے والے 14کلو Mecobalamin کی ادائیگی تین لاکھ 85ہزار ڈالر کی گئی، جب کہ اس کی حقیقی قیمت49ہزار ڈالر تھی، 14 کلو کی اس معمولی مقدار پر بھی ہلٹن فارما نے قومی خزانے کو تین لاکھ 36ہزار ڈالر کا نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کیا۔ ہلٹن فارما نے25/مئی اور 27 /نومبر2012ء کو ایگر میڈ سے ایک ایک کلو Mecobalamin انجکشن گریڈ درآمد کیا جس کی قیمت انوائس میں 32ہزار 500ڈالر فی کلو ظاہر کی گئی، جب کہ اس کی اوسط درآمدی قیمت 7ہزار500 ہزار ڈالر فی کلو تھی۔ دو کلو کی اس معمولی مقدار کی درآمد میں بھی ہلٹن نے پچاس ہزار ڈالر کی منی لانڈرنگ کی۔ ہلٹن فارما کی تیار کردہ Methycobal پاکستان میں اسی موثر جُز Mecobalamin پر بننے والی قومی اور کثیر القومی ادویات سے کئی گنا زیادہ زائد قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ ہلٹن فارما سو گولیوں پر مشتمل پیکٹ کو 16 سو83روپے 64پیسے اور دس انجکشن کے پیکٹ کو936روپے میں فروخت کر رہا ہے۔ جب کہ کثیر القومی کمپنی فائزر پارک ڈیوس کی اسی موثر جُزMecobalamin سے بننے والی دوا Pfibalamin کے سو گولیوں کے پیکٹ کو573روپے اور مرک کی Neurometکے نام سے تیار ہونے والی دوا کی ایک ہزار 82روپے اور دس انجکشن کے پیکٹ کی قیمت697روپے52پیسے ہے۔ ہلٹن فارما پاکستان میں جاپان کی کمپنی Eisai Coکے لائسنس کے تحت تیار کر رہی ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں Wockhardt Ltd نامی دوا ساز کمپنی Eisai Coکے لائسنس کے تحت Methycobal کے نام سے تیار ہونے والی دوا کو ہلٹن سے کم قیمت پر فروخت کر رہی ہے۔ انڈیا میں Methycobal کی پندرہ گولیوں کی قیمت انڈین روپے میں 93روپے20پیسے ہے، یہ رقم پاکستانی کرنسی میں 188روپے 48پیسے بنتی ہے، یعنی فی گولی12 روپے56 پیسے اور ہلٹن فارما یہ دوا پاکستان میں ایک گولی کی قیمت 16روپے 83پیسے وصول کر رہی ہے۔ ہلٹن فارما خام مال کی انوائسز میں زیادہ سے زیادہ قیمت ظاہر کرکے قیمتی زرمبادلہ کو غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک منتقل کرہی ہے، دوسری جانب اسی خام مال سے بننے والی ادویات کو سب سے مہنگا فروخت کرکے عوام کی جیبوں پر بھی ڈاکا ڈال رہی ہے۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں