اسرائیل میںمسلمان جج کی تقرری عالمی برادری کودھوکہ دینے کی ایک چال
شیئر کریں
نیتن یاہو حکومت عالمی رائے عامہ کو بیوقوف بنانا چاہتی ہے اوریہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اسرائیلی متعصب اور نسل پرست نہیں
ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے کہ اسرائیل کی قانون سازکمیٹی نے مسجد سے اذان دینے پر پابندی کے متنازع بل کی توثیق کی تھی
شہلا حیات
اسرائیل کی شرعی عدالت میں پہلی بار ایک مسلمان عرب خاتون حانا خطیب کو جج مقرر کردیا گیا ہے۔یہ تقرری ججوں کی ایک کمیٹی کی جانب سے سفارشات کی روشنی میں کی گئی ہے جبکہ اسرائیلی وزیر انصاف ایلیت شاکید کے مطابق ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک مسلمان عرب خاتون کو جج مقرر کیا گیا ہے جو اسرائیل میں مقیم مسلمانوں کے اسلامی شرعی مقدمات کے فیصلے کریں گی۔حانا خطیب ایک پیشہ ور خاتون وکیل ہیں جو گزشتہ 17 سال سے اسرائیل میں وکالت کر رہی ہیں اور وہ شمالی الخلیل کے قصبے طمرہ میں خانگی امور سے متعلق اسلامی قوانین کی ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے چار بچے ہیں۔’عربی خبررساں ادارے کے مطابق اس وقت اسرائیل میں 9 اسلامی شرعی عدالتیں قائم ہیں جن میں 18 جج تعینات ہیں جبکہ دیگر مذاہب کی کوئی خاتون جج موجود نہیں۔ اپنی تقرری کے 14 دن بعد جسٹس حانا خطیب اسرائیلی صدر رؤوف ریفلین کی موجودگی میں حلف اٹھائیں گی۔ اس سے پہلے 2015 میں فلسطینی اتھارٹی نے پہلی بار شریعت کورٹ میں دو خواتین ججوں کی تقرری کی تھی۔
اسرائیل کی شرعی عدالت میں پہلی بار ایک مسلمان عرب خاتون حانا خطیب کا تقرر اگرچہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے کیونکہ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے کہ اسرائیل کی قانون سازکمیٹی نے مسجد سے اذان دینے پر پابندی کے متنازع بل کی توثیق کی تھی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے نے یہ خبر دیتے ہوئے یہ تفصیل بھی دی تھی کہ اسرائیل کی وزارت انصاف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزرا کی قانون ساز کمیٹی نے اس بل کی توثیق کر دی ہے جس میں مسلمانوں پر مساجد کے اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے خبر ایجنسی کے مطابق اسرائیلی حکام نے مساجد کے اسپیکر سے آنے والی اذان کی آواز کو صوتی آلودگی کا نام دے کر بل کو ’’موذن لا‘‘ کا نام دیا تھا۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کے عرب رکن ایمن ادے نے نئے پیش کردہ مسودے کو مسلمانوں سے نسلی تعصب قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مسودے کا شور شرابے اور انسانی زندگی میں خلل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھاکہ اسرائیل کے متعصب وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے قبل بھی مساجد میں موذن اذان دیتے تھے اور اس کے بعد بھی دیتے رہیں گے۔
ویسے تو گزشتہ سات آٹھ عشروں سے ارضِ فلسطین اور اہلِ فلسطین پر قابض اسرائیلی یہودیوں کے مظالم مسلسل جاری ہیں لیکن اسرائیلی حکومت کا یہ تازہ ظلم سب سے سواہے۔اسرائیلی کابینہ نے مقبوضہ فلسطین اور تمام اسرائیلی علاقوں کی تمام مساجد میں لائوڈ اسپیکرپر اذان دینے پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اِس بِل کو قانون بنانے کے لیے اسرائیلی پارلیمنٹ، کنیسٹ، میں بل جَلد ہی پیش کیا جانے والا ہے۔منظوری کی صورت میں اس پابندی کا اطلاق بیت المقدس کی تمام مساجد پر بھی ہوگا۔
اسرائیل کے معروف اخبا ر ’’ ہارٹز ‘‘ نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی مشہور شدت پسند( اور مسلم دشمن )پارٹی habayit hayehudi کے ایک رکنِ پارلیمنٹ moti yogevنے یہ بِل پیش کیا تھا۔ ’’لیکوڈ ‘‘ پارٹی کے کئی لوگ بھی اس کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ دلیل دی گئی کہ اذانوں کے ’’شور ‘‘سے یہودی زندگیاں ’’منفی ‘‘ طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہوبھی اذان مخالف اِس ’’دلیل ‘‘کی حمایت کرتے ہوئے سامنے آئے ہیں۔
اس صورت حال میں اسرائیل کی شرعی عدالت کے لیے ایک مسلمان خاتون کے تقرر کے فیصلے کی پشت پر کچھ اور ہی مقاصد کارفرما نظر آتے ہیں ،بظاہر اس کی ایک بڑی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسرائیل کی حکومت جسے فی الوقت پوری دنیا کی حقوق انسانی کی تنظیموں کی جانب سے اس کی متعصبانہ اور نسل پرستانہ پالیسیوں پر ہدف تنقید بنایاجارہاہے ، اس طرح کی تقرریوں کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو بیوقوف بنانا چاہتی ہے اور پوری دنیا پر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اسرائیل کی حکومت متعصب اور نسل پرست نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا توایک مسلمان خاتون کو جج مقرر نہ کیاجاتا۔
اسرائیل کی حکومت کو اس وقت جس نازک صورتحال کاسامنا ہے اس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ خود اسرائیل کی لیبر پارٹی نے حکومت کو متنبہ کیاہے کہ دائیں بازو کے سیاستداں نسلی منافرت بھڑکارہے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکاہے۔
اسرائیل کی لیبر پارٹی کے قائد اسحاق ہرزوگ نے صہیونی کیمپ کے پارلیمانی بلاک سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی متنبہ کیاہے کہ اسرائیل میں بڑھتی ہوئی نفرتوں، نسل پرستی کی وجہ سے اندھیرے کے سائے بڑھتے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ہر قدم پر نفرت ہی نظر آتی ہے خواہ وہ فوج میں خواتین ربی کامعاملہ ہو یا صہیونیوں سفارڈی اورمزراہی فرقوں کا اچکینا زیوں کے خلاف مورچہ ہو۔انھوں نے کہا کہ ہم نفرت کے بیج بورہے ہیں جو خانہ جنگی کا سبب بن جائے گی کیونکہ اس منافرت کی حکمرانوں کی جانب سے مکمل طورپر حمایت کی جارہی ہے۔ہرزوگ کاکہناہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اسرائیل میں جو بھی حکومت سنبھالے گا وہ اس منافرت کو کم کرنے کی کوششیں کرنے اور اس طرح کی منافرت پھیلانے کے لیے فنڈز وصول کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اس صورتحال پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھے گا۔
یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اسرائیل کی حزب اختلاف کے رہنما ہرزوگ نے اس متنازع قانون کی منظوری کی بھی بھرپور مخالفت کی تھی جس کے تحت اسرائیل میں کام کرنے والے این جی او کو غیر ملکی فنڈز کے حصول کی صورت میں متعلق ملک اوروہاں سے ملنے والے فنڈ کی تفصیلات بتانے کاپابند بنایاگیاتھا۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والے گروپوں کو پابند کرنے کی کوشش قرار دیاتھا۔
اسرائیلی لیبرپارٹی کے قائد ہرزوگ نے موجودہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے ’’این جی او ٹرانسپرنسی لا‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیلی معاشرے میں بڑھتی ہوئی فاشزم کی علامت قرار دیا۔