میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لاشعوری دباؤ

لاشعوری دباؤ

منتظم
هفته, ۲۹ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں


آدمی حیران ہو جاتا ہے۔کیا واقعی وزیراعظم نوازشریف نے سجن جندال سے اس موقع پر ملاقات کی سبیل نکالی ہے؟ اُن کے ذہن میں کیا رہا ہوگا؟ظاہر ہے کہ ہم فلسفی برٹرینڈ رسل کے تشکیکی مضامین تو نہیں پڑھ رہے جنہیں اُٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاسکے۔یہ مری کی ملاقات ہے۔ جس کی گرمی ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ایک بار پھر وہی سجن جندال ہے اور نواز شریف کے متعلق پُرانے مباحث۔
وزیراعظم نوازشریف پر بھارت کے باب میں نرم گوشہ رکھنے کا ہی چرچا نہیں ہے بلکہ اب اُنہیں اس مسئلے پر کچھ الزامات کا سامنا بھی ہے۔ وہی الزامات جو کبھی اُن کا قلم قبیلہ پیپلزپارٹی پر دھڑلے سے عائد کرتا تھا۔ حیرت ہے کہ اُن ہی الزامات پر نوازشریف کا دفاع بھی وہی کیا جارہا ہے جو کبھی پیپلزپارٹی کے دانشور کیا کرتے تھے۔ کیا یہ ایک معمولی بات ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف کو بھارت کے حوالے سے اُسی نظر سے دیکھا جائے جس نظر سے کبھی بے نظیر بھٹو کو دیکھا گیا تھا۔کسی اور کی بات ہی نہ کیجیے!گزشتہ روز مسلم لیگ نون کے رہنما جنرل (ر) عبدالقیوم نے سجن جندال کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ملک کے منتخب وزیراعظم کی حُب الوطنی پر اس طرح شک نہیں کیا جاسکتا۔ کس نے کیا تھا، سوال میں تو یہ پہلو موجود ہی نہ تھا۔ پھر اُن کے ذہن میں یہ اندیشہ کیسے اُبھرا۔ اُن کا سامنا بھی ایک ریٹائرڈ جنرل (ر) امجد شعیب سے تھا۔ماہر نفسیات فرائڈ نے ژینے کے ’’تحت الشعور‘‘ کے تصور پر تحقیق کرتے ہوئے ’’لاشعور‘‘ کا انکشاف کیا تھا۔ اس بحث میں وہ ایک ’’لاشعوری دباؤ‘‘ کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’انسان کی دبائی ہوئی ناگوار خواہشات لاشعور میں جاگزیں ہوجاتی ہیںاور معاشرے کے مطالبات سے متصادم ہو کر نفسیاتی نظام کو درہم برہم کردیتی ہیں۔‘‘ عرض یہ ہے کہ جنسیات میں ہی نہیں سیاسیات میں بھی مضمون واحد ہے۔ملاقات کرنے والے ہی نہیںاس کا دفاع کرنے والے جنرل کے ساتھ بھی یہی ماجرا ہوا۔
وزیراعظم نوازشریف کو اس موقع پر کیا سوجھی کہ سجن جندال سے ملتے۔ وہ ایک عجیب وغریب ماحول میں ہیں۔ ڈان لیکس کی تلوار ابھی بھی لٹک رہی ہے ۔ اورپاناما لیکس کا فیصلہ آئے ابھی سات روز ہوئے ہیں، جس کے متعلق نوے فیصد تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ اکثریتی رائے سے بننے والے فیصلے میں بھی نوازشریف ابھی پوری طرح بچ نہیں سکے۔ اگرچہ اخبارات نے سرخی برعکس ہی جمائی تھی۔ دو روز قبل عمران خان نے دس ارب روپے کی پیشکش کا تذکرہ کیا تھا۔ ابھی سب عمران خان سے پیشکش کرنے والے کے نام کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مگر اس اونٹ کے آخری کروٹ بیٹھنے کا انتظار کرنا چاہئے۔ ذرائع ابلاغ میں بسا اوقات ایک الگ طوفان اُٹھایا جاتا ہے مگر اس کا نتیجہ برعکس نکلتا ہے۔نوازشریف نے سجن جندال سے یہ ملاقات کی تو ایک دن بعد عمران خان کا اسلام آباد میں جلسہ طے تھا۔ عمران خان نوازشریف کے خلاف تُلے بیٹھے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ حکومت کی تمام سرگرمیوں کا محور اور ہدف عمران خان ہیں۔ حکومت اپنے تمام وزراء کے ساتھ اور مسلم لیگ نون اپنی پوری جماعت کے ساتھ عمران خان کے خلاف روز رزم آرا رہتی ہے۔ پھر نوازشریف کیسے فراموش کرسکتے تھے کہ ایک دن بعد عمران خان جلسہ بھی کریں گے۔ یہ محض اتنی بات نہیںہے۔
پاکستان اس وقت خود ایک عجیب وغریب ماحول میں ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا جو طوفان مچایا ہوا ہے۔ اُس کی بنیادوں کو تلاش کیاجارہا ہے۔ اسی تلاشی میں کلبھوشن دریافت ہوا۔ پہلے بھارت نے اُس سے لاعلمی ظاہر کی۔ اب اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت کا بیٹا ہے۔پاکستانی اداروں نے بآلاخر ایک دہائی کی مغزماری کے بعد بلکہ بعد ازخرابی بسیار حقیقت کا سامنا کرنے کی معمولی جرأت دکھائی ہے۔ احسان اللہ احسان اسی جرأت کا شاخسانہ ہے۔ یہی ابتدائی حل تھا کہ قافلے سے بچھڑی ہوئی بھیڑوں کو پہلے قافلے میں شامل کیا جائے پھر اُس کا حل نکالا جائے۔ وہ جو کچھ اور جیسے بھی ہیں اُن ہی ہاتھوں کے ڈھالے ہوئے ہیں جن سے اب وہ جنگ آزما ہیں اور جن کے خلاف اب وہ بھارت تو کجا اسرائیل کی مدد لینے تک کو تیار ہیں۔ایسی دشمن فضاء میں پاکستان نے کچھ کامیابیاں سمیٹی ہیں جسے بھارت ناکام بنانے پر تُلا بیٹھا ہے۔ کُلبھوشن کے انجام سے دوسرے کو سبق ملنا ہے اور بھارت چاہ رہا ہے کہ اپنے ایجنٹوں کو خوف زدہ ہونے سے بچائے جو کُلبھوشن کے انجام کے بعد یکسوئی کھو دیں گے۔ اس اندیشے میں بھارت تمام حربے آزما رہا ہے۔ یہاں تک کہ تعصب میں گندھی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھارتی پارلیمنٹ کو ایک سے زاید بار یقین دلایا ہے کہ کُلبھوشن کو بچا لیا جائے گا۔ بھارت دھمکیاں ہی نہیںاندرونِ خانہ خاموشی سے منت سماجت بھی کررہا ہے۔ اس کے لیے سفارت کاری کے غیر روایتی طریقوں پر انحصار ہے۔ اس ماحول میں وزیراعظم نوازشریف کو کیا ضرورت آپڑی تھی کہ وہ سجن جندال سے مل کر افواہوں کا بازارگرم ہونے کا موقع دیتے ۔ درحقیقت عمران خان نوازشریف کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہ رہے ہیں خود نوازشریف نے بھی اپنے ساتھ یہی کچھ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔
وزیراعظم نوازشریف پر ناسمجھی سمیت بہت سے الزامات لگے ہیں مگر اُن کی حُب الوطنی کو ہمیشہ بالائے شک سمجھا گیا۔ تاریخ کا یہ ایک عجیب موڑ ہے کہ کبھی پیپلزپارٹی کو بھارت نوازسمجھا جاتا تھا اور اب شک کا یہ دائرہ نوازشریف کے گرد بُنا جا چکا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کو فوج سے اکتوبر 1999 کے تنازع کے بعد جب جبری یا اختیاری جلاوطنی کے طویل عرصے کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک بار پھر بروئے کار آنے کا موقع ملا تواُن کے اندر آنے والی تبدیلیوں میں سے ایک بھارت کے ساتھ اُن کارویہ بھی تھا۔ چنانچہ ابھی اُن کی وزارت عظمیٰ بھی نئی نئی تھی مگروہ 26؍مئی 2014 کو نئی دہلی پہنچ گئے تھے۔ جہاں اُنہوں نے گجرات کے قصاب نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی۔ کسی اور بھارتی وزیراعظم کی تقریب ِ حلف برداری میں شرکت اور نریندر مودی کی تقریب ِ حلف برداری میں شرکت کے معنی الگ الگ تھے۔ مگر وزیراعظم نوازشریف نے اس کی پروا نہیں کی۔ بعدازاں وہ اسی سجن جندال کے گھر تشریف لے گئے تھے۔ جس کا اعتراف خود اُن کے صاحبزادے حسن نواز نے ایک انٹرویو میں کیا تھا۔سجن جندال محترمہ مریم نواز شریف کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر بھی پاکستان تشریف لائے تھے ، تب اچانک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی بغیر کسی پروگرام کے اچانک پاکستان آدھمکے تھے۔ سجن جندال کا نام شریف خاندان کے ساتھ صرف کاروباری مراسم کے طور پر نہیں آتا۔ اس نام کی گونج کچھ مشکوک فضا بناتی ہے۔معروف بھارتی صحافی برکھا دت کی دسمبر 2015 میں ایک کتاب
’’The Unquiet Land-Stories From India’s Fault Lines ‘‘ منظر عام پر آئی تھی۔ مذکورہ کتاب میں وزیراعظم نوازشریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان رابطے کے ایک ذریعے کے طور پر سجن جندال کا نام لیا گیا۔ کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ نومبر 2014ء میںنیپال میں ہونے والی اٹھارویں سارک کانفرنس کے موقع پر بھی نوازشریف اور نریندر مودی کے درمیان ایک خفیہ ملاقات کا بندوبست سجن جندال کے ذریعے کیا گیا تھا۔ اسی طرح ڈیوس میں بھی وزیراعظم اور نریندر مودی کے درمیان ہونے والی ایک خفیہ ملاقات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی ملاقات کے حوالے سے یہ خبر گردش میں رہی ہے کہ نریندر مودی نے پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کوقائل کیا تھاکہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے پیشگی شرائط کا ذکر نہیں کریں گے۔ بعد ازاں یہ نظر بھی آیا۔ اس میں اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ ان ملاقاتوں کی پشت پر سجن جندال ایک رابطہ کار سے زیادہ کا کردار ادا کررہے تھے۔اس پوری تاریخ کے دباؤ میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے اس موقع پر احتیاط کیوں نہیں برتی؟کیا وزیراعظم نوازشریف یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ پاناما فیصلے کے بعد اُسی طرح طاقت ور ہیں؟ اور کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ فوج اُن کی حریف دکھائی دے جس کا وہ سیاسی فائدہ اُٹھا سکیں؟ کیونکہ جنرل راحیل شریف کے بعد یہ صحیح یا غلط تاثر بن رہا ہے کہ نوازشریف کو اب فوج سے کوئی زیادہ خطرہ نہیں رہا۔ اس کا ایک ضمنی پہلو یہ بھی ہے کہ نوازشریف بھارت سمیت دیگر حلقوں میں یہ پیغام دینا چاہتے ہوں کہ وہ اس کھیل کی اصل فیصلہ ساز قوت ہے۔ وجوہات کچھ بھی رہی ہوں، وزیراعظم نوازشریف نے انتہائی ناموافق حالات میں سجن جندال سے ملاقات کا خطرہ مول لیا ہے۔درحقیقت وزیراعظم کے لیے یہ احتیاط کا وقت تھا۔ وکٹر ہیوگو نے کہا تھا کہ ’’احتیاط دانش مندی کی سب سے بڑی بیٹی ہے۔‘‘ یوں لگتا ہے کہ دانش مندی نام کی مائی ایوان وزیراعظم میں شاید بانجھ ہو چکی ہے ۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں