میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسران کا امتحان ( آخری قسط)

اسران کا امتحان ( آخری قسط)

منتظم
هفته, ۲۹ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

زینب کے انٹرویو کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ سامنے ایک اسکرین پر سوال جواب لکھ کر بیان ہونے تھے۔اگر کوئی بات قابل وضاحت ہونی تھی تو اسے زینب خود یا نائمہ کے ذریعے سمجھایا جاسکتا تھا۔تین عدد ڈاکٹر سامنے بیٹھے تھے۔ان کا تعارف زینب کے سامنے رکھے لیپ ٹاپ پر لہرارہا تھا۔ایک سعودی عرب کا ڈاکٹر تھا۔ایسا لگتا تھا کہ اسے القاعدہ نے یہاں Deputation پر بھیجا ہے۔چہرے ،لہجے اور mannerism میں عجلت بھری درشتگی تھی۔ ترکی ڈاکٹر کا چہرہ نرم مگر دیکھنے کا انداز بہت ناپ تول والا تھا۔تیسرا ہندوستانی مسلمان تھا۔زینب سوال جواب کے آغاز سے پہلے Execution Mode میں آگئی۔یہ اعلی نسل کے خفیہ جاسوسوں کا طریق کار ہوتا ہے جس میں انہیں اپنے ذہن کو مکمل طور پر خالی کرکے صرف اپنے مشن پر فوکس کرنے کی مشق کرائی گئی ہوتی ہے۔
زینب کو یہ طریقہ اس کے میاں منصورنے بتایا تھا۔منصور میاں کو کتابیں پڑھنے کا جنون تھا۔ زینب کی سوکنیں یہ کتابیں تھیں ورنہ اسے منصور سے کوئی عدم توجہی اور بے راہ روی کا کوئی اور گلہ نہ تھا۔رات کو جب دیگر جوڑے رشتہ داروں ، اسکول اور ٹیچر ز کی بے حسی، جہالت اور حکومت کی کمینگیوں کی باتیں کرتے کرتے، پیار محبت کرتے سوجاتے ہیں،یہ بے چارے گویائی اور سماعت سے محروم میاں بیوی ایمازون کا بک اسٹور بستر میں کھول لیتے تھے۔بائی دی وے اب تازہ ترین سروے کے مطابق منصور نے یہ طریقہ Deep Undercover: My Secret Life and Tangled Allegiances as a KGB Spy in America نامی کتاب سے سیکھا تھا جو کے جی بی کے ایک ایسے جاسوس Jack Barskyکی کہانی تھی جو کئی سال امریکا میں روس کے لیے جاسوسی کرتا رہا جیسے کل بھوشن یادو حسین مبارک پٹیل بن کر بھارت کے لیے پاکستان میں جاسوسی کرتا رہا۔
زینب Mode Execution والی مشق اگر نہ کرتی تو وہ اس کا سارا دماغ اپنے انٹرویو میں اس خانے میںبھٹکتا رہتا کہ ان تینوں کہ سوالات صرف پیشہ ورانہ موضوع پر ہوں گے۔
پہلا سوال سعودی نے داغا، وہ اسکرین پرکہہ رہا تھا کہ پاکستان بہت برا ملک ہے۔اسلام کا چہرہ وہاں کے مسلمانوں نے مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔یہ بھی کوئی ملک ہے جہاں مساجد اور فوجی تنصیبات تک محفوظ نہ ہوں۔
زینب کو سوال برا تو بہت لگا مگر اس نے اپنے چہرے پر ناخوشگواری کے تاثرات لیپ ٹاپ کا اسکرین آگے پیچھے کرکے چھپالیے۔جواب کچھ یوں دیا کہ ہمارا ملک تو دہائیوں سے دہشت گردی اور جنگوں کا شکار ہے۔ہمارے مشرق ،مغرب اور جنوب میں بھی دشمنان مملکت بیٹھے ہیں لیکن آپ کا ملک تو گہوارہ سلامتی ہے، دولت بھی بہت ہے، قوم زبان بھی ایک بولتی ہے۔حکمران کا فرمان قانون ہے۔ گردن اڑانے میں کوئی عاصمہ جہانگیر اور این جی او آڑے نہیں آتی،پھر خانہء کعبہ پر حملہ کیسے ہوگیا۔ترک ڈاکٹر نے کہا کہ پاکستانی بہت لالچی لوگ ہیں،اچھی رہائش گاہوں ، عمدہ ماحول ،عیاشی اور ڈالر لوٹنے مر پڑ کر امریکا پہنچ جاتے ہیں۔اب زینب بھلے سماعت سے محروم ہو ۔سوچ میں بڑی کڑیل اور کراکری تھی۔اس نے بھی جواب لکھ ڈالا کہ وہ بھی تو امریکا ، ترکی چھوڑ کر آیا ہے، کیا یہ تمام الزامات اس پر بھی صادق آتے ہیں۔
اب باری ہندوستانی ڈاکٹر کی تھی۔ وہ کہنے لگا ہم ہندوستان میںمزے سے نماز سڑکوں سے پڑھتے ہیں ۔بمبئی کی بھنڈی بازار میں کوئی چوہا بھی مسلمانوں کی مرضی کے بغیر دم نہیں ہلاسکتا ۔اچھا ہوا ہم نے تقسیم کے وقت پاکستان بنانے والوں کا ساتھ نہیں دیا۔ تمہارے ہاں تو جماعت میں دھماکے ہوجاتے ہیں۔زینب نے بھی ٹھوک کر جواب لکھا کہ بھارت کا بے شرم چوبیس کروڑ مسلمان اس بابری مسجد کو ٹی وی پر برباد ہوتا دیکھتا رہا جسے فرغانہ سے آنے والے ایک بادشاہ بابر نے ہزار فوجیوں کی مدد سے ہندوستان کے دل ایودھیا میں تعمیر کیا جب کہ ہری مندر اکال تخت پر حملے کے چھ ماہ بعد ہی سکھوں نے حملے کی ذمہ دار وزیر اعظم اور فوجی کمانڈر کو ہلاک کردیا۔اتنے میں زینب کو اپنے کاندھے پرایک شفقت بھرا بوجھ محسوس ہوا۔ یہ اس کی وہی انچارج تھی جس کے پاس وہ پہلے پہل ہسپتال کے فزیو تھراپی وارڈ میں انٹرن شپ کے لیے گئی تھی۔اس نے کہا تمہارے یہ نئے ساتھی ڈاکٹر محض تمہیں چھیڑ رہے تھے۔یہ اتنے برے نہیں جتنے یہ دکھائی دیتے ہیں۔ جائو اور اپنا اپائنٹمنٹ لیٹر پکڑو اور نوکری شروع کرو۔
دن گزرتے گئے، منصور میاں بھی آگئے۔ گرین کارڈ بھی مل گیا۔بیٹا اسران بھی پیدا ہوگیا۔بیٹا حسین اور ذہین تھا۔زینب منصور سے مذاق میں کہتی تھی کہ پاکستان میں یہ دونوں میں سے ایک ہوسکتا تھا۔اسکول میں جانے لگا تھا۔زینب کو یہ دکھ تھا کہ اسکول چرچ کا تھا۔اردگرد کے جن لوگوں کے بچے آتے تھے وہ سیاہ فام تھے ،ہسپانوی اور ہندوستانی تھے۔عرب اور گورے نہ تھے۔امریکا میں بھی ایک آبدوز نما سینہ در سینہ خفیہ اورWater-Tight کلاس وار چلتی ہے۔وہ جو سمجھتے ہیں کہ ان کی طرف بہت مساوات کا ماحول ہے ،تو ایسا نہیں۔ ان کے ہاں ناانصافیوں کا فوری ازالہ ضرور موجود ہے ۔ایک ٹھیلے والا محمود بردار جائرو والا مین ہیٹن میں کسی بڑی ہوٹل چین سے ٹکرائے گا تو انصاف دیتے وقت عدالت اس سے ارسلان افتخار اور جنرل پرویز مشرف والا امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔ قصوار ہونے پر ہوٹل چین کو دھبڑ دھوس کرکے رکھ دے گی۔ایسا ہرجانہ ٹھوکے گی کہ آئندہ ہوٹل والے معصومین کی جانب میلی نظر اٹھا کر دیکھیں گے بھی نہیں۔
کوئی آپ کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈال سکتا مگر پھر بھی گوروں اور یہودیوں کی اپنی ایک دنیا ہے۔اس میں مداخلت آسان نہیں۔
زینب کی مرضی تھی کہ وہ بطور ایک Jump-Startاپنے ببوے اسران کو Gifted & Talented بچوں کاTest دلوادے۔اس سے یہ ہوگا کہ وہ کسی بھی اسکول میں داخلے کے نہ صرف اہل ہوں گے بلکہ انہیں وظیفہ بھی ایسا کس کر ملے گا کہ مہنگی تعلیم بوجھ نہیں بنے گی۔
اسے اسکول کی جانب سے بھیجا ہوا وہ نوٹس نہیں ملا جو اسران میاں کی مختلف ڈرائینگز کے درمیان کہیں گم ہوکر رہ گیا۔اسکول واپسی پر اسران کی طبیعت بھی خراب تھی۔ورنہ وہ اپنی امی کو ضرور بتاتا تھا۔منصور ان دنوں پاکستان گیا تھا۔نوٹس میں ٹیسٹ کی تاریخ، کوائف ، فوائد اور وہ سینٹرز کی نشاندہی کی تھی جہاں اس کے لیے بچوں کو تیار کیا جاتا ہے۔
وہ تو ٹیسٹ سے ہفتہ بھر پہلے زینب اسکول گئی تو استانی نے پوچھ لیا کہ اس نے اسران کا فارم اس ٹیسٹ کے لیے بھر دیا؟آج آخری تاریخ ہے۔بھاگم بھاگ زینب نے فارم بھرا۔امتحان والے دن اسران کے کان میں انفیکشن کی وجہ سے درد تھا۔زینب کو رحم بھی آیا کہ وہ اپنی خواہشات کی کھڈی پر پانچ سال کے بچے کوکھینچ کر دیکھ رہی ہے۔جانے کیوں اس نے یہ سوچ کر یہ خیال مادرانہ شفقت کا شاخسانہ زیادہ ہے۔وہ اسے نیا لیگو سیٹ دلانے کے بہانے لے گئی۔بچہ تھا ،لاکھ نڈھال سہی لیگو کلاسیک سیٹ کے چکر میں امتحان دینے پہنچ گیا۔ظالم مان نے یہ بھی کہا کہ وہ اگر ٹیسٹ میں پاس ہوگیا تو وہ اسے ابو کے ساتھ لندن میں بگ بین مادام تساد کا مومی عجائب گھر دکھانے ،ملکہ برطانیہ سے ملانے لے جائے گی۔اسران میاں کو ملکہء برطانیہ سے زیادہ ہیری پورٹر سے ملنے میں دل چسپی تھی مگر زینب نے اسے سمجھایا کہ وہ تو ایک افسانوی کردار ہے۔
ٹیسٹ دے کر آیا تو دادا نے فیس ٹائم پر امتحان کا پوچھ لیا۔ جس پر اسران نے چڑکر جواب دیا کہ ان کا چوں کہ امتحان سے کوئی تعلق نہیں لہذا وہ اس سے امتحان کے بارے میں کوئی سوال نہ کریں۔ہم کو اسکول میں سکھایا جاتا ہے کہ امتحان اور اپنی بیماری کا تذکرہ ہر ایک سے نہیں کرتے۔ دیدہ بینا و دانش مند، دادا دل دادہ نے اس کا یہ سوچ کر برا نہیں مانا کہ یہ کوئی محفوظ فیصلہ تو ہے نہیں کہ عبدالقیوم صدیقی، عامر متین، وجاہت جیسے اینکرز اس کو شیشہء دل کی طرح تین: دو ،تین: دو کہہ کر اچھالتے پھریں اور شرفاء خاندان کا چہرہ دو دن پہلے سے ہی ایسے جگمگانے لگے کہ ڈیٹرجینٹ کی اجلی دھلائی والی کمپنیاں وسیم اکرم کو ساتھ لیے اشتہاروںمیںانہیںبک کرنے پہنچ جائیں۔ دادی کو جوانی والی دل فریب نگاہ سے دیکھتے ہوئے یہ ضرور جتلایاکہ دیکھو زندہ قومیں ہر فرد کو کیسے اپنی حدود میں رکھتی ہیں۔He may sound rude but he has a sense of properiety
(ہمیں وہ بھلے سے بادی النظر میںبدتمیز لگے مگر مجھے اسران کا احساس ملکیت بہت بھلا لگا)۔جس پر ان کی خانے وال ( پنجاب) سے آئی ہوئی بیاہتا بیٹی تانیانے کہا کبھی اپنے اس نیم پنجابی نواسے دل مراد اعوان کو بھی اسی نگا ۂ تحسین سے دیکھ لیا کریں۔
زینب نے منصور کو اسران کے امتحان کے بارے میں بتایا۔وہ ذرا زیادہ چالاک تھی۔ اسران میاں رات کو کہانی سنانے کی ضد کرنے لگے تو زینب نے کہا You never tell me your stories. I am not going to tell you my stories
)تم مجھے اپنی کہانیاں نہیں سناتے تو میں تمہیں اپنی کہانیاں کیوں سنائوں)
اسران میاں فریب مادر میں آکر احسان اللہ احسان کی طرح فر فر سب بتانے لگے۔وہ کہنے لگے کہ مجھ سے پوچھا کہ’’ تم کو ایسا کیا فن آتا ہے جو دوسرے بچوں کو نہ آتا ہو ۔‘‘
میں نے جواب دیا سائن لینگویج۔جس پر انہوں نے مجھ سے اس زبان میں اشاروںسے سب حروف تہجی پوچھے۔مجھ سے پوچھا کہ اسکول میں کتنے بچے ہیں؟ میں نے کہا ایک سو تیس جس میں اسی لڑکیاں ہیں مجھے سب بچوں کے نام یاد ہیں۔پھر ایک سوال تھاکہ زبانیں کتنی بول سکتے ہو تو میں نے کہا پانچ، عربی (نائمہ کی وجہ سے)انگریزی،ہسپانوی،پنجابی اور سائن لینگویج۔مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کیا اچھا لگتا ہے تو میں نے ٹرین کا بتادیا۔ وہ پوچھنے لگے کہ تم جس جگہ سے سب وے میں بیٹھتے ہو وہاں سے گرانڈ سینٹرل تک کتنے اسٹیشن ہیں۔وہ میں نے ترتیب سے بتادیے تو وہ پوچھنے لگی کہ واپسی کے وقت یہ اسٹیشن کس ترتیب سے آتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ کوئز ٹیسٹ بھی تھے جو میں کئی دفعہ آئی پیڈ کی فری ایپس میں حل کرچکا ہوں۔
منصور نے بتایا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہمارے جامعہ حفصہ بلدیہ ٹائون ،کراچی کے بچے تو اس سے بھی زیادہ ذہین اور یاداشت کا معجزہ ہیں۔وہ تو قرآن کی کئی صورتیں آغاز سے نمبروں سے حتی کہ آخری آیت سے اول تک سنا سکتے ہیں۔ بلکہ ایک بچے نے تو محض اپنے قرآن سے لگائو اور دل چسپی کا مظاہرہ کرتے وقت سورۃالرحمان اس کی مرکزی آیت کے بغیر سنائی۔زینب کو اپنے بچے کے پاکستان کے بچوں کا اس وقت تقابل کچھ اچھا نہ لگا۔
اسران میاں کامیاب ہوئے تو دادا نے مبارکباد دیتے ہوئے پوچھا کہ وہ ان کے لیے لندن سے کیا لائے گا تو اسران نے کہا
You live in strange place and you have funny demands. I work hard and you ask for gifts.
what did they teach you in school.
(تم عجب ملک میں رہتے ہو اور تمہارے مطالبے بھی بہت مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔محنت میں کروں اور انعام تمہیں چاہیے۔اسکول میں یہ تمہیں کیا پڑھاگیا ہے؟
تب تک تانیا اور دل مرادکانجو واپس اوکاڑہ چلے گئے تھے ورنہ تانیا اسران کے دادا اور اپنے ابا جی کو ضرور کہتی :
’’ہن سواد آیا؟‘‘(اب مزہ آیا)
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں