میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹیکس نظام کو آسان بنانے کی ضرورت

ٹیکس نظام کو آسان بنانے کی ضرورت

منتظم
هفته, ۲۹ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر احمد شیخ نے ملک میں یکساں ٹیکس کی وصولی کی مخالفت کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر بہتر اقدامات کیے جائیں تو پاکستان 5 ہزار ارب روپے تک ٹیکس وصول کر سکتا ہے۔سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کی جانب سے منعقدہ صوبائی ٹیکس اصلاحات پر مبنی مشاورتی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے قیصر احمد شیخ نے امریکا کی مثال دی اور کہا کہ امریکی شہری نیویارک سے نیو ہمشائر خریداری کرنے کے لیے جاتے ہیں کیوںکہ نیو ہمشائر میں کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر پورے ملک میں یکساں ٹیکس پالیسی رہی تو کوئی بھی صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔اس سے قبل اجلاس میں شرکاکی بڑی تعداد نے دگنے ٹیکس سے بچنے کے لیے یکساں اور مربوط ٹیکس نظام کے حق میں بات کی۔شرکا نے زرعی ٹیکس لاگو کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس کا سارا بوجھ کاروباری صنعت پر ڈال دیا گیا ہے اور ٹیکس دہندگان کے لیے کوئی مراعات نہیں ہیں۔ قیصر احمد شیخ نے اس صورت حال کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسان زرعی شعبہ میں لاگو ہونے والے ٹیکس سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔بھارت کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت میں زرعی شعبوں کا مارک اپ 14 فیصد جبکہ کاروباری شعبے میں مارک اپ 7 فیصد ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا زرعی شعبہ ہمسایہ ممالک کے زرعی شعبوں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
قیصر احمد شیخ کے اس خیال سے عدم اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ پاکستان میں ٹیکس کی بڑی صلاحیت موجود ہے جس کااندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ پاکستان میں ٹیکس کی وصولی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی 11 فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ وصولی اس کے جی ڈی پی کے 15 سے 16 فیصد تک ہے۔اگرچہ پاکستان میں پچھلے چند برسوں کے دوران ان شعبوں میں بہتری آئی ہے جن میں پراپرٹی ٹیکس شامل ہیں لیکن اس میں بھی بہت سی مشکلات حائل ہیں جس میںایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ جائیداد کی خریداری پر لوگ کثیر رقم ادا کرتے ہیں جبکہ اس جائیداد کی منتقلی کے دوران اس کی قیمت کو بہت کم دکھایا جاتا ہے۔حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش کرنے کے بجائے ٹیکس وصول کرنے کے آسان راستے اختیار کرتے ہوئے بینک ٹرانزیکشن پر ٹیکس لاگو کردیا جس کے تحت بینک کے ذریعے کی جانے والی لین دین کے عوض حکومت کو 30 ارب روپے حاصل ہوئے، اس سے قبل بینک ٹرانزیکشن پریہ ٹیکس موجود نہیں تھا۔
جہاں تک ٹیکس وصولی کی گنجائش کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری پیدا کرنے کے لئے ٹیکس وصولی اور نفاذ کے ذمہ دار افسران ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوششوں کے بجائے محض موجودہ ٹیکس دہندگان کو ہی نوٹس جاری کرکے خانہ پری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس حوالے سے قیصر احمد شیخ کا یہ مطالبہ اپنی جگہ درست معلوم ہوتاہے کہ ٹیکس افسران کی جانب سے بھیجے جانے والے غیر ضروری نوٹسوں کی تحقیقات کرائی جانی چاہئے اور ٹیکس دہندگان اور سرمایہ کاروں، تاجروں کو اس طرح کے بے سروپا نوٹس دے کرپریشانی میںمبتلا کرنے والے ایف بی آر کے افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔
ہماری وزارت خزانہ کے ارباب اختیار کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ جب تک وہ ٹیکس کے نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور ٹیکس کی ادائیگی کو آسان تر بنانے میں کامیاب نہیں ہوں گے تب تک نہ تو وہ ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ ٹیکس وصولی میں کوئی نمایاں اضافہ ہوسکتاہے، زبردستی وصول کئے جاسکنے والے ٹیکسوں کے نفاذ کے ذریعے تو حکومت جتنے چاہے راستے نکال لے لیکن اصل ٹیکس نیٹ اپنی جگہ ہی قائم رہے گا، ہمارے ملک کے ٹیکس کے نظام کی بوالعجبی اس سے زیادہ کیاہوگی کہ جیسا کہ راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے نمائندے اعجاز حسین نے بتایا کہ یکے بعد دیگرے ٹیکس کی وجہ سے اگر کسی کمپنی کو اپنی مصنوعات کی نقل و حمل کرنی ہو تو اس پر6 قسم کے مختلف ٹیکس ادا کرنے ہوتے ہیں جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے لاگو کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دگنا ٹیکس بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ ہر صوبے کا اپنا ٹیکس نظام ہے، جبکہ ملک میں ٹیکس کا ایک مربوط نظام ہونا چاہیئے اور اگر صوبوں کو اس معاملے میں اختلافات ہیں تو صارفین کو نوٹس بھیجنے کے بجائے ان معاملات کو باہمی طور پر حل کیا جانا چاہئے۔ود ہولڈنگ ٹیکس بھی ایک مستقل مسئلہ ہے جس کی کٹوتی صرف پاکستان میں سروسز اور اشیا دونوں کی لین دین پر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ریاض انور کی یہ تجویزمعقول نظر آتی ہے کہ ٹیکس ریٹرن ایک ہی ہونا چاہیئے تاکہ ٹیکس دہندگان کے لیے معاملات آسان ہوجائیں، اس وقت ٹیکس کا بوجھ صرف کاروباری برادری پر ہے، مختلف صوبوں میں مختلف ٹیکس ہونے کی وجہ سے کاروباری برادری کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے اس صورت حال کوتبدیل کرنے کیلئے، پورے ملک میں ایک جیسے ٹیکس نافذ کرنے اور ٹیکس کے قانون کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔مثال کے طورپر پنجاب میں ٹیکس کی حد مقرر ہے لیکن اسلام آباد میں ایسا نہیںہے۔ملک میںغیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول حوصلہ افزا بنانے کے لیے بھی ٹیکس کی تعداد کم کرنا ضروری ہے۔ٹیکسوں کے نظام کو بہتر بنا کر ہم اپنی برآمدات میں بھی اضافہ ممکن ہے ہمارے ملک کو بدقسمتی سے شروع سے ہی تجارتی خسارے کا سامنا رہاہے جوٹیکسوں کے غلط اور بے ہنگم نظام کی وجہ سے وقت کے ساتھ بڑھتاچلاجارہاہے۔ یہ خسارہ 1960کی دہائی میں 1.2 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 1980 کی دہائی میں 27 ارب اور 2000 کی دہائی میں 90 ارب روپے ہو گیا۔ 2015 تک یہ تجارتی خسارہ 2,275 ارب روپے تک پہنچ چکاتھا –
امیدکی جاتی ہے کہ وزارت خزانہ کے ارباب اختیار معروف تاجروں ،صنعت کاروں ،ماہرین معاشیات ، ٹیکسوں سے متعلق امور کے ماہرین اور ارکان اسمبلی کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور ملک کے ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں کو دور کرکے اسے اتنا آسان او ر سادہ بنانے کی کوشش کریں گے کہ سیکنڈری کاایک عام طالب علم بھی ٹیکس گوشوارہ آسانی کے ساتھ حل کرکے جمع کراسکے اور کسی کو سرکاری خزانے میں 200روپے ٹیکس جمع کرانے کیلئے 2ہزار روپے کے رجسٹر بھرنے اور پھر وکیلوں کو بھاری فیس اد ا کرنے کی ضرورت نہ رہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں