
معراج النبی اور سائنسی کمالات
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
جیساکہ آپ سب کو علم ہے کہ آج کی اسپیس اپنے آقانبی اکرم ۖ کے واقعہ معراج النبی اور سائنسی کمالات کے حوالے سے سجائی گئی ہے۔میرایہ ایمان ہے کہ جس کی تعریف خود رب تعالی اور کروڑوں فرشتے کررہے ہوں،اور یہ بھی طے ہو کہ اگرکوئی ایک فردبھی میرے رب کویادنہ کرے تو اس کو کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ اس دنیاکی حیثیت اس کے سامنے ایک لنگڑے مچھرکے پرکے برابر بھی نہیں،پھردوسری بات یہ ہے کہ کیایہ ممکن ہے کہ ایک کلرک یاچپڑاسی اپنے کسی عمل سے کسی ملک کے بادشاہ کے درجے کاعہدہ بڑھانے کی سکت رکھتا ہو؟ جس کے بارے میں میرے رب نے قرآن میں یہ فرمادیاہو کہ ف..اے نبیۖ ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا..لیکن کس کے مقابلے میں بلندکیا،اس کو سمجھنے کیلئے میں ایک دنیاوی مثال دیناچاہتاہوں جس کے بعدہمیں یہ احساس ہوجائے گاکہ ہم آج کس عظیم المرتبت ہستی کاذکرکرنے کیلئے مجلس سجائی ہے کہ جن کے ذکر سے ہمارے درجات بلندہوتے ہیں۔اس کی سمجھ اس وقت تی ہے جب سدرةالمنتہا سے سفرشروع ہواتوسب کچھ میرے آقاۖکے تلووں کے نیچے رہ گیا:پھر قریب ہوئے اوراور آگے بڑھے، تو دو کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم، پھر خدا نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا(نجم:٨:١٠)……..اب ہمیں اسی پر اکتفاکرناچاہئے جتنارب کریم نے ہمیں قرآن میں بتایا ہے۔ ہمیں صدہزارمرتبہ اللہ کا صرف اسی انعام پرشکرگزارہوناچاہئے کہ میرے کریم ورحیم رب نے ہمیں امتِ محمدیہ میں پیدافرمایاکہ قیامت کے روز انہیں اپنی امت کی اس قدر فکر ہوگی جب تمام انبیا”نفسی نفسی”پکاررہے ہوں گے تواس محشرکے سخت شدیدترین دن بھی میرے آقارحمت العالمینۖ ”یاامتی یاامتی”پکاررہے ہوں گے ۔
قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کاصرف پانچ فیصداستعمال کرنے کے بعدانسانی شعورسائنسی کمالات کے افلاک کوچھورہاہے جبکہ بقیہ95فیصد صلاحیتیں انسان سے ابھی تک پوشیدہ ہیں۔وہ علم جوسوفیصد صلاحیتوں کااحاطہ کرتا ہو،اسے پانچ فیصدمحدود ذہن سے سمجھناناممکن امرہے۔واقعہ معراج ایک ایسی ہی مسلمہ حقیقت ہے لیکن جدیدعلم اس کوابھی تک مکمل سمجھ نہیں پایا ۔ معجزات وکرامات کی حقیقت مشاہدے اورفطری قوانین سے مکمل بیان نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ مافوق الفطرت ہوتے ہیں لیکن جدید سائنس آج جہاں تک پہنچ چکی ہے ایسے کاموں کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتاکہ یہ ناممکن اورغیرمعقول ومحال ہیں۔واقعہ معراج بعض لوگوں کی سمجھ میں اس لیے نہیں آتاکہ وہ کہتے ہیں کہ:ایسے فضائی سفرمیں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے غیر معمولی وسائل وذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مداراورمرکزثقل سے نکلنے کیلئے کم ازکم40ہزارکلومیٹرفی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔
دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہرخلامیں ہوانہیں ہے جبکہ ہواکے بغیرانسان زندہ نہیں رہ سکتا۔تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں جوحصہ سورج کی مستقیماروشنی کی زدمیں ہے وہاں جلا دینے والی تپش ہے اورجوحصہ سورج کی روشنی سے محروم ہے وہاں مارڈالنے والی سردی ہے۔اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ(کاسمیٹک ریز)خطرناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجودکاسمیٹک ریز،الٹراوائلٹ ریزاورایکسرے شعاعیں ہیں جواگر فضائے زمین کے باہر تھوڑی مقدار میں بھی انسانی بدن پر پڑیں توبدن کے آرگانزکیلئے تباہ کن ہوتی ہیں(زمین پررہنے والوں کیلئے زمین کے اوپرموجود فضاکی وجہ سے ان کی تپش ختم ہوجاتی ہے)۔
ایک اورمشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچارہوجاتاہے اگرچہ تدریجاًبے وزنی کی عادت پیداکی جا سکتی ہے لیکن اگرزمین کے باسی بغیر کسی تیاری اورتمہیدکے خلامیں جاپہنچیں توبے وزنی سے نمٹنابہت ہی مشکل یاناممکن ہے۔آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اوریہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دورِ حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہرچیزسے زیادہ ہے اوراگرکوئی شخص آسمانوں کی سیرکرناچاہے توضروری ہے کہ اس کی رفتارروشنی کی رفتارسے زیادہ ہو۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ روشنی کی رفتارسے بہت کم رفتارپرزمین پرآنے والے شہابئے ہواکی رگڑ سے جل جاتے ہیں اورفضاہی میں بھسم ہوجاتے ہیں توپھریہ کیونکرممکن ہے کہ حضورۖاتناطویل سفر پلک جھپکنے میں طے کرسکیں۔
مندرجہ بالااعتراضات کی وجہ سے کچھ مخلص مسلمانوں نے یہ تاویل کرنی شروع کردی کہ معراج خواب میں ہوئی اوریہ کہ حضورۖ غنودگی کی حالت میں تھے اورپھرآنکھ لگ گئی اور یہ تمام واقعات عالم ریامیں آپۖنے دیکھے یاروحانی سفردرپیش تھا۔جسم کے ساتھ اتنے زیادہ فاصلوں کولمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہرہے حالانکہ اسراکے معنی خواب کے نہیں جسمانی طورپرایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانے کیلئے ہیں۔سورہ بنی اسرائیل میں لفظ سبحان الذی سے ابتداخوداس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیرمعمولی واقعہ جو فطرت کے عام قوانین سے ہٹ کرواقع ہوا۔ربِ ذوالجلال کواپنی قدرت کاکرشمہ دکھانا مقصود تھالہذا رات کے ایک قلیل حصے میں یہ عظیم الشان سفرپیش آیااوریہ وقت زمان ومکان کی فطری قیودسے آزادتھا۔واقعہ معراج اگرخواب ہوتاتواس میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ خواب میں اکثرانسان مافوق الفطرت اورمحیرالعقول باتیں دیکھتا ہی ہے۔
آئن سٹائن کانظریہ اضافت یاتھیوری آف ریلیٹویٹی Theory of Relativityدوحصوں پرمبنی ہے۔ایک حصہ نظریہ اضافیت خصوصی کہلاتاہے جبکہ دوسراحصہ نظریہ اضافیت عمومی کے نام سے پہچاناجاتاہے اوراس کوسمجھنے کیلئے ہم ایک مثال کاسہارالیں گے۔
فرض کیجئے کہ ایک ایساراکٹ بنالیاگیاہے جوروشنی کی رفتار(یعنی تین لاکھ کلومیٹرفی سکینڈ)سے ذراکم رفتارپرسفرکرسکتا ہے۔اس راکٹ پرخلابازوں کی ایک ٹیم روانہ کی جاتی ہے۔ راکٹ کی رفتاراتنی زیادہ ہے کہ زمین پرموجودتمام لوگ اس کے مقابلے میں بے حس وحرکت نظرآتے ہیں۔راکٹ کاعملہ مسلسل ایک سال تک اسی رفتارسے خلامیں سفرکرنے کے بعدزمین کی طرف پلٹتاہے اوراسی تیزی سے واپسی کاسفربھی کرتاہے مگرجب وہ زمین پر پہنچتے ہیں توانہیں علم ہوتاہے کہ یہاں توان کی غیرموجودگی میں ایک طویل عرصہ گزرچکا ہے ۔ اپنے جن دوستوں کووہ لانچنگ پیڈپرخداحافظ کہہ کرگئے تھے،انہیں مرے ہوئے بھی 50برس سے زیادہ کاعرصہ ہوچکاہے اورجن بچوں کووہ غاں غاں کرتاہواچھوڑگئے تھے وہ سن رسیدہ بوڑھوں کی حیثیت سے ان کااستقبال کر رہے ہیں۔وہ شدید طورپرحیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے توسفرمیں دوسال گزارے لیکن زمین پراتنے برس کس طرح گزر گئے۔ اضافیت میں اسے جڑواں تقاضہ کہاجاتاہے اوراس تقاضے کاجواب خصوصی نظریہ اضافی وقت میں تاخیر کے ذریعے فراہم کرتاہے۔جب کسی چیزکی رفتاربے انتہابڑھ جائے اور روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے لگے تووقت ساکن لوگوں کے مقابلے میں سست پڑناشروع ہوجاتاہے،یعنی یہ ممکن ہے کہ جب ہماری مثال کے خلائی مسافروں کیلئے ایک سکینڈ گزرا ہو توزمینی باشندوں پراسی دوران میں کئی گھنٹے گزرگئے ہوں۔اسی مثال کاایک اوراہم پہلویہ ہے کہ وقت صرف متحرک شے کیلئے آہستہ ہوتاہے۔لہذااگرکوئی ساکن فردمذکورہ راکٹ میں سواراپنے کسی دوست کامنتظرہے تواس کیلئے انتظارکے لمحے طویل ہوتے چلے جائیں گے ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آکرہم نظریہ اضافیت کے ذریعے واقعہ معراج کی توجیہ میں غلطی کرجاتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آنحضرتۖ معراج کے سفرسے واپس آئے توحجرہ مبارک کے دروازے پرلٹکی ہوئی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جیسے کہ آپ ۖچھوڑکرگئے تھے۔ گویااتنے طویل عرصے میں زمین پرایک لمحہ بھی نہیں گزرا۔اگرخصوصی نظریہ اضافیت کومدنظررکھتے ہوئے اس واقعے کی حقانیت جاننے کی کوشش کی جائے تومعلوم ہوگاکہ اصلازمین پرآنحضرتۖکی غیرموجودگی میں کئی برس گزرجانے چاہئیں تھے لیکن ایسانہیں ہوا۔
نظریہ اضافیت ہی کادوسراحصہ یعنی عمومی نظریہ اضافیت ہمارے سوا ل کاتسلی بخش جواب دیتاہے۔عمومی نظریہ اضافیت میں آئن سٹائن نے وقت ٹائم اورسپیس (زمان)اورخلا (مکان) کوایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان ومکان کی مخلوط شکل میں پیش کیاہے اورکائنات کی اسی اندازسے منظرکشی کی ہے ۔کائنات میں تین جہتیں مکانی ہیں جنہیں ہم لمبائی، چوڑائی اوراونچائی (یاموٹائی)سے تعبیرکرتیہیں،جبکہ ایک جہت زمانی ہے جسے ہم وقت کہتے ہیں۔اس طرح عمومی اضافیت نے کائنات کوزمان ومکان کی ایک چادرکے طور پر پیش کیاہے۔تمام کہکشائیں،جھرمٹ،ستارے، سیارے،سیارچے اورشہابئے وغیرہ کائنات کی اسی زمانی چادرپرمنحصرہیں اورقدرت کی جانب سے عائدکردہ پابندیوں کے تابع ہیں۔ انسان چونکہ اسی کائنات مظاہرکاباشندہ ہے لہذا اس کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں۔آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے تحت کائنات کے کسی بھی حصے کوزمان ومکان کی اس چادر میں ایک نقطے کی حیثیت سے بیان کیاجاسکتاہے۔اس نظریے نے انسان کواحساس دلایاہیکہ وہ کتنابے وقعت اورکس قدرمحدودہے ۔
کارل ساگان جوایک مشہورامریکی ماہرفلکیات ہے،اپنی کتاب کائنات(کاسموس)میں ایک فرضی مخلوق کاتصورپیش کرتاہے جو صرف دو جہتی ہے۔وہ میزکی سطح پرپڑنے والے سائے کی مانندہیں۔انہیں صرف دومکانی جہتیں ہی معلوم ہیں جن میں وہ خود وجودرکھتے ہیں یعنی لمبائی اورچوڑائی،چونکہ وہ ان ہی دوجہتوں میں محدودہیں لہذاوہ نہ توموٹائی یا اونچائی کاادراک کرسکتے ہیں اورنہ ہی ان کے یہاں موٹائی یااونچائی کاکوئی تصورہے۔وہ صرف ایک سطح پرہی رہتے ہیں ۔ ایسی ہی کسی مخلوق سے انسان جیسی سہ جہتی مخلوق کی ملاقات ہوجاتی ہے۔راہ ورسم بڑھانے کیلئیسہ جہتی مخلوق،اس دوجہتی مخلوق کوآوازدے کر پکارتی ہے۔اس پر دوجہتی مخلوق ڈرجاتی اورسمجھتی ہے کہ یہ آوازاس کے اپنے اندرسے آئی ہے۔سہ جہتی مخلوق،دوجہتی سطح میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ اپنادیدار کرا سکے مگردوجہتی مخلوق کی تمام ترحسیات صرف دوجہتوں تک ہی محدود ہیں۔اس لیے وہ سہ جہتی مخلوق کے جسم کاوہی حصہ دیکھ پاتی ہے جواس سطح پرہے۔وہ مزیدخوف زدہ ہوجاتی ہے۔اس کاخوف دورکرنے کیلئے سہ جہتی مخلوق،دوجہتی مخلوق کواونچائی کی سمت اٹھالیتی ہے اوروہ اپنی دنیا والوں کی نظرمیںغائب ہوجاتاہے حالانکہ وہ اپنے اصل مقام سے ذراسااوپرجاتاہے۔سہ جہتی مخلوق اسے اونچائی اورموٹائی والی چیزیں دکھاتی ہے اوربتاتی ہے کہ یہ ایک اورجہت ہے جس کامشاہدہ وہ اپنی دوجہتی دنیامیں رہتے ہوئے نہیں کرسکتاتھا۔آخرکاردوجہتی مخلوق کواس کی دنیا میں چھوڑکرسہ جہتی مخلوق رخصت ہوجاتی ہے۔اس انوکھے تجربے کے بارے میں جب یہ دوجہتی مخلوق اپنے دوستوں کو بتاتی اورکہتی ہے کہ اس نے ایک نئی جہت کاسفرکیاہے جسے اونچائی کہتے ہیں،مگراپنی دنیاکی محدودیت کے باعث وہ اپنے دوستوں کویہ سمجھانے سے قاصرہے کہ اونچائی والی جہت کس طرف ہے۔اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ آرام کرواور ذہن پردباؤنہ ڈالوکیونکہ ان کے خیال میں اس کادماغ خراب ہوگیا ہے۔
ہم انسانوں کی کیفیت بھی دوجہتی سطح پرمحدوداس مخلوق کی مانندہے۔فرق صرف اتناہے کہ ہماری طبعی قفس(فزیکل پرزن)چہارجہتی ہے اوراسے ہم وسیع وعریض کائنات کے طور پرجانتے ہیں۔ہماری طرح کائنات میں روبہ عمل طبعی قوانین بھی ان ہی چہارجہتوں پرچلنے کے پابندہیں اوران سے باہرنہیں جاسکتے ۔یہی وجہ ہے کہ عالم بالاکی کائنات کی تفہیم ہمارے لیے ناممکن ہے اوراس جہاں دیگرکے مظاہر ہمارے مشاہدات سے بالاترہیں ۔
اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔عالم دنیایعنی قابل مشاہدہ کائنات اورعالم بالایعنی ہمارے مشاہدے وادراک سے ماورا کائنات دوالگ زمانی ومکانی چادریں ہیں۔یہ ایک دوسرے کے قریب توہوسکتی ہیں لیکن بے انتہاقربت کے باوجودایک کائنات میں جوکچھ ہورہاہے اس کادوسری کائنات میں ہونے والے عمل پرنہ اثرپڑے گا اور نہ اسے وہاں محسوس کیاجائے گا۔ حضور اکرمۖزمان ومکان کی کائناتی چادرکے ایک نقطے پرسے دوسری زمانی ومکانی چادرپرپہنچے اورمعراج کے مشاہدات کے بعد(خواہ اس کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ رہی ہو)آنحضرتۖزمان ومکان کی کائناتی چادرکے بالکل اسی نقطے پرواپس پہنچ گئے جہاں آپۖمعراج سے قبل تھے اوریہ وہی نقطہ تھا جب آنحضرتۖکودروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے۔معراج کے واقعے میں وقت کی تاخیر کی بجائے زمان ومکان میں سفر(ٹائم ٹریول) والا نظریہ زیادہ صحیح محسوس ہوتاہے۔آج کل سائنسی دنیامیں ٹائم ٹریولزیاوقت میں سفرکاتذکرہ عام ہے۔یہ ایک دلچسپ موضوع ہے جس پربنی فلمیں عام لوگوں کیلئے سائنس فکشن ہی ہوتی ہیں۔کیاوقت میں سفرممکن ہے؟
آئیں پہلے آسان لفظوں میں سمجھیں کہ وقت میں سفرکیاہے۔ہمیں جوکچھ نظرآتاہے وہ روشنی کاکسی چیزسے منعکس ہوکراس کاعکس ہماری آنکھ کے ذریعے اعصاب تک لے جانے کی وجہ سے ہے۔روشنی کی رفتارایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل یاتقریباتین لاکھ کلومیٹرفی سیکنڈہے جس کی وجہ سے ہمیں اطراف کے مناظرفورانظرآجاتے ہیں۔اگرکوئی چیززمین سے تین لاکھ کلومیٹردورہے تواس سے منعکس ہونے والی روشنی کی کرن ہماری آنکھوں تک ایک سیکنڈ میں پہنچے گی،اس طرح ہمیں وہ چیزایک سیکنڈپہلے والی نظرآئے گی۔ سورج کافاصلہ زمین سے 150ملین کلومیٹرہے اوراس کی کرن ہم تک تقریباآٹھ منٹ میں پہنچتی ہے،دوسرے لفظوں میں ہمیں جو سورج نظرآتاہے وہ آٹھ منٹ پہلے کاہوتاہے۔
ٹائم ٹریول کوسمجھنے کیلئے فرض کریں،اگرہم روشنی کی دگنی رفتارسے سورج جتنے فاصلے پرموجودکسی ستارے یاسیارے پرجاکرپلٹ آئیں توہماراجاناچارمنٹ میں اور واپسی بھی چار منٹ میں ہوگی اورکل سفرآٹھ منٹ میں ہوگالیکن دلچسپ بات یہ ہوگی کہ زمین پرپہنچ کرہم خوداپنے آپ کوواپسی کاسفرکرتے دیکھیں گے! وجہ اس کی یہ ہوگی کہ کیونکہ روشنی کی وہ کرنیں جو ہم سے ٹکرا کے منعکس ہوکر ہماری متحرک تصاویرلے کرزمین کی طرف آرہی تھیں،ان کوتوقدرتی طور پر ہماری آنکھ تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگنے ہیں جبکہ ہم ان سے پہلے (چارمنٹ میں)روشنی کی دگنی رفتارکی وجہ سے زمین پرآگئے.اس طرح ہمارے متحرک عکس قدرتی وقت(آٹھ منٹ)میں ہماری آنکھوں میں داخل ہوں گے،جس کی وجہ سے ہم خودکودیکھ رہے ہوں گے۔یہی مستقبل یاوقت میں سفرہے،اسی کوٹائم ٹریول کہاجاتاہے،یعنی روشنی کی رفتارسے زیادہ تیزرفتارسفرجس میں حال پیچھے رہ جاتاہے۔جب آپۖ سفر معراج سے واپس تشریف لائے توزمین پر وقت وہی تھاحالانکہ آپ بہت طویل وقت یہاں سے غیر حاضررہے تھے۔ظاہریہی ہوتاہے کہ آپۖنے روشنی کی رفتار سے بھی بہت زیادہ رفتارسے سفرکیااسی لئے زمین پروقت نہیں گزرااورآپۖکی واپسی ہوگئی۔قرآن میں اس کا تذکرہ اس کے کتابِ الٰہی ہونے کا ثبوت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیاایسا ممکن ہے کہ انسان وقت میں سفرکرسکے؟دیکھیے اس دور کے قابل ترین سائنسدان مسٹر ہاکنگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
I do believe in time travel. Time travel to the future. Time flows like a river and it seems as if each of us is carried relentlessly along by times current. But time is like a river in another way. It flows at different in different places and that is the key to travelling into the future. This idea was first proposed by Albert Einstein over 100 years ago.
میں وقت میں،مستقبل میں سفرپریقین رکھتاہوں۔وقت ہم سب کوساتھ میں لیے دریاکی طرح بہتاہے لیکن یہ ایک اورطرح سے دریا کی طرح بہتا ہے،یہ مختلف جگہوں پہ مختلف رفتارسے بہتاہے اوریہی وقت میں سفرکی کلیدہے۔یہ تصور100سال پہلے آئن اسٹائن نے دیا۔
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کوراتوں رات لے گئی مسجدحرام سے مسجد اقصی تک جس کے ماحول کواس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔وہی ہے سب کچھ سننے اوردیکھنے والا ۔(بنی اسرائیل، آیت1)
جہاں تک معراج کی فضائی سفرکی تمام ترمشکلات کی بات ہے آج انسان علم کی قوت سے ان پرقابوحاصل کرچکاہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اورزمانے والی مشکل بھی بہت دورکیسفرسے مربوط ہے۔ مسئلہ معراج جوکہ خوداسلام کے مطابق ایک معجزہ ہے جوکہ اللہ کی لامتناہی قدرت وطاقت کے ذریعے ممکن ہوتاہے اور انبیا کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے۔جب انسان یہ طاقت رکھتاہے کہ سائنسی ترقی کی بنیادپرایسی چیزیں بنالے کہ جوزمینی مرکزثقل سے باہرنکل سکتی ہیں،ایسی چیزیں تیارکر لے کہ فضائے زمین سے باہرکی ہولناک شعاعیں ان پراثرنہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے۔ جب انسان اپنی محدودقوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے توپھرکیااللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے۔اورہماراحکم ایساہے جیسے ایک پلک جھپک جانا۔ِ( القمر: 50)
سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں،ان میں سے ایک نیوٹرینوہے جوتما م کائنات کے مادے میں سے بغیر ٹکرائے گزر جاتا ہے،مادہ اس کیلئے مزاحمت پیدانہیں کرتااورنہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑکھاتاہے،وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اورنہ ہی وہ رگڑسے جلتاہے کیونکہ رگڑتومادے کی اس صورت میں پیداہوگی جبکہ وہ کم ازکم ایٹم کی کمیت کاہوگا۔ (سرن لیبارٹری میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے بھی23 ستمبر2011کواپنے تجربات کے بعدیہ اعتراف کیاتھاکہ نیوٹرینوکی رفتارروشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)۔
روایت کے مطابق جبرائیل علیہ السلام نے آپۖکوبراق پرسوارکیا۔براق،برق سے نکلاہے،جس کے معنی بجلی ہیں،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈہے۔اگرکوئی آدمی وقت کے گھوڑے پرسوارہوجائے تووقت اس کیلئے ٹھہرجاتاہے یعنی اگرآپ186000میل فی سیکنڈکی رفتار سے چلیں تووقت رک جاتاہے کیونکہ وقت کی رفتاربھی یہی ہے۔ وقت گرجائے گاکیونکہ وقت اورفاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہے اس لیے جوشخص اس چوتھی جہت پر قابو پا لیتاہے کائنات اس کیلئے ایک نقطہ بن جاتی ہے۔وقت رک جاتاہے کیونکہ جس رفتارسے وقت چل رہاہے وہ آدمی بھی اسی رفتارسے چل رہاہے حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کوچلتاہوامحسوس کرے گالیکن کائنات اس کیلئے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اورفاصلے کواپنے قابومیں کرلیاہواس کیلئے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزرجائیں لیکن وقت رکارہے گااورجوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گاوقت کی گھڑی پھرسے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیرکرکے آجائے،بسترگرم ہوگا ،کنڈی ہل رہی ہوگی اورپانی چل رہاہوگا۔ اللہ جل جلالہ کی قدرتیں لاانتہا ہیں،وہ ہربات پرقادرہے کہ رات کوجب تک چاہے روکے رکھے،اگروہ روکے توکوئی اس کی ذات پاک کے سوانہیں جو دن نکال سکے:آئیے دیکھیں اللہ سورہ القصص کی آیات71-72 میں فرماتے ہیں:آپ کہیے کہ بھلایہ تو بتاؤکہ اللہ تعالی اگرقیامت تک تم پررات کومسلط کردے تواس کے سواکون روشنی لاسکتاہے؟آپ کہیے کہ بھلایہ تو بتلاؤکہ اگراللہ چاہے توقیامت تک تم پردن ہی دن رہنے دے تواس کے سواکون رات لاسکتاہے،جس میں تم آرام پاؤتوکیاتم دیکھتے نہیں ؟گویا حق تعالی کو پوری قدرت ہے وہ اگر چاہے تو وقت کوروک سکتا ہے۔
ہماراروزمرہ کامشاہدہ ہے کہ ایک گھرمیں بیک وقت بلب جل رہے ہیں،پنکھے(سیلنگ فین)سے ہواصاف ہورہی ہے، ریڈیو سنااورٹیلی وژن دیکھاجارہا ہے، ٹیلی فون پرگفتگو ہو رہی ہے،فریج میں کھانے کی چیزیں محفوظ کی جارہی ہیں،ائیرکنڈیشنڈسے کمرہ ٹھنڈاہورہاہے،ٹیپ ریکارڈرپرمختلف پروگرامزٹیپ ہورہے ہیں،گرائنڈرمیں مصالے پس رہے ہیں ، استری سے کپڑوں کی شکنیں دور ہورہی ہیں،سی ڈی پلیئرز پرفلمیں دیکھی جارہی ہیں،وغیرہ وغیرہ۔کسی نے بڑھ کر مین سوئچ آف کردیا،پھرکیاتھا،لمحوں میں ہرچیز نے کام کرنا بند کردیا۔معلوم ہوایہ تمام کرنٹ کی کارفرمائی تھی۔یہی حال کارخانوں کاہے۔کپڑابنااور دیگراشیا تیارہورہی ہیں،جیسے ہی بجلی غائب ہوئی،سب کچھ رک گیا،جونہی کرنٹ آیاہرچیز پھر سے کام کرنے لگی۔آج کاانسان ان روزمرہ کے مشاہدات کے پیشِ نظر واقعہ معراج کی روایات کی صداقت کاادراک کر سکتاہے۔روایتیں ملتی ہیں کہ سرورِکائناتۖجب سفر ِمعراج سے واپس تشریف لائے توبسترکی گرمی اسی طرح باقی تھی،وضوکاپانی ہنوزبہہ رہاتھا،کنڈی ابھی ہل رہی تھی۔چودہ سوسال پہلے اس پریقین لانا ناممکنات میں سے تھا لیکن آج یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔کرنٹ کی مثال سے یہ سمجھاجاسکتاہے،اس پرقابوپالینے سے کیسے ہرکام معطل ہوسکتاہے۔اسی طرح وقت پرقابوپالیاجائے توہرچیز ٹھہر جاتی ہے۔ ممکن ہیمعراج کی شب نظامِ زمان ومکان معطل کردیاگیاہو،وقت رک گیاہو۔کیا یہ خالقِ کائنات،نظامِ زمان ومکان کے مالک کیلئے کچھ مشکل تھا؟پھرجب انسانی صنعت سے خلائی جہازچاند،زہرہ اورمریخ تک پہنچ سکتے ہیں توربانی طاقت اورلاانتہا قدرت رکھنے والے کے حکم سے کیااس کے رسولۖشب معراج میں آسمانوں کوطے کرکے سدر المنتہیٰ تک نہیں پہنچ سکتے؟ہے کوئی سوچنے والا؟
یہ جدید ذہن کے عقلی اشکالات کے جواب میں معراج کی ممکنہ عقلی توجیہات تھیں کہ آج کے دورمیں ایسے معاملات کوسمجھنا مشکل نہیں اورایسے اعمال کا ہونامحال یاناممکن نہیں کہا جاسکتا ورنہ مذہبی عقائدمشاہدات کانہیں ایمان باالغیب کاتقاضہ کرتے ہیں ۔یہ مسئلہ خالص یقین واعتقادکاہے،جب توحیدو رسالت مستند ذرائع سے ثابت ہوجائے توپھران پر ایمان لانااوراس کی حقیقت و کیفیت کوعلمِ الہٰی کے سپر دکردیناہی عین عبادت ہے،یہ لازمی نہیں ہوتا کہ ایک مافوق الفطرت کی ہربات فطرت کے مطابق بھی ہو،اس لیے ایمان کا حکم پہلے ہے۔نبوت،وحی اورمعجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل وقیاس سے باہرکی چیزیں ہیں جوشخص ان چیزوں کوقیاس کے تابع اوراپنی عقل وفہم پرموقوف رکھے اورکہے کہ یہ چیزجب تک عقل میں نہ آئے،میں اس کونہیں مانوں گا،توسمجھنا چاہیے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم رہا۔اللہ رب العزت ہمارے دلوں پردین پرجمائے رکھے۔
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی ۖہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفل دروازوں کو کھولنے کی اِبتدا کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلا میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سراِنجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ رب العزت حضور رحمتِ عالم ۖکو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجدِ اقصی تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات (Cosmos) کی بے انت وسعتوں کے اس پارقاب قوسینِ اورودنکے مقاماتِ بلند تک لے گیااورآپ مدتوں وہاں قیام کے بعداسی قلیل مدتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ افروز بھی ہوگئے۔آج سے چودہ سو سال قبل علومِ اِنسانی میں اِتنی وسعت تھی اور نہ اِتنی گیرائی اور گہرائی کہ معجزاتِ رسول ۖکا کوئی ادنی جزو ہی ان کے فہم و اِدراک میں آ جاتا حتی کہ اس وقت بہت سے علومِ جدیدہ کی مبادیات تک کا بھی دوردورتک کہیں نام و نشان نہ تھا۔ آج عقلِ اِنسانی اپنے اِرتقا، اپنی تحقیق اورجستجو کے بل بوتے پر جن کائناتی صداقتوں اورسچائیوں کوتسلیم کر رہی ہے،ہزاروں سال قبل اِن کی تصدیق و توثیق وحء اِلٰہی کے بغیر ممکن نہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔