میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدم اعتمادکامیاب ہوتووزیراعظم اورمنحرف ارکان گھرجائیں گے، سپریم کورٹ

عدم اعتمادکامیاب ہوتووزیراعظم اورمنحرف ارکان گھرجائیں گے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
منگل, ۲۹ مارچ ۲۰۲۲

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کے ججز سے متعلق بیان پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے کمالیہ جلسے میں کہا کوئی ججز کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے، کس طرح کے بیانات دیے جا رہے ہیں، اخبارات میں کیسے کیسے بیانات چھپ رہے ہیں؟اگر وزیراعظم کو ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے عدلیہ پر اعتماد نہیں تو پھر کیا ہو گا،عدالت کے باہر کیا ہو رہا ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، ہم سوشل میڈیا میں ہونے والی بحث کے زیر اثر نہیں جبکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے میں لکھا ہے رکنیت ختم ہو جائیگی، آپ نااہلی کی مدت کا تعین کروانا چاہتے ہیں،کوئی رکن ڈی سیٹ ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد تو ناکام ہو جاتی ہے تاہم حکمران جماعت اکثریت پھر بھی کھو دیگی،آرٹیکل 62 ون ایف کیلئے عدالتی فیصلہ ضروری ہے، آرٹیکل 63 میں نااہلی 2 سے 5 سال تک ہے۔ پیر کوچیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت شروع کی تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مؤقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت کا مؤقف ایف آئی آر میں شامل نہیں کیا جا رہا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے سندھ ہاؤس واقعے پر غیر معمولی سماعت کی تھی، اب آپ متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ سندھ ہاؤس پر حملہ دہشت گردی ہے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کہتے ہیں دہشت گردی کی دفعات نہیں لگتیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ ہاؤس واقعہ پر بچکانہ دفعات لگائیں، وفاقی حکومت قانون کے مطابق کارروائی کرے، جو دفعات لگائیں گئیں وہ تمام قابل ضمانت تھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت سیشن کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، مناسب ہوگا متعلقہ فورم ہی اس کا فیصلہ کرے، جو دفعات لگائی گئی ہیں ان پر ایکشن لیں، بچکانہ دفعات پر حملہ آوروں نے ضمانتیں کروا لیں،کیا کوئی ناقابل ضمانت دفعات لگائی ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ مقدمے میں ایک دفعہ ناقابل ضمانت ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ناقابل ضمانت دفعات پر گرفتاریاں کیوں نہیں ہوئیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کو عدالت بلانے کا مشورہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی کو کہیں کہ اپنا کام کریں، یہ ہمارا کام نہیں کہ ہدایات دیں، (آج) منگل تک اس معاملے پر جامع رپورٹ دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال ہوا تھا جو آئین میں نہیں لکھا ہوا وہ عدالت کیسے پڑھے، اس نقطے پر سپریم کورٹ کے سال 2018 کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، عدالت نے تمام امیدواروں سے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی مانگا تھا، قانون میں بیان حلفی نہیں تھا عدالتی حکم پر لیا گیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں