تکبّر
شیئر کریں
زمانے کی ہوا بگڑتی جارہی ہے مگر جنابِ زرداری کے ماتھے پر غرور کی شکنیں ختم ہونے میں نہیں آرہیں۔ کیا وہ اُس حالت کو پہنچ گئے جہاں عالم کے پرورگار کی ناراضی متوجہ ہوتی ہے۔ الامان والحفیظ! الامان والحفیظ!!!!!
کیسا غرور ہے جواُن کے ایک فقرے میں چھلکتا ہی جارہا ہے۔ایسا نہ ہو کہ اُنہیں(شریف برادران اور حکومتی وزرائ) سیف الرحمان کی طرح میرے قدموں میں ایک بار پھر گرنا پڑے۔ سیف الرحمان کو ذلت کا یہ لباس اس لیے پہننا پڑا تھا کہ وہ خود تکبر کے اسی طرح مرتکب ہوئے تھے۔ کسی کے قدموں میں گرنا ایسا شرمناک نہ تھا جتنا زرداری کے قدموں میں گرنا تھا۔ سیف الرحمان نے دُہری ذلت کا سامنا کیا تھا۔ مگر اب زرداری بھی اُسی راستے پر ہیں۔ اُنہیں سیف الرحمان کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے تھا، اپنی جبینِ نیاز کو جھکا دینا چاہئے تھا مگر وہاں انکساری نہیں غرور کی نہ ختم ہونے والی شکنیں ہیں۔
حضرت حسن بصریؒ نے آسمانی ہدایت میں تکبر کی ہلاکت خیزی کا ادراک زیادہ بہتر کیا تھا، کمال کا نکتہ بیان کیا۔ ”اگر آدمی کے تمام ہی اعمال نیک ہوتے اور وہ اپنے نیکی¿ اعمال کے تکبر میں مبتلا ہو جائے تویہ اُسے ہلاک کردے گا۔“ تکبرتو صراطِ مستقیم اور راست روی کا بھی گوارا نہیںکیا گیا، پھر آپ تو جناب زرداری ہیں۔یوں ہی نہیں کہا گیا ،ا س کے پیچھے عبد ومعبود کا ایک حقیقی فلسفہ ہے کہ ”تکبر اللہ کی چادر ہے۔“مخلوق کو تواضع وانکساری کا سبق تعلیم کیا گیا۔اللہ رب العزت نے بڑائی(تکبر) اور عظمت کو اپنے لیے خاص رکھا اور اس میں کسی کو ہمسر نہ ہونے دیا۔ اسی لیے بڑائی اور عظمت میں ہمسری کرنے والا ہر شخص دنیا میں ہی رسوا ہوا۔ حدیث میں پہلے سے ہی اُن کا ٹھکانا جہنم قرار دیا گیا۔
جناب زرداری یوں ہی مخاطب نہیں ہوئے۔دراصل اس ذہنیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں یہ فقرے کنجِ لب سے پھوٹتے اُچھلتے اُبھرتے ہیں۔پاکستان میں سیاست بھی ایک کاروبار بن چکا ہے۔ جناب زرداری پر موقوف نہیں شریف برادران کو بھی سامنے رکھیں۔ پاکستان میں ایسا کون سا کاروبار ہو رہا ہے جہاں یہ قبیلہ دخیل نہیں۔ مرغی ہی نہیں اُس کے انڈے بھی ان کی حرص سے بچ نہیں سکے۔ سندھ میں شکر سازی کا پورا کاروبار زرداری کی تحویل میں جا چکا۔ اب وہ ایک حقیقی بلڈر کی طرح زمینوں پر ہاتھ صاف کررہے ہیں اور بڑے بڑے پراجیکٹ ہتھیا رہے ہیں۔ یہ ایک خاص طرح کی ذہنیت ہے۔ نوے کی دہائی میں جب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون ایک دوسرے کے حقیقی حریف تھے۔ اور پاکستانی سیاست ان دونوں جماعتوں کے درمیان منقسم اور یرغمال تھی تو یہ جناب زرداری تھے جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو اس پر قائل کیا تھا کہ اگلی سیاست صرف روپے پیسے کا کھیل ہوگا۔ اور وہی انتخابی سیاست میں کامیاب رہے گا جس کے پاس پیسے زیادہ ہوں گے۔ دونوں سیاسی حریفوں نے تب دولت جمع کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا شروع کردیے تھے۔ اب پوری سیاست اور حکومت دراصل اس بے انتہا دولت کی حفاظت اور موقع بہ موقع اس کے فروغ کے لیے ہی ہے۔یہ ایک کھیل ہے جس میں حکومت، دولت کے حصول کے لیے حاصل کی جاتی ہے اور دولت، حکومت حاصل کرنے یا اُس کے تحفظ کے لیے جمع کی جاتی ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔ یہ خاندان اس کھیل کو کھیلتے ہوئے اب بہت آگے بڑھ چکے۔ یہاں تک کہ اب پیسہ بھی اُن کے سیاسی نقشے کے لیے ایک اضافی چیز بن چکا۔ ان کا اب ایک ورثہ ہے اور ان کے فیض یافتگان کا ایک ٹولہ ہے۔ جو ان کے ہر اقدام کی عریانی کو جمہوری جامہ پہناتا ہے۔ان کے پاس خود کو بچانے کے لیے ”قانون “کی بے ساکھی ہے جو دولت کی ایک ادنیٰ کنیز ہے۔ جس کے آگے ”انصاف“ خود آداب بجالاتا ہے۔اس سے جمہوریت کبھی فروغ پزیر نہ ہوگی۔ وِل ڈیورانٹ نے جب تہذیب کی مختصر کہانی لکھی اور اُس میں تاریخ کے ہیروز دریافت کیے تو اس مزاج اور اس سے وابستہ سیاسی نظام کے ننگے پن کو بھی عیاں کردیا۔لکھا کہ اس نظام میں ”مشاورت محاذ آرائی پیدا کرتی ہے۔ قانون اقلیتی قوت کے آگے سرجھکا دیتا ہے۔ ۔۔ ۔۔ نااہلی کی زرخیزی نیچے سے نسل کو بڑھا رہی ہے، جبکہ ذہانت کا بنجر پن اوپر سے نسل کا شیرازہ بکھیر رہا ہے۔“ وِل ڈیورانٹ کے ان الفاظ کو بار بار پڑھیے اور غور کیجیے کیا پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام یا پھر ہماری دہائیوں کی سیاست نے کسی بھی طرح کا کوئی اعلیٰ دماغ پیدا کیا ہے۔ یا پہلے کے مقابلے میں ہمیں ترقی معکوس پر ڈال دیا ہے۔ سیاست ہی نہیں صحافت کا حال بھی مسلسل ابتری کی طرف مائل ہے۔
دراصل مغربی فکر اور صنعتی معاشرے نے انسانی اوصاف ، شرف اور ذہانت کے ساتھ ایک ”پراڈکٹ“ کا سا سلوک کیا ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو عجیب لگے مگر ا س مزاج کی جڑیں دراصل موسوی شریعت کے سامنے فرعون کے سلوک میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰ ؑجب فرعون کے دربار میں تھے تو اُن کی بات سن کر درباریوں نے اُن کا مضحکہ اڑایا تھا۔ اُس کہ وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ ؑ ایک پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، اُن کے پاس اعلیٰ لباس نہیں تھا۔ وہ کوئی پرشکوہ سواری بھی نہ رکھتے تھے۔ فرعون اُن کی فکر کا اپنی فکر سے موازنہ نہیں کررہا تھا بلکہ اُن کی حیثیت کا اپنی حیثیت سے موازنہ کررہا تھا۔ تاریخ میں فرعون کے سارے جواب اور دلائل دوبارہ پڑھیے وہ حضرت موسیٰ ؑ سے اپنا پورا موازنہ اپنی دنیوی برتری سے کرتا ہے۔ حضرت محمدﷺ کی دعوت کے ساتھ بھی اکابرین قریش کا یہی سلوک تھا۔ اُنہوں نے جب ایک رب کی طرف بلایا تو قریش نے اُن سے ”مفاہمت“ (زرداری سیاست کی ترکیب) کے لیے اُنہیں جتنی بھی پیشکشیں کی وہ اُن کی اسی دنیاداری کی ذہنیت کی آئینہ دار تھی۔حکومت لے لیجیے، ہیرے جواہرات لیجیے، مکہ کی سب سے خوبرو لڑکی کو چاہیں تو اپنے حبالہ ¿ عقد میں لے لیں۔ آج کا مغربی معاشرہ اور جمہوری ثقافت کادعویٰ تو علم کا ہے مگر اُن کامعاشرے سے پورا برتاو¿ دراصل زمانہ¿ جاہلیت کے رویے کا غماز ہے۔
واپس پلٹیے! آصف علی زرداری کی لڑائیاں بھی خوب ہیں۔ لڑنے تو وہ” بلّے“ سے کھڑے ہوئے تھے مگر اب وہ اُس بلّے سے دودھ کی رکھوالی بھی کرانے کو تیار ہیں۔ یہی ایک کاروباری آدمی کی ذہنیت ہوتی ہے۔وہ صحیح اور غلط میں نہیں فائدے اور نقصان کی حرکیات میں بروئے کا رآتا ہے۔خلیل جبران نے ایک لومڑی کا ذکر کیا ہے،جس نے صبح کے وقت اپنے سائے پر نظر ڈالی اور کہا تھا کہ مجھے ناشتے کے لیے آج ایک اونٹ ملنا چاہئے۔ لومڑی نے اونٹ کی تلاش میں صبح تمام کی اور دوپہر کو پھر اپنا سایہ ہی پایا تو کہا کہ ”میرے لیے ایک چوہا ہی کافی ہوگا۔“جن کا سیاسی ورثہ ایان علی، ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن ہو اُنہیں مستقبل ، مورخ اور تاریخ میں مقام ایسی باتیں زیبا نہیں۔وہ اونٹ سے ناشتے کی خواہش پال کر آخر میںچوہے پر بھی اکتفا کرلیتا ہے۔ پہلے وہ ”مفاہمت“ کو ایک سیاسی فلسفے کا مغالطہ دے کر اپنی سیاسی فنکاری کا مظاہرہ کررہے تھے اور اب وہ اُسے ترک کرنے کا اشارہ دے کر اپنی سیاسی اداکاری کو طول دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ حریف بدلنے کے علاوہ کچھ اور نہیںہے۔ بس ناشتے کے لیے بلّے نے اونٹ فراہم نہیں ہونے دیا۔ سیاست کی ایسی ارزل نفسیات میں تکبر کے الفاظ جچتے نہیں۔ پیروں میں اپنے حریفوں کو گرانے کے دعوے پھبتے نہیں۔ ایسے لوگوں کو اُن کے حال کے پردے پر نہیں بلکہ انجام کے آئینے میں دیکھنا چاہئے!!!!!
٭٭….٭٭