ممکنہ معاشی وحربی تبدیلیاں
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
اپنے ملک یا ریاست کو ترقی دینا ہر حکمران کی اولیں ترجیح ہوتی ہے لیکن اِس کے ساتھ کوشش کی جاتی ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے ریاست یا ملک کے مفاد متاثر ہوں یا لاحق خطرات میںشدت آئے۔ معاشی ترقی سے دفاعی مضبوطی بھی اہمیت کے اعتبار سے کم نہیں موجودہ دورمیں معاشی اور حربی مضبوطی دنیا سے جُڑے رہنے میں ہے مگر صدرٹرمپ کے اقدامات اور احکامات امریکی تنہائی کاباعث بن سکتے ہیں ٹھیک ہے ٹرمپ نے سب سے پہلے امریکہ کے نعرے پر انتخاب جیتااوراب صدرکے منصب پر براجمان ہیں اگر امریکی سب سے پہلے امریکہ کے نعرے کو پسندنہ کرتے توہر گزووٹ نہ دیتے لیکن بے احتیاطی کی اُنھیں اجازت نہیں ملی اپنے چارسالہ عہدے کی مدت کے آغازکے پہلے ہی دن بے احتیاطی کامظاہرہ کیاہے اورسو احکامات ایسے جاری کیے ہیں جن سے ایک طرف ملک کے کئی طبقوں میں تشویش کی لہرہے تودوسری طرف عالمی سطح پربھی امریکہ بارے پریشانی میں اضافہ ہواہے پریشانی کاشکارکئی قریبی اتحادی کینیڈا،فرانس ،جرمنی ، ڈنمارک سمیت دیگر کئی یورپی ممالک بھی ہیں جس سے خدشہ ہے کہ امریکہ کے اپنے اتحادیوں سے بھی سیاسی اور دفاعی مفادات میں پڑسکتے ہیں۔
امریکہ بڑی طاقت ضرورہے لیکن اُس کی حربی ومعاشی قوت میں اتحادیوں کااہمکردارہے ڈالرکوجو غلبہ غاصل ہے یہ بھی اتحادیوں کا مرہونِ منت ہے ڈالرکا زوال امریکی ہوگا گزشتہ کئی دہائیوں سے تیل کی تجارت ڈالر میں ہورہی ہے جس کی وجہ امریکہ اورسعودی عرب میں طے پانے والا معاہدہ ہے۔ معاہدے کے تحت سعودیہ اپنے دفاع کی زمہ داری کے عوض تیل کی تجارت ڈالرمیں کر تا ہے مگر گزرے تین عشروں میں حالات کافی حدتک تبدیل ہوچکے ۔عالمی معاشی نظام میں دیگر ممالک نے پیش رفت کی ہے جس سے امریکہ کوحاصل معاشی وحربی بالادستی میںکمزوری آئی چین سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک نے معیشت کے ساتھ اپنی حربی صلاحیت کو بہتر بنایا ہے۔ روس اپنے کھوئے وقارکی بحالی کے لیے سرگرم ہے۔ برکس،شنگھائی تعاون تنظیم اور جی ایٹ جیسی تنظیموں میں شامل ممالک کا امریکہ پر انحصارکم ہوا ہے ۔مال کے بدلے مال اور مقامی کرنسی میں تجارت کے معاہدے ہونے لگے ہیں۔یہ ایسی تبدیلی ہے جو امریکہ اور ڈالر کی بالادستی کے لیے بڑے چیلنجزکی طرف اِشارہ کرتی ہے جواحتیاط کی متقاضی ہے لیکن ٹرمپ کے احکامات اور اقدامات جارحانہ ہیں جن سے درپیش چیلنجز کم ہونے کی بجائے اضافہ ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ کی جیت ظاہر کرتی ہے کہ امریکی مقتدرہ فی الحال ایک قدم پیچھے ہو گئی ہے اور ملکی نظم ونسق اور پالیسی سازی میں مداخلت روک دی ہے جس سے نہ صرف امریکی بالادستی کو زوال آسکتا ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی عدم مداخلت کی یہ پالیسی تلاطم لا نے کاموجب ہوسکتی ہے۔
امریکی پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آنے سے ممکنہ معاشی و حربی تبدیلیوں سے محفوظ رہنے کے لیے دنیا میں صف بندی کاآغاز
ہو گیا ہے جرمن چانسلر اولاف شولس کا دورہ پیرس کے دوران اپنے میزبان فرانسیسی صدر امانوئل میکغوں کواعتماد میں لینا اِس بناپر بہت اہم ہے کہ دونوں میں یورپی یونین کی طرف سے ایک متفقہ اور جامع موقف اختیارکرنے اور اِس حوالے سے وسیع تر کوششوں پربھی اتفاق ہوگیا ہے تاکہ پورپی یونین میں شامل تمام ممالک کی نہ صرف معاشی ترقی ممکن ہو بلکہ دفاعی حوالے سے امریکہ پر انحصار کم کرتے ہوئے خودانحصاری کی پالیسی اپنائی جائے۔ یہ بہت حیران کُن بات ہے دراصل ٹرمپ کے صدربننے سے یورپی یونین میں امریکہ مخالف لہر نے جنم لیا ہے ۔ڈنمارک سے گرین لینڈ خریداری کے حوالے سے ٹرمپ کالہجہ دھمکی آمیز رہا ۔ایسے لہجے کو کوئی بھی آزاد و خود مختار ملک پسند نہیں کر سکتا ۔اب جبکہ حالات بدل چکے ہیں نوآبادیاتی نظام کے لیے حالات سازگار نہیں کیمونزم کاخطرہ دم توڑچکا ۔علاوہ ازیں معاشی بحالی اور تعمیر نوکے حوالے سے یورپ کا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصاربھی کم ہو رہا ہے اور نہ صرف یورپی ممالک کی معاشی صورتحال ماضی کی بہ نسبت بہترہے بلکہ حربی حوالے سے ترقی بھی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں رہی لیکن امریکہ چاہتاہے ۔یورپی یونین نیٹودفاعی تنظیم کے اخراجات میں تعاون بڑھائے حالانکہ نیٹوامریکہ اور یورپی یونین دونوں کے لیے اہم ہے۔ اسی لیے امریکی مطالبے کویورپی یونین میں شامل کچھ طاقتور ممالک سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ وہ امریکی مطالبات پورے کرنے سے زیادہ اپنے ملک اور عوام کے مسائل حل کرنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں ڈنمارک نے تو واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ وہ گرین لینڈ کے حوالے سے امریکی مطالبہ پوراکرنے کی بجائے سخت موقف رکھے گا ٹرمپ احکامات اتحادیوں کودورکر سکتے ہیں نہ صرف یورپ سے سیاسی و معاشی اختلافات تبدیلیوں کی راہ ہموار گی بلکہ امریکہ کا عالمی کردار محدود ہونے کے ساتھ دنیامیں بڑے پیمانے پر معاشی و حربی تبدیلیاںیقینی ہیں ۔
ٹرمپ کو سب سے پہلے امریکہ کانعرہ لگاتے ہوئے یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ بطورصدر اُنھیں اپنے ملک کے مسائل حل کرنے اختیار حاصل ہواہے دنیاکودھمکانے اورلوٹنے کا اختیارنہیں مل گیا ۔اگر وہ مستقبل میں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی نہیں کرتے تونہ صرف اہم اتحادیوں سے محروم ہو سکتے ہیں بلکہ قرب وجوارمیں بھی ناپسندیدہ صورتحال جنم لے سکتی ہے کینیڈاسے ملک کو ضم کرنے کا مطالبہ وگرنہ بھاری ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دانشمندانہ نہیں یہ خطے میں بااعتماد ساتھیوں کوکھونے پر منتج ہوسکتی ہے۔ پیرس کے عالمی موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے(جس پر دوسو سے زائد ممالک کے دستخط ہیں)سے علیحدگی،بیرونی امداد بندکرنے اور عالمی اِدارہ صحت سے الگ ہونے کا اعلان امریکی مفادکے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایسا ہواتو دنیامحتاجی سے نکلے گی اگر ایک راستہ بند ہو تومتبادل ملنانظامِ قدرت ہے ملک یا ریاست وہی زیادہ محفوظ اور مستحکم ہوتی ہے جو قُرب وجوار میں خطرات سے محفوظ ہومگرتارکینِ وطن کی بے دخلی ،کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر پچیس فیصد ڈیوٹی عائد کرنے جیسے اعلانات سے ہمسائیگی میں نفرت بڑھے گی۔ کینیڈا کی وزیرِ خارجہ نے توصاف کہہ دیا ہے کہ ٹرمپ اقدامات پر اُن کی حکومت سخت ردِ عمل دے گی یہ ٹرمپ اقدامات پر ہمہ گیر خطرات کی طرف اِشارہ ہے۔
چین جیسی ابھرتی معیشتوں کو اگر عالمی مالیاتی نظام سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تجاتی حوالے سے شراکت دار کے طورپر قبول نہیں کیاجاتابلکہ درآمدی محصولات میں اضافہ کرنا عالمگیریت کی نفی ہے لیکن ایسے اقدامات سے ٹرمپ امریکہ کوترقی دینے کا خواب دیکھ رہے ہیں بھاری محصولات عائد کرنے سے مملکتوں کے نہ صرف باہمی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں بلکہ امریکی صارفین کی قوت
خرید بھی کم ہو سکتی ہے کیونکہ درآمدی مصنوعات پر عائد محصولات بالاآخر صارفین کی جیب سے ہی نکالے جاتے ہیں اگر چین سمیت دیگر صنعتی ممالک کی مصنوعات کوامریکی منڈیوں تک آسان رسائی حاصل ہے تو اِس کا فائدہ امریکی خریداروں کوہے کیونکہ انھیں معیاری اورسستی اشیا دستیاب ہیں محصولات بڑھنے سے مہنگائی ہوتی ہے تولامحالہ افراطِ زربھی بڑھے گی جس سے پریشانی کا شکار صارفین کی طرف سے سخت ردِ عمل آنے کامکان بڑھ جائے گا اب یہ ٹرمپ پر منحصر ہے کہ درآمدی محصولات میں اضافے سے اندرونِ ملک صارفین کے مفاد کا تحفظ کیسے کرتے اور بیرون ملک امریکہ کے سیاسی ومعاشی اور حربی تعلقات کوکِس حدتک بچاپاتے ہیں؟صورتحال زیادہ موافق نظرنہیں آتی بظاہر اُن کے احکامات معاشی وحربی تبدیلیوں کی بنیادبننے کے ساتھ عالمی امن کو درہم برہم کرتے محسوس ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔