میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکہ کو پاکستان کی اہمیت کا احساس دلانا ہوگا!

امریکہ کو پاکستان کی اہمیت کا احساس دلانا ہوگا!

جرات ڈیسک
بدھ, ۲۹ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

ڈونلڈ ٹرمپ اس بار تمام سوئنگ ریاستوں سے زبردست فتح پانے کے بعد20 سال میں پہلے ریپبلکن صدربنے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کوبلاشبہ یہ اعزاز حاصل ہوچکاہے کہ انھوں نے عوامی ووٹ بھی جیتا اور تمام سوئنگ ریاستوں میں کامیابی حاصل کی۔پہلے سے کہیں زیادہ اکثریت کے ساتھ واپس وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد اب وہ اپنی اس طاقت کا اظہار بھی کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنی واپسی کے ابتدائی چند دنوں ہی میں یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ایگزیکٹو اختیارات کا بڑی حد تک استعمال کر کے ملک کوکس طرح بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور میں ان کے وہ تمام مشیر منظر سے غائب ہو چکے ہیں جنھوں نے پہلی مدتِ صدارت کے دوران ان کو سیاسی اصولوں کا احترام اور تحمل سے چلنے کی تلقین کی تھی۔اس کے برعکس اس بار ٹرمپ کی دوسری انتظامیہ ان کے ان وفاداروں سے بھری ہوئی ہے جنھوں نے کبھی ان سے منہ نہیں موڑا اور نچلی سطح کے عہدے ان نوجوان معاونین سے پُر کیے جا رہے ہیں جو رپبلکن پارٹی کے قائد کی حیثیت سے صرف ٹرمپ کو ہی جانتے پہچانتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی جماعت کم از کم اگلے2 سال کے لیے کانگریس پر مضبوط گرفت رکھتی دکھائی دے رہی ہے۔

صدارتی منصب پر براجمان ہونے کے پہلے دن صدر ٹرمپ کے واشنگٹن میں موجودہ نظام کو بدلنے اور اپنے پیشرو جو بائیڈن کے کام کو قصہ پارینہ بنانے کی خواہش اس وقت عیاں ہو گئی جب انھوں نے ایک کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے۔صدارتی آرڈرز کی یہ تعداد کسی بھی سابق صدر کی جانب سے دستخط کیے گئے آرڈرز سے کہیں زیادہ تھی۔جہاں سابق صدر بائیڈن نے 2021 میں صرف 9 دستخط کیے تھے وہیں صدر ٹرمپ نے اس تعداد کو تقریباً 3 گنا بڑھاتے ہوئے 26 صدارتی حکم ناموں پر دستخط کیے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ ‘صدارت کا عہدہ سنبھالنے کا پہلا دن ایسا ہونا چاہیے جس میں آپ قوم کو سیاسی تقسیم سے بچائیں یا انتخابات کے دوران لوگوں کے دلوں پر لگنے والے زخموں پرمرہم رکھنے کی کوشش کریں۔ اس کے برعکس صدر ٹرمپ کا پہلا دن ان کے مخالفین کے لیے سب سے بڑا دھچکا تھا۔ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی جن صدارتی احکامات پر دستخط کئے ان تمام احکامات سے صدر ٹرمپ کی سوچ جھلکتی ہے ۔انتخابات سے قبل ہی ٹرمپ نے اپنے سیاسی مخالفین کو مات دی، اور ان متعدد قانونی مقدمات میں سزا سے بچ گئے،جو مبینہ طورپر سیاسی بنیادوں پر ان کے خلاف بنائے گئے تھے ، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اپنی کامیاب حکمت عملی کے ساتھ ہی قسمت بھی ان کا ساتھ دیتی رہی جس کی وجہ سے وہ ایک قاتل کی گولی سے بھی بچ نکلے۔گزشتہ سال نیویارک میں مجرم قرار دیے جانے والے ٹرمپ کو اب ا پنی میراث کو دوبارہ تشکیل دینے کا موقع ملا ہے۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ محکمہ انصاف نے ان کے ساتھ ناانصافی کی جبکہ ان کے مخالفین نے ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔اپنی صدارت کے پہلے دن انھوں نے ایک حکم پر دستخط کر کے اپنے اٹارنی جنرل کو ہدایات کیں کہ وہ سابقہ انتظامیہ کے زیر اثر وفاقی ایجنسیوں کی کارروائیوں کی تحقیقات کریں ان میں کیپیٹل ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کے خلاف محکمہ انصاف کی قانونی کارروائیوں کی تحقیقات کا حکم بھی شامل ہے۔

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے رہے اور تجزیہ کار یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ٹرمپ پاکستان کے کتنے معاون ثابت ہوسکتے ہیں اور ان سے معاملات طے کرنے میں کتنی دشواریاں پیش آسکتی ہے ، ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات جیتنے کے بعد سیاستدانوں خاص طورپر حکمرانوں نے بجاطورپر محتاط رویہ اختیار کیا لیکن پاکستانی میڈیامیں بھی پاک امریکہ اسٹریٹجک تعلقات میں ممکنہ نشیب وفراز اور امکانات کا تفصیلی ذکر کرنے سے گریز کیاجاتارہا، تاہم سیاسی میدان میں خوب رونق لگی رہی۔ خاص طورپر پی ٹی آئی کے ہمدردوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی اور امریکہ میں پی ٹی آئی کے بہی خواہوں نے اس دوران کئی ارکان کانگریس سے بانی پی ٹی آئی کے حق میں اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تشویش کے بیانات دلوا کر سیاسی بحث و تمحیص پر غلبہ قائم رکھا۔ دوسری طرف حکومت اس حوالے سے کوئی واضح پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے دفاعی پوزیشن پر نظر آئی۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر حلف برداری کے فوراً بعد امریکہ میں پی ٹی آئی کے ارکان نے کیپیٹل ہل میں چند ارکان کانگریس سے پی ٹی آئی کے حق میں بیانات دلوا کر کامیاب لابنگ کو جاری رکھا اور موجودہ حکمرانوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے پاکستانی حکومت کی کسی شخصیت کو دعوت نہ دئے جانے کے باوجود حکومت نے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے بلاول زرداری اور محسن نقوی کو واشنگٹن بھیجا لیکن ان دونوں میں سے کوئی بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے شرف باریابی حاصل کرنا تو درکنار حلف برداری کی تقریب میں شرکت بھی نہیں کرسکا اور حلف برداری کی تقریب میں سرکاری طورپرپاکستان کی نمائندگی کے لیے، واشنگٹن پہنچنے والے وزیر داخلہ محسن نقوی ارکان کانگریس سے صدر ٹرمپ کو پاکستان کی جانب سے مبارکباد پہنچانے کی استدعا کرتے نظر آئے ،واشنگٹن میں قیام کے دوران انھوں نے دو تین ارکان کانگریس اور سینیٹ کے ساتھ ناشتہ کیا اور اس کی تصاویر بھی پوسٹ کیں لیکن اسی دوران انھوں نے غالباً امریکہ میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے نوجوانوں کی ترتیب دی ہوئی ایک تقریب میں بھی شرکت کی بعد میں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ دعویٰ کیاگیا کہ یہ تقریب چین مخالف عناصر نے ترتیب دی تھی جس کی وجہ سے اس میں شرکت محسن نقوی کے گلے پڑگئی اور انھیں اس بارے میں بار بار وضاحتیں پیش کرنا پڑرہی ہیں اور کوئی ان کی وضاحت کو درست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے ۔

پاک امریکہ تعلقات کے ضمن میں مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر حسب معمول مقابلہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے تناظر ہی میں برپا رہا۔ اس صورت حال سے یہ واضح ہوتاہے کہ اس وقت جبکہ دنیا بھر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے حوالے سے ممالک اپنی اپنی ترجیحات کو نئے سرے سے ترتیب دینے اور صدر ٹرمپ کے ممکنہ پالیسی فیصلوں کے اثرات پر غور و فکر اور تیاری میں مصروف ہیں ہمارے ہاں یہ بحث زیادہ تر پی ٹی آئی اور حکومت کی سیاسی کھینچاتانی تک ہی مرکوزنظر آ رہی ہے۔گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک سیمینار میں سابق پاکستانی سفارتکاروں نے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا۔ انھیں اندیشہ ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون محدود رہے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں چین اور بھارت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔

امریکہ بھارت کو چین کے اثر و نفوذ کے ‘‘توڑ’’ کے طور پر جبکہ پاکستان کو بہت حد تک چین کے ساتھ امریکی تعلقات کی عینک سے دیکھتا ہے جو پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔انڈو پیسفک خطے میں برتری قائم رکھنے کے لیے امریکہ نے کواڈ (QUAD) نامی اتحاد میں بھارت کو شامل کیا ہے۔ خطے میں امریکہ کے مفادات اور اسٹریٹجک دلچسپی کو بھارت نے چالاکی سے استعمال کرتے ہوئے نہ صرف جدید ترین فوجی ہتھیار حاصل کیے بلکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔ اس کا واضح ثبوت بھارت کا کواڈ کے علاوہ دیگر اہم علاقائی معاہدوں میں شریک کار ہونا ہے جن میں COMCASA, LEMOA, BECA شامل ہیں۔ دوسری طرف پاک امریکہ تعلقات میں کئی رخنے بدستور چلے آ رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ دہشت گردی کی جنگ کے دوران پاک امریکہ تعلقات میں قریبی تعاون رہا اور پاکستانی حکمراں اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر امریکہ کیلئے جان ومال کی قربانی دیتے رہے اس کے باوجود امریکہ پاکستان کا ممنون احسان ہونے کے بجائے ہمیشہ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرتارہا، یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ آڑے وقتوں میں پاکستان کو دھوکہ دیا ،مشرقی پاکستان میں جنگ کے دوران ساتویں بحری بیڑہ بھیجنے کا جھوٹ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ،یہی نہیں بلکہ امریکہ کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان دفاع کے معاملے میں اس کا اور اسے کے دوسرے حلیف ملکوں کے دست نگر رہے یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کو ہمیشہ تشویش کی نظر سے دیکھا ہے۔

پاکستان کے میزائل پروگرام پر بھی اس نے اپنی ناخوشی کا اظہار بار بار کیا۔ چند ہفتے قبل پاکستان کی چند کمپنیوں پر امریکہ نے پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کوبھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے،امریکہ کے اس معاندانہ رویے کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان خطے میں پاکستان کا اہم بلکہ کلیدی ٹریڈ پارٹنر ہے اور امریکہ دنیا کے ان چند ملکوں میں ایک ہے جس کے ساتھ تجارت ہمیشہ پاکستان کے حق میں رہی ہے۔ بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی صورتحال میں فی الوقت پاک امریکہ تعلقات جمود کاشکار ہیں۔ صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے فوراً بعدامریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے دفتر میں پہلے دن بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کی جس سے امریکہ کی ترجیحات کا صاف اظہار ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ میں بھارتی لابی سرتوڑ کوششیں کررہی ہے کہ فروری میں صدر ٹرمپ اور وزیراعظم مودی کی ملاقات کا اہتمام کیا جا سکے۔

بھارت اور امریکہ کے سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھارت نژاد امریکیوں کا اثر ونفوذ امریکہ کی سیاست اور قیادت میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت موثر انداز میں پھلا پھولا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں بھی بھارتی اثر ونفوذ قابل ذکر ہے۔نئے امریکی نائب صدر کی اہلیہ اوشا وانس بھارت نژاد امریکی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں شامل ویوک رام سوامی بھی بھارت نژاد ہیں۔ تقریب حلف برداری میں دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیز کے سی ای اوز میں بھی گوگل کے سی ای او بھارت نژاد ہونے کے ناطے نمایاں تھے۔ امریکی سیاست اور کاروبار میں بھارت کا یہ اثرو نفوذ اب ایک نئی حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اٹھائے گئے کئی اقدامات کا اثر براہ راست بھارت کے مفادات پر بھی ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے برتھ رائٹ کے قانون کو ختم کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ بھارت کے ہاں کافی عرصے سے برتھ ٹورزم امریکی شہریت حاصل کرنے کا آسان راستہ رہا ہے۔اس قانون کے خاتمے کے بعد بھارتی کمیونٹی میں تشویش ہے۔ امریکہ کے ایچ ون بی کیٹیگری کے ویزوں میں سب سے زیادہ حصہ بھارت حاصل کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں ایچ ون بی ویزوں کو محدود کرنے کی پالیسی پر بھی بھارت کو شدید تشویش ہے۔ غیرقانونی طور پر مقیم لوگوں کو بزور ڈی پورٹ کرنے کے سلسلے میں بھی بھارت کے ہزاروں تارکین وطن زد میں آئیں گے۔ ایک طرف بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں اسٹریٹجک تعاون وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے، ان تعلقات کو بھارت سفارت اور تجارت میں اپنے فائدے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔ دوسری طرف پاک امریکہ تعلقات میں امریکی مفادات، ترجیحات اور ضروریات بدلنے کے ساتھ ہی پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ در آتا ہے۔

عوامی سطح پر پاک امریکہ تعلقات میں تجارتی اور صنعتی تعاون کی بجائے صرف اور صرف ملکی سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بھرپور کھینچاتانی فخریہ طور پر جاری ہے۔ یہی فرق یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ قومیں اپنی ترجیحات سے اپنا مقدر طے کرتی ہیں۔صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ان کا نام ‘صدیوں تک یاد رکھا جائے’ بلاشبہ وہ ایک طاقتور شخصیت ہیں اور انھوں نے سیاسی کششِ ثقل کے قوانین کو چیلنج کیا ہے سابق انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے ہفتے کے دوران جاری صدارتی احکامات اور دیگر اقدامات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ ان کی ٹیم اس بار 2017 کے مقابلے میں کافی زیادہ تیار ہو کر واپس آئی ہے۔

ٹرمپ کی ٹیم اب پوری دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ ٹرمپ اس بار بہت بہتر کام کر رہے ہیں انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انھیں کیا کرنا ہے اور اس پر وہ بہت بہتر طریقے سے عمل پیرا بھی ہیں ،ٹرمپ کے اتحادیوں کو یقین ہے کہ نئی انتظامیہ نے 2017 کے ابتدا میں عوامی مخالفت اور انتظامیہ کو درپیش دیگر قانونی جنگوں سے سبق سیکھ لیا ہے۔وہ4 سال بعد دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں اور اب ان کے پاس ایک منصوبہ تیار ہے جسے وہ نافذ کر سکتے ہیں ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت میں ان کی کئی اصلاحات عدالت میں چیلنج ہو جانے کے باعث ناکام ہوئیں تو دوسری طرف ناتجربہ کار ٹیم کی ناقص منصوبہ بندی اور ان پرعملدرآمد نہ ہونے نے ان اصلاحات کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔اس بار ٹرمپ کی ٹیم زیادہ پُرامید ہے کہ وہ ایک پائیدار تبدیلی کی بنیاد رکھ رہی ہے اور ان کے پاس ایک زیادہ سازگار عدلیہ ہے جس میں ٹرمپ کے مقرر کردہ ججز شامل ہیں۔ موجودہ حکومت اور خاص طورپر وزارت خارجہ کے اہلکاروں کو اس پوری صورت حال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے اور اگر براہ راست امریکہ کے ساتھ نہ سہی عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھنے کیلئے امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کو یقینی بنانے اور امریکہ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ پاکستان اپنے جائے وقوعہ کے سبب اب بھی امریکہ کیلئے بھارت کیا خطے کے کسی بھی ملک سے زیادہ اہمیت رکھتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں