میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک ایران تعلقات کی بحالی

پاک ایران تعلقات کی بحالی

ویب ڈیسک
پیر, ۲۹ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

پاک ایران تعلقات کے حوالے سے مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ دونوں برادراسلامی ممالک صرف سفارتی تعلقات بحال کرنے پر ہی رضامند نہیں ہوئے بلکہ 26 جنوری سے سفیروں کی واپسی کے فیصلے کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی مثبت اور عمدہ پیش رفت ہے۔ اب تنازع بڑھانے کی خواہشمند قوتوں کی سازشیں ناکام ہو نے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ دونوں ممالک نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کے تناظر میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اِس حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایرانی وزیرِ خارجہ امیرعبداللہ یان 29جنوری کو پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ پاک ایران کشیدگی ختم کرانے میں چین کا مثبت اور مشفقانہ کردار ہے۔ دونوں ممالک ہی شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ ہونے کی بناپر چین کے بھی اتحادی ہیں۔ چین کی بروقت کوششوں سے خطے میں کسی بڑے ٹکرائو کے خدشات دم توڑ گئے ہیں۔ ٹکرائو سے نہ صرف خطے کا امن تہہ بالا ہوتا اور معاشی وتجارتی سرگرمیاں متاثر ہوتیں بلکہ مداخلت کی تاک میں بیٹھی قوتوں کوبھی مذموم عزائم پروان چڑھانے کے مواقع ملتے ہیں۔ دونوں ممالک نے مشترکہ دوستوں کی سفارتی کوششوں سے فوری طورپر کشیدگی کم کرتے ہوئے اپنے تعلقات کومزید بگڑنے سے بچالیا ہے ۔
دنیاایک بارپھر مالیاتی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے بھوک و افلاس میں اضافے کا خدشہ ہے موسمیاتی تبدیلیاںخوراک کے بحران کی طرف اشارہ کرنے لگی ہیں روس ،یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ سے عالمی تقسیم گہری ہوتی جارہی ہے ایسے حالات میں دوبڑے اسلامی ممالک کے درمیان ٹکرائو سے تیل سمیت دیگر بحرانوں میں اضافہ ہوتا گزشتہ ہفتے ایران کی جانب سے پاکستان کے اندر میزائل اور ڈرون حملوں سے پیداہونے والے بحران اور پاکستان کی طرف سے مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کے بعدجلدہی دونوں ممالک نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا جس سے دنیا کو یہ پیغام ملا کہ کوئی بھی فریق بحران کو مزید گہرا نہیں کرنا چاہتا بلکہ اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے مطابق رہنا چاہتے ہیں سعودی وزارتِ خارجہ نے پاک ایران تعلقات کی بحالی کو بین الاقوامی اصولوں اوریواین او چارٹر کے مطابق قرار دیتے ہوئے خیرمقدم کیا ہے چین نے بھی کشیدگی ختم کرنے کی تحسین کی ہے خطے میں تنائو کا بڑی حد تک خاتمہ ہو نے سے ٹکرائو کے خواہشمند طاقتوں کی امیدوں پر اوس پڑگئی ہے۔
اپنے قیام سے لیکرآج تک پاکستان نے مغربی سرحد پر دفاعی سرگرمیوں پر کبھی توجہ نہیں دی بلکہ ایران کو قابلِ اعتماداسلامی ہمسایہ جان کر ہمیشہ دستِ تعاون بڑھایا ہے لیکن گزشتہ ہفتے ایران کی طرف سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے ثابت ہو گیا کہ ریاستوں کی اپنے دفاع سے غفلت مناسب نہیں کیونکہ ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ ایران کی طرف سے فضائی حدود کی خلاف ورزی نے ثابت کر دیا ہے کہ اُسے اپنا مفاد ہر حوالے سے مقدم ہے۔ دراصل انقلابِ کے بعد ایرانی قیادت نے اپنے قول وفعل سے ہمیشہ تاثر دیا ہے کہ وہ سب سے بالاتر ہیں اور دیگر ریاستوں پر حاوی ہونے کی متمنی ہے ۔وہ اپنے انقلاب کو دیگر ممالک تک پہنچانا چاہتی ہے۔ ایران عراق جنگ ہو یا پھر سعودیہ و متحدہ عرب امارات ،کشیدگی کی وجہ خود کو بالاتر سمجھنے اور انقلاب کو آگے پہنچانے کی کوشش کی بدولت ہوئی مگر ایرانی قیادت یہ بھول گئی کہ پاکستان نہ تو ایران ہے اور نہ ہی سعودیہ یا عرب امارات ،بلکہ یہ ایسا جوہری ملک ہے جس کی مسلح افواج ہر قسم کی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا مظاہرہ بھی خوب ہواکہ ایرانی حماقت کے جواب میں سوچ سمجھ کر حکمتِ عملی اختیارکی گئی اور اڑھائی تین گھنٹے کے طویل آپریشن کے دوران نہ صرف کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی بلکہ ایرانی مواصلاتی ذرائع بھی تلاش کرنے میں ناکام رہے جوپاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے قابلِ بھروسہ ہونے کا عکاس ہے۔ فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کوایران اور بھارت کی ملی بھگت کا شبہ ہے شاید اسی لیے تیزرفتاری سے جوابی کاروائی کی گئی تاکہ بھارت اورافغانستان سے آجکل پاکستان کے تعلقات میں جس طرح کشیدگی پائی جاتی ہے مبادا ا ایران کی طرح کی کسی کاروائی کی اُنھیں شہ ملے۔
قبل ازیں ایرانی فورسز نے پاکستانی سیکورٹی دستوں کو ایک سے زائدبار نشانہ بنایا مگر پاکستان نے ہمیشہ صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنی 900 کلومیٹر سرحد پر کبھی یران کے خلاف فضا نہ بننے دی اور دوستانہ رویہ رکھا مگر ایران کا حملہ ثابت کرتا ہے کہ اُس کی قیادت کوتاہ اندیش ہے جسے اپنے سواکچھ دکھائی نہیں دیتا دوستانہ رویے کا احساس ہوتا تو فضائی حدود کی خلاف ورزی کی نوبت نہ آتی کیونکہ مزہبی یا نظریاتی حوالے سے بھی دیکھیں تو ایران کے حملے بلاجواز محسوس ہوتے ہیں البتہ خطے میں طاقتور دکھائی دینے کی خواہش عیاں ہوتی ہے ایران کہتا ہے کہ وہ داعش کو نشانہ بنانے کی کوشش میں ہے جو نہ صرف شام کے کچھ حصوں میںموجود ہے بلکہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے باوجود افغانستان میں بھی کام کررہی ہے جس کے اسرائیلی انٹیلی جنس سروس موساد سے روابط ہیں اِس میں ممکن ہے بڑی حد تک صداقت ہو ایران کا یہ بھی کہنا ہے کہ تین جنوری کو کرمان شہر میں شہید جنرل کی آخری آرامگاہ پر ہونے والے بدترین دہشت گردانہ حملے داعش نے اسرائیل کی ایما پر کیے ہیں مگر پاکستان ،عراق اور شام تینوں پر اپنے حملوں کا جواز پیش کرتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ مزکورہ تینوں ممالک میں سے کسی ملک کی حکومت یا سیکورٹی اِدارے داعش کی پشت پناہی نہیں کرتے بلکہ اِسے دہشت گردتنظیم تصور کرتے ہوئے برسرِ پیکار ہیںعلاوہ ازیں تینوں ممالک موساد کے بھی ہمدرد نہیں بلکہ مخالف ہیں اسی لیے ایرانی موقف صاف طور پر بے بنیاد محسوس ہوتا ہے اور حملوں کا مقصد ماسوائے خطے کا طاقتور ملک کہلوانے کے سوا کچھ اور نہیں لگتا۔
ایران میزائل حملے کا مقصد یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اُس نے اپنے صوبہ بلوچستان سیستان میں سرگرم دہشت گرد گروپ جیش العدل کو نشانہ بنایا ہے مگر حملے میں بچوں اور بچیوں کی اموات و زخمی ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ایرانی حملے اچانک اور بغیر سوچے سمجھے کیے گئے وگرنہ کوئی ایک آدھ تو ایسی اموات ہوتی جسے ایران اپنے موقف کی درستگی میں پیش کرتاجس طرح پاکستان نے دہشت گردوں کے مرکز کو نشانہ بناکر مرنے والے فراریوں کی تصاویر بھی دکھائی ہیں مرنے والوں کے دہشت گرد ہونے کی ایرانی زرائع ابلاغ بھی تصدیق کرتے ہیں دونوں ممالک کو اپنے
بلوچ صوبوں میں شورش کا سامنا ہے مگر پاکستان کا رویہ ہمیشہ برادرانہ اور معتدل رہا ہے علاوہ ازیں اگرایک لمحے کے لیے تصور کر لیاجائے کہ ایرانی اطلاعات میں کسی حد تک صداقت ہے تو پھر بھی دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کا تقاضا تھا کہ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کرکے پاکستانی حکام کا دہشت گرد گروپ کے خلاف نہ صرف تعاون حاصل کیا جا سکتا بلکہ مشترکہ کاروائی کی راہ بھی نکالی جا سکتی تھی مگر سفارتی زرائع سے مقصد حاصل کرنے کی بجائے میزائل داغنے جیسا غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا جس سے نہ صرف عالمی سطح پر ایران کی دفاعی کمزوریاں ظاہر ہوئیں بلکہ پاکستان جیسے پُرامن برادر ملک کو جوابی کاروائی کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔
ہفتہ بھر کے تنائو کے بعد دونوں ممالک نے تعلقات بحال تو کر لیے ہیں لیکن کیا پہلے جیسی گرمجوشی دوباہ آسکے گی؟درست جواب کے لیے انتظارکرنا ہوگا کیونکہ ایران کی حماقت سے دونوں ممالک میں کسی حدتک بداعتماد ی آگئی ہے جسے دور کرنے کے لیے ایران کوخلوص اور امن پسندی کایقین دلانا ہو گا۔ پاکستان نے تو انقلابِ ایران کے بعدبھی ہمیشہ کوشش کی ہے کہ چھوٹے موٹے اختلافات کو کبھی تنازع میں تبدیل نہ ہونے دے۔ اب ایران کیا چاہتا ہے ، اس کا اندازہ سفارتی آداب کے مطابق ہونے والی گفتگوسے نہیں بلکہ مستقبل میں اختیار کیے گئے رویے سے ہی ہوگا ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں