انتخابات میں حصہ لینا ہر سیاسی جماعت کا آئینی حق
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقع نہ ملے تو انتخابات متنازع ہوجائیں گے جس سے مزید انتشار پھیلے گا۔ استحکام کا دارومدار الیکشن کمیشن ، نگران حکومت اور عدلیہ کے فیصلوں پر ہے۔ تینوں آئینی ذمہ داری پوری کریں، مہنگائی۔ بے روزگاری سے پسی عوام میں مایوسی و بے چینی بڑھ رہی ہے، ملک کو صاف شفاف انتخابات چاہئیں۔اس ضمن میںصدرِ مملکت عارف علوی کا کہنا ہے کہ ڈنڈا ہر مسئلے کا حل نہیں ڈنڈے سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا، قرآن و سنت سے قانون بنتا ہے، قاضی کا کام قانون پر عمل کرانا ہے، قرآن میں ہے کہ دشمنی میں بھی انصاف کا دامن نہ چھوڑیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے غیرقانونی حربے اور بار بار اقتدار میں آنے والی آزمودہ جماعتوں نے عوام کو مایوس اور ان کے مستقبل کو تاریک کردیا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینا ہر جماعت کا آئینی، جمہوری، سیاسی حق ہے۔ ماضی میں بھی انتخابی نشانات پارٹیوں سے چھینے گئے اور انتخابی عمل میں شرکت پر ناروا رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں۔ اسی عمل نے ملک کو کمزور اور سیاسی انتخابی عمل کو داغدار کردیا۔ یہ الیکشن کمشن کا انتقام ہے جس پارٹی کو کارنر میٹنگ کرنے کی اجازت نہیں اسے کہہ رہے ہیں انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے گئے تو پھر جماعت اسلامی کے علاوہ کون سی پارٹی ہے جس میں انٹراپارٹی الیکشن ہوئے ہیں۔
قوم سابقہ حکمرانوں کے جعلی دعوؤں سے تنگ آچکی ہے، ان کے پاس کارکردگی دکھانے کو کچھ بھی نہیں، یہ اب پھر جھوٹے وعدے کررہے ہیں۔ اقتدار کیلئے انہوں نے باریاں لگائی ہوئی ہیں۔ کبھی ایک خاندان تو کبھی دوسرا خاندان۔ خاندانوں کی بادشاہت کی بجائے اب عوام کو حق حکمرانی دیا جائے۔ جن پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں وہ ملک میں مستحکم جمہوری نظام نہیں چاہتیں، ان کے لیے سٹیٹس کو میں ہی زندگی ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ پارٹیوں کا وجود پہلے قائم ہوجاتا ہے، منشور اور نظریات بعد میں تخلیق ہوتے ہیں۔
الیکشن کمیشن اور نگران حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو برابر مواقع کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ سیاسی جماعتیں مشکل حالات میں بھی اپنی الیکشن مہم چلاتی ہیں۔ پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے برابر حقوق ہیں۔ پی ٹی آئی کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ الیکشن مہم کس طرح چلاتی ہے، اس حوالے سے اس پر کوئی پابندی نہیں۔اس تناظر میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ وہ انتخابی سیاست میں بلیم گیم کے کلچر اور منافرت کی فضا پروان چڑھانے سے گریز کریں اور آزادانہ، منصفانہ ، شفاف انتخابات کے ذریعے پرامن طریقے سے انتقال اقتدار کے مراحل طے کرنے میں معاون بنیں۔
عوام کا اعتبار حکومت سے اْٹھ چکا ہے، عوام اور سرکار کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے، ہر حکمران نے توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کیا، ملک میں سالانہ 5 ہزار ارب کی کرپشن ہوتی ہے، اصل مسئلہ یہی ہے کہ وسائل کم ہیں اور اخراجات زیادہ ہیں، مسئلہ وسائل کی کمی کا نہیں بلکہ کرپشن کا ہے۔ آئی پی پی کے معاہدوں کا بوجھ یک دم اتارنا ہوگا، آئی پی پی کے معاہدوں میں 70 فیصد پاکستانی کمپنیز ہیں۔ملک میں صرف 35 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ ملک میں سالانہ 5 ہزار ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، اصل مسئلہ یہی ہے کہ وسائل کم ہیں اور اخراجات زیادہ ہیں، مسئلہ وسائل کی کمی کا نہیں بلکہ کرپشن کا ہے۔جناب لیاقت بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ سابقہ حکمران جماعتیں اپنے پہلے بیان کردہ منشور، بیانیوں اور حکومتی کارکردگی دکھانے کی بجائے نوراکشتی، جھوٹے پروپیگنڈہ، الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے کا مکروہ کھیل کھیل رہی ہیں۔ ماضی کے ناکام، نااہل، کرپٹ حکمران سیاسی جھتے ملک وملت پر بوجھ بن گئے ہیں۔ فوجی سول اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اقتدار کے لالچی، آئین، جمہوری، سَیاسی اقدار پامال کرنے والی حکمران جماعتیں ملکی تباہی کے برابر ذمہ دار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیری اور غزہ کے مظلوم فلسطینی پاکستان سے جراتمندانہ مؤقف اور اقدامات کے منتظر ہیں۔ لیکن بزدل حکمرانوں نے سودے بازی، ذہنی غلامی سے پاکستان کو کشمیریوں اور فلسطینیوں کی نظر میں مشکوک بنادیا ہے۔ یہ ھماری خارجہ پالیسی کی بڑی ناکامی ہے کہ آج افغانستان اور ایران سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ مستحکم پاکستان اور اہل قیادت ہی عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بحال کرسکتی ہے۔ ن لیگ، پی پی پی کی اتحادی حکومت پی ڈی ایم نے 18 ماہ کے دورِ اقتدار میں پٹرول 126 روپے، ڈیزل 127 روپے، ڈالر 108 روپے، چینی 70 روپے، آٹا 95 روپے، گھی 210 روپے، بجلی 34 روپے یونٹ، گھریلو سلنڈر 1040 روپے، چاول 150 روپے فی کلو مزید مہنگے کردیے۔ گیس، پانی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ سے مہنگائی کی شرح 16 فیصد سے 24 فیصد تک پہنچادی گئی۔ اب ن لیگ، پی پی پی دوبارہ ملک تباہ کرنے پر کمربستہ ہیں، عوام ووٹ کی طاقت سے انہیں شکست دیں گے۔ جماعت اسلامی عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے گی اور تھانہ، عدالتیں، سرکاری دفاتر، سرکاری سکول، سرکاری اسپتال عوام کی خدمت کے لیے بحال کردیں گے۔ کرپشن کنٹرول کی جائے گی. نیب، پولیس، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اداروں کا غیر آئینی، غیرقانونی استعمال بند کیا جائے گا۔
پی ڈی ایم کی 16ماہ کی کارکردگی کی پڑتال کی جائے تو سیاسی و معاشی خسارے اور مایوسی و بے چینی کے سوا کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ 16ماہ میں ہم کہاں جا پہنچے اس کا اندازہ 16ماہ پہلے کے چند بنیادی معاشی اشاریوں کے تقابلی جائزے سے ہو جاتا ہے۔ برآمدی شعبہ ملک کا سب سے مضبوط مالیاتی شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ شعبہ بھی ان 16ماہ میں بری طرح گراوٹ کا شکار رہا۔ اس کی وجہ روپے کی قدر میں کمی اور امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ تھا۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی خطرناک حد تک کم ہو گئے تھے جس نے ہماری تجارت کو بہت نقصان پہنچایا۔ ہمارے رہنماؤں کو ملکی معیشت اور اقتصادی بہتری کی جانب توجہ دینے کی ضرورت تھی جو انہوں نے نہیں دی جس کے منفی اثرات سامنے آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔