میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یوم جمہوریہ اور ہندو ذہنیت

یوم جمہوریہ اور ہندو ذہنیت

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۹ جنوری ۲۰۲۰

شیئر کریں

بھارت انسانیت کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے۔ اس کی بہیمت ، شقاوت اور رکاکت کا اندازا لگانا بھی مشکل ہے۔دو روز قبل بھارت نے اپنا 71واں یوم جمہوریہ منایا۔ مگر اس دوران پورا ملک احتجاج کے نرغے میں رہا۔ بھارت کو ہمیشہ رنگارنگ اور تکثیریت کی حامل دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت باور کرایا جاتا رہا۔ اس کے مختلف اسباب بھی تھے ، مگر یہ درست اور حقیقی تصویر ہر گز نہیں تھی۔ درحقیقت بھارت ایک متناقض اور متضاد شکل رکھنے والا ایک غیرفطری اکٹھ ہے، جسے تاریخ کی ہر تعبیر مسترد کرتی ہے۔ اس کے باوجود بھارت کو اپنے آئین کی وسیع المشربی کا بڑا ہی غرہ رہا۔ اس کا سبب مجلس دستور سازکے وہ ارکان تھے،جن میں مسلم ، اینگلو انڈینز ، پارسی اور دیگر مذاہب کے متعلقین شامل تھے۔ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، پنڈت جواہرلال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، ولبھ بھائی پٹیل، سرسید سعد اللہ، راجکماری امرت کور، سی راجگوپال چاری، ڈاکٹر راجندر پرساد اور سروجنی نائیڈو اسی دستور ساز مجلس کے ارکان تھے، جن پر بھارت اپنی وسیع البنیاد جمہوریت کی غلط سلط تشریح کرتا ہے۔

 

بھارت کی مجلس دستور ساز نے 26؍نومبر 1949 ء کو دستور ہند گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو تبدیل کرکے جو سرکاری دستاویز مرتب کی وہ تاریخ کی جلوہ گاہ پر ایک دھوکا ثابت ہوئی۔ یہ ضخیم آئینی دستاویز 23 ابواب ،395 دفعات، 8شیڈولز، 146385 ہزار الفاظ اور 103ترامیم کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا نعرہ بھی لگاتی ہے۔ یہ دستور اپنے بنیادی مفہوم میں انصاف، مساوات، آزادی اور بھائی چارے کے فروغ کا دھوکا بھی دیتی ہے۔ گنگا جمنی تہذیب، ہندو مسلم اتحاد، کثرت میں وحدت اور انسانی آدرشوں کی برتری کے پرفریب دعوے بھی اس دستور کے ماتھے پر لگے ہیں۔بھارت کا یہ زعم بھی اپنی جگہ ڈکارتا رہتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جن بارہ ایشیائی ممالک نے آزادی حاصل کی اُن میں صرف تین ممالک بھارت، تائیوان اور جنوبی کوریا کے ہی دساتیر باقی ہیں، بھارت کا یہ زعم دراصل پاکستان کے خلاف ایک طنزیہ مسکراہٹ پیدا کرنے کے لیے اکثر اُبکائیاں لیتا رہتا ہے۔ مگر اسی ’’جمہوریہ‘‘ نے دنیا کے سب سے زیادہ فسادات تخلیق کیے۔ مودی جیسا موذی شخص دیا۔ بھارت کا یہ آئین 25 مئی 2014 ء کو پہلی بار نہیں رویا تھا، جب گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے مسلمانوں کا قتلِ عام کرایا تھا۔ اس سے قبل بے شمار فسادات میں ہزاروں انسانوں کو یہی جمہوریہ نگلتا رہا تھا۔ اس کی بھینٹ خود بھارت کی سب سے بڑی دُہری شخصیت یعنی گاندھی بھی چڑھ چکے تھے، جنہیں کٹر ہندوؤں نے صرف اس لیے نشانا بنایا کہ وہ ایسے ہندو کیوں نہیں، جیسے کہ وہ خود ہیں۔ درحقیقت گاندھی بھی کوئی مختلف ہندو نہیں تھے، تاریخی شعور ، ہندوؤں کی محدودات اور مسلم ذہن کے فہم نے اُنہیںتزویراتی انداز میں اس مسئلے کو ایک ابہام میں رکھنے اور سیکولر انداز کو حکمت عملی کے طور پر اختیار کرنے کی راہ سجھائی تھی۔ ایسے بھارت میں امیت شاہ اور مودی ہی پیدا ہوسکتے تھے جو ہوئے۔ یہ بھارت کا ہندو ذہن ہے جس نے گجرات کے قتل عام کے ’’انعام‘‘ میں مودی کو زیراعلیٰ سے وزیراعظم کے منصب تک پہنچا دیا۔ اور یہ بھارت کے آئین ، عدلیہ اور جمہوریت کی ناکامی ہے کہ وہ اس کا راستا روک نہیں سکی۔ پھر مودی نے وہی کیا جو وہ کرسکتے تھے۔ کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے سے اُنہوں نے اپنے مکروہ کھیل کا آغاز کیا جواب شہریت ترمیمی قانون کی تشکیل کے بعد ہندو توا کا دہشت ناک ناچ، ناچ رہے ہیں۔ یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہورہا۔ اسی بھارت میں 1984 میں سکھ مخالف فسادات ہوئے، 6 دسمبر1992 ء کو بابری مسجد کی شہادت اور ممبئی کے مسلم مخالف فسادات ہوئے۔گجرات میں 2002میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ بھارت میں آج جو کچھ ہورہا ہے وہ تنگ نظر ہندو ذہنیت کے پورے نسب کے ساتھ ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ہندو ذہنیت کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں ہوتی؟ آخر کیوں بھارت کو جمہوریت کی چکاچوندی اور آئین کے زرق ورق لباس میں چھپایا جاتا ہے۔ بھارت میں جمہوریت اور آئین کا رکھ رکھاؤ حقیقی نہیں انتہائی مصنوعی ہے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

 

درحقیقت ایک نئے ملک کی نیو اُٹھاتے ہوئے ہندؤں کے سامنے مختلف تاریخی جبر تھے۔ انگریزوں سے آزادی کی سرگرم تحریکیں مختلف المذاہب تھیں جن میں صرف ہندؤں کا حصہ نہیں تھا۔ پھر انگریزوں کے جبر سے ایک صبر آزما جدوجہد سے نکل کر آنے والے مسلمان اور دیگر مذاہب کے حامل گروہوں کو آزادی کے فوراً بعد سُلٹایا نہیں جاسکتاتھا جو جدوجہد میں ابھی تازہ دم تھے۔ مسلمان اس حوالے سے پرُجوش و پُرخروش تھے۔ چنانچہ ہندو قیادت کے لیے ایک طرف مختلف تحاریک میں حصہ لینے والی مختلف المذاہب اکائیوں کو مجتمع رکھنے کا چیلنج تھا تو دوسری طرف بھارتی سرزمین کو ہندوعقیدے کی تقدیس میں ناقابل تقسیم سرزمین رکھنے کی ضد کا دوام دینے کی کشاکش تھی۔ یہ وہ تاریخی جبر تھا جس میں بھارت کی مجلس دستور ساز میںمختلف الخیال رہنماؤں کی گنجائش نکل سکی۔ اس جبر کو ہندو نفسیات سے ناآشنا اور مسلم تصور کے حریفوں نے ایک متنوع ، سیکولر اور وسیع البنیاد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر باور کرایا۔ تاریخ کی کٹھالی بہت بے رحم ہوتی ہے، جب اسے حقیقت کی آگ اور صداقت کی دھونکی لگتی ہے تو ملاوٹ اور دھوکے کے مرکبات کو چھان دیتی ہے۔بھارت اسی کٹھالی میںغوطے کھا رہا ہے۔ تاریخ نے سارے دھوکے ، مکر کے دکھاوے اور بناوٹی تماشے بے نقاب کردیے ہیں۔ آج کا بھارت اپنے سیکولر دھوکے کے لاشے پر ہندو تعصب کی اپنی اصل شکل میں عریاں ہے۔

 

یہ اپنے عظیم قائدین کے فہم وفراست کو خراج تحسین پیش کرنے کا بھی وقت ہے۔ اس صورتِ حال کا ادراک علامہ اقبالؒ نے سب سے پہلے کیا۔ عظیم رہنما قائد اعظمؒ کی راست بازی اور مستقیم ذہنی صلاحیت نے اس کو تاریخ کے تدریجی عمل میں بھانپ لیا۔ چنانچہ وہ پاکستان کو اقلیتوں کے لیے محفوظ بنا کر ہندوبھارت کے لیے ایک مستقل سوال اُٹھائے رکھنا چاہتے تھے۔ قائداعظم کی اس بالغ نظری اور حکمت عملی سے اُبھرنے والے الفاظ کو پاکستان میں ایک الگ تشریح کے لیے اُن قوتوں نے استعمال کیا، جنہیں دوقومی نظریے سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ آج کا بھارت اُن احمقوں کے لیے ایک ملامت بن کر سامنے ہے۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ ایسے عظیم قائدین نے اسی بھارت کی پیش بینی کی تھی۔ مگر یہاں بھارتی آئین کے مصنف کولمبیا یونیورسٹی اور لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو کیوں کر فراموش کیا جاسکتا ہے؟دلت نسل سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امبید کر سب سے زیادہ ہندو ذہنیت کو سمجھتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے ذات پات اور تمیز بندہ وآقا میں تقسیم بھارت میں برہمن نفسیات کے مقابل اپنے علم کی شمع جلائی۔ بہترین قانونی دماغ کے ساتھ وہ اپنی چھوٹی ذات یعنی دلت حیثیت کو ابھارنے میںخود کو صرف کرتے رہے اور آخر کار برہمن ذہنیت کے آگے تھک گئے۔ کیا کوئی اس بہیمت کو سمجھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر امبید کر جو بھارتی آئین کے مصنف ہیں خو داس آئین سے اپنے لیے کوئی مقام پیدا نہیں کرسکتے تھے؟اس برہمن ذہنیت کی رکاکت کو سمجھنے کے بعد بالاخر ڈاکٹر امبید کر نے یہ سمجھ لیا کہ انسانی شرف ہندو مذہب کو ترک کیے بغیر حاصل ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک تاریخی فقرہ کہا: میرے ہاتھ میںیہ تو نہیں تھا کہ میں کس مذہب پر پیدا ہوں مگر میرے ہاتھ میں یہ ضرور ہے کہ میں کس مذہب میں مروں‘‘۔ اس طرح بھارتی آئین کے مصنف ڈاکٹر امبید کر نے اپنا ہندو مذہب ترک کردیا تھا۔ یہ وہ یوم جمہوریہ ہے جس کو بھارت ایک جھوٹی توقیر اور کچھ صداقت فروش لبرل تعظیم دیتے ہیں۔ یہ فہم اپنے آپ میں مودی جیسی شقاوت کا اظہار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں