چکر اور گھن چکر
شیئر کریں
ایم سرور صدیقی
پاکستان کے تمام سیاستدان ان میں وہ بھی شامل کرلیں جن کو جمہوریت سوٹ نہیں کرتی یا جو اسٹیبلشمنٹ کے کندھوںپر سوارہوکر اقتدار میں آناپسند کرتے ہیں سب کے سب جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے، بیشتر حلق پھاڑکر پارلیمنٹ کی بالا دستی کیلئے چیختے ہیں، زیادہ تر آئین اور قانون کی باتیںکرتے ہیںتو اکثریت کی ہنسی نکل جاتی ہے کہ ان لیڈروںنے عوام کو کیسے کیسے ڈھب سے عوام کو بیوقوف بنایا ہواہے جمہوریت کی حکمرانی میں پارلیمنٹ کی بالادستی مقدم ہے لیکن ایسی جمہوریت کا کیا کیجئے جہاں عوام ووٹ الف کو دیتے ہیں مگر جیت بھی جاتاہے ۔گذشتہ ہونے والے عام انتخابات اس کی بہترین عکاسی کرتے ہیں عوام کو فارم 45اور47 کے چکرمیں چکر دیا گیا اور بے چاری جمہوریت ابھی تک اسی گھن چکر سے ہی نہیں نکال پائی پھر بھی نہ جانے کیا بات ہے لوگ ان نام نہاد لیڈروںکے چنگل سے نکلنے کے لئے تیار ہی نہیں؟
یوں محسوس ہوتاہے میرے تمام ہم وطن سورج مکھی کے کھیت میں اگنے والے پودے ہیں سورج نکلتاہے تو سب کے منہ سورج کی طرف ہو جاتے ہیں اور ساری ان کی ساری زندگی ایسے ہی زندہ باد۔۔مردہ باد۔۔۔آوے ای آوے یا جاوے ای جاوے کی گردان کرتے گذرجاتی ہے۔سمجھنے،سوچنے اور غورکرنے کی بات ہے جمہوریت ۔ ۔جمہور کیلئے ہے یا اشرافیہ کیلئے۔۔۔پاکستان کے تمام سیاستدانوںپر نظردوڑائیں99%سیاستدان ابن ِ سیاستدان ہوں گے ان لوگوںنے جمہوریت، آئین اور قانون کو گھرکی لونڈی بنارکھاہے سرکاری نوکریاں، قرضے ،پلاٹ ، وزارتیں اور ملکی وسائل انہی کیلئے مخصوص ہوکررہ گئے ہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت اس طبقہ کے فائدے کی بات ہے یہی لوگ جمہوریت کے نام پر کاروبارکررہے ہیں انہی نے اپنے بھائیوں،سالوں اور کزنوںکے نام پر کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں وہ فرنٹ مین ہیں جبکہ منافع ان کی اپنی جیبوں میں آرہاہے۔ انہوں نے آکٹوپس کی طرح پورا معاشرے کو جکڑ رکھا ہے عدلیہ، بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ،فیوڈل لارڈز،سرمایہ داروں اور سیکیورٹی اداروںکے بڑے بڑے خاندانوںکے ساتھ ان کی رشتہ داریاں ہیں حکومت کسی پارٹی کی آجائے، اپوزیشن میں جو بھی سیاستدان ہو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے باوجود ایک بات سمجھ سے بالا ہے لوگ جاگتے کیوں نہیں۔۔ جاگنا کیوں نہیں چاہتے شایداس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔۔ لیکن ایک بات کا یقین ہے جس دن اس سوال کا جواب مل گیا انقلاب آجائے گا ۔
کچھ لوگوںکو یہ احساس خوشگوار لگتاہے کہ اب پاکستان میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اکثر کہا جاتا ہے کہ عسکری قیادت کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستانی افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتاہے جن کی بدولت پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں مکمل طورپر محفوظ ہیں یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ اس لئے پاکستانی قوم کو اپنی مسلح افواج پر فخرہے کیونکہ ہر مشکل وقت میں پاک فوج نے اپنے ہم وطنوں کو مایوس نہیں کیا لیکن عام آدمی اپنے سیاستدانوں سے مایوس ہوتاچلاجارہاہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جب تک جمہوریت اشرافیہ کی لونڈی بنی رہے گی ملک میں سیاسی تبدیلی نہیں آسکتی ۔اب ملک میں جمہوریت رہے یا ڈکٹیٹر آئیں کیا فرق پڑتاہے ۔ملک کی حالت اور لوگوںکے حالات نہیں بدلتے ۔حالانکہ حکمرانوںکی کوشش ہونی چاہیے کہ جمہوریت کے ثمرات سے عوام تک پہنچیں۔ ۔ ۔ مہنگائی ،بیروزگاری،کرپشن کا خاتمہ ، امن و امان کا قیام حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے صحت ،تغلیم اور بنیادی حقوق سب کیلئے یکساں ہوں تو ایک روشن مستقبل کی بنیادررکھی جا سکتی ہے۔
صدیوں پہلے عظیم فلاسفر افلاطون نے کہا تھا اچھے لوگوںکاسیاست سے کنارہ کشی کا مطلب ہے تم پرکمترلوگ حکومت کریں اس کا کہا سچ ثابت ہوا آج اقتدار میں کمتر ہی نہیں کمینے لوگ بھی آگئے ہیں جنہوںنے پاکستان میں جمہوریت کو یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے۔ ان سیاستدانوںنے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے تو دولت کے پہاڑ اکٹھے کرلئے ہیں اور عام آدیم کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں مفادپرست سیاستدانوں نے ملک، قوم،آئین ،قانون،جائز ناجائزسے کوئی غرض نہیں ِانہیںفقط اپنا فائدہ عزیزہے اور اس فائدے کیلئے کسی بھی حد سے گذر جانے کو تیارہیں غورکریں تو یہی لوگ وطن ِ عزیز میں مسائل ہی نہیں فسادکی جڑ ہیں عوام کی حاکمیت جمہوریت کا اصل حسن ہے۔ اب تو یہ ہرکسی پر عیاں ہوگیاہے کہ موجودہ حکومت کیسے اقتدار میں آئی ہے؟پھر بھی عوام کی اکثریت اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے اس لئے حکمرانوںکے پیش ِ نظر عوام کی خدمت ہو نا لازم ہے اس طرح بہت سے مسائل مہنگائی اوربیروزگاری کاخاتمہ ،بجلی ،پانی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوںمیں کمی کرکے عام آدمی کو ریلیف دیا جا سکتا ہے سب سے ضروری امن و امان کی صورت حال بہتر بناکر گراں فروشوںکے گردشکنجہ کس دیا جائے تو بہتوںکا بھلا ہوگا اور غریب دعائیں دیتے پھریں گے ورنہ عوام مسائل کے گھن چکر سے کبھی نہیں نکل سکتے۔