میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طالبان کی رجعت پسندانہ سوچ پاکستان کیلئے خطرہ ہے، فواد چودھری

طالبان کی رجعت پسندانہ سوچ پاکستان کیلئے خطرہ ہے، فواد چودھری

ویب ڈیسک
منگل, ۲۸ دسمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی دونوں جانب انتہا پسند ریاستیں ہیں، ایک طرف افغانستان میں طالبان کی رجعت پسندانہ سوچ ہے دوسری طرف بھارت ہندو انتہا پسندی ہے، جو پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔تصویری نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نیھ کہا کہ قوم میں یہ تذبذب پایا جارہا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات انہوں نے اپنی تین بڑی تقاریر میں ظاہر کی تھی، پہلی تقریر انہوں نے 11 اگست 1947کو کی تھی جو اسمبلی سے کی، دوسری تقریر فوج جبکہ تیسری تقریر انہوں نے عوام سیکی تھی۔انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر نئے پاکستان کو سمجھنے کی بنیاد ہیں، عمران خان قائداعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، یہ غلط فہمی دور کرلیں کہ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت کے لیڈران نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ انہیں اندازہ تھا کہ جب یہاں جمہوریت آئی کی تو ہندو اکثریت اقلیتوں کا جینا دوبھر کریں گے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت میں نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں وہ دنیا کے سامنے ہے، مسلمانوں پر جو ظلم ڈھایا جارہا ہے وہ تو معمول بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ کے واقعے پر پورا پاکستان اکھٹا ہوگیا اور سب نے اس واقعے کی مذمت کی تاہم بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اس پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔انہوںنے کہاکہ ہمیں اس وقت کے سیاسی قائدین کو دات دینی چاہیے جنہوں نے اتنے سال قبل حالات کو جانچ لیا کہ ظالم اکثریت مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی، انہوں نے ایک قومی ریاست تشکیل دی جیسے ہم پاکستان کہتے ہیں۔فواد چوہدری نے کہاکہ اس ریاست کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان کسی اکثریت کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنیں اور اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان کے دائیں اور بائیں طرف دو انتہا پسند ریاستیں ہیں، ایک طرف افغانستان ہے جہاں طالبان آگئے ہیں، ہم افغانستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاہم جس طرح سے ان کی سوچ ہے کہ خواتین وہاں اکیلے سفر نہیں کرسکتی، اسکول و کالج نہیں جاسکتی، پاکستان کے لیے وہ خطرہ ہے اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے، دوسری جانب بھارت جہاں ہندو انتہا پسندی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دونوں طرف انتہا پسندی سے بچنے کیلئے لڑائی لڑنی ہوگی، لیکن پاکستان ہی اس خطے کا وہ واحد ملک ہے جو اس انتہا پسندوں سے لڑ سکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ قائداعظم نے 10 اگست 1947 کو کہا تھا کہ جو عہدوں کے حوالے سے جو مذہب کے پیرافیریسز ہیں نکال دیا جائے تاکہ جو مسلمان نہیں ہیں وہ بھی عہدے پر حلف لے سکیں، اور 11 اگست 1947 کو انہوں نے اقلیتوں کے حقوق واضح کردیے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا ہوتا تو پاکستان کی تحریک مولانا عبدالکلام یا مولانا مودودی چلاتے، یہ مذہبی علم پر عبور حاصل تھا، لیکن انہوں نے پاکستان کی تحریک نہیں چلائی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ مذہب میں ریاست کی گنجائش نہیں ہے اور ریاست کی سرحد نہیں ہوسکتی۔فوادچوہدری نے کہا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال نے سیاسی تحریک چلائی اور اسلام کو سیاسی طور بڑھایا کہ ایک ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں اسلام کو ماننے والے ایسی جگہ رہ سکیں جہاں کوئی ظالم اکثریت نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حفاظت کیلیے یہ لڑائی جیتنا بہت اہم ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد کس طرح بھارت کی معیشت ہو یا خارجی پالیسی تمام تنزلی کا شکار ہیں، کیونکہ وہاں پر مذہبی اکثریت کے نام پر انتہا پسندی پھیلائی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں قائد اعظم کے پیغام کو آگے لے کرجاتا ہے ان کا پیغام واضح ہے اور ہمیں اسے سمجھنا ہے اس جنگ کو لڑنا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں