جناب ٹرمپ ایسے نہیں چلے گا
شیئر کریں
فیصل ندیم
4 جولائی 1776 وہ تاریخ کہ جس میں دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت کے قیام کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی۔ براعظم شمالی امریکا میں قائم اس مملکت کا نام ریاست ہائے متحدہ امریکا یا یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے اس دور دراز خطہ کو برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے اپنے ملک کے فسادیوں کو بسانے کے لیے استعمال کیا تھا۔امریکا بہادر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات صحیح معلوم پڑتی ہے کہ اپنے قیام کے بعد دو سو سے زائد جنگوں کا حصہ بننے والا امریکا دنیا کے تقریباً ہر خطہ میں انسانوں کے قتل عام میں ملوث دکھائی دیتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں ابتدا میں امریکی کردار محدود تھا لیکن 1917 میں امریکا باقاعدہ طور پر اس جنگ کا حصہ بن گیا۔ اس جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فتح نے دنیا میں امریکا کے کردار میں اضافہ کیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ کردار نمایاں ترین ہوگیا۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں تقریباً ساڑھے دس کروڑ انسان لقمہ اجل بنے۔ اتنے انسانوں کا خون بہانے والے ممالک میں ایک نمایاں ترین نام امریکا کا بھی تھا۔واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم میں دنیا کے مہلک ترین ہتھیار ایٹم بم کو استعمال کرکے جاپان کے شہروں، ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو بھسم کردینے کا کارنامہ بھی امریکا بہادر نے ہی سرانجام دیا تھا۔اتنے انسانوں کا خون منہ پر لگنے کے بعد امریکا کا ایک خون آشام درندہ بن جانا ایک فطری بات تھی۔1950 کی کورین جنگ اور 1959 کی ویتنام جنگ امریکی جنگجویانہ فطرت کا ہی شاخسانہ تھی۔ ان دونوں جنگوں میں ہزاروں افراد امریکی حملوں کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گئے۔1990 جس کے بعد اس کے غرور تکبر میں نمایاں اضافہ ہوگیا اور وہ ساری دنیا کو اپنی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ 1979 کی روس افغان جنگ میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکا دنیا میں واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔
1990 کی جنگ خلیج کے متعلق اکثر ماہرین کی رائے یہی ہے کہ صدام حسین کو کویت پر حملہ کرنے کے لیے ابھارنے والا امریکا ہی تھا اور جب صدام نے کویت پر حملہ کرکے قبضہ کرلیاتو امریکا اپنے اتحادی لے کر اس پر چڑھ دوڑا۔ یوں اسے خلیجی ممالک میں داخلے کا موقع میسر آگیا۔ خلیج میں امریکی آمد نے خلیج کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں مزید اضافہ کردیا۔11 ستمبر 2001 میں امریکی شہروں نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے حملوں نے گویا دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکی اپنے آپ کو دنیا کا مائی باپ سمجھتے تھے اور دنیا کے تمام قوانین کو مسترد کرکے امریکی ساختہ نیو ورلڈ آرڈر کے مطابق دنیا کو چلانا چاہتے تھے۔ان حملوں کے بعدوہ زخمی سانڈ کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔ چونکہ امریکا اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے اس نے کہیں ترغیب اور کہیں دھمکیوں،دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ساری دنیا کو اپنے ساتھ کھڑا ہونے پر راضی کرلیا۔اس بار اس کا نشانہ افغانستان تھا جہاں طالبان کی صورت میں ایک اسلامی حکومت موجود تھی۔ اس جنگ میں امریکا نے افغان عوام پر وہ مظالم ڈھائے کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔افغانستان کو گویا ہر طرح کے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ اس جنگ میں قید ہونے والے افراد کے حوالے سے بھی امریکا اخلاقی پستی کی انتہا پر نظر آیا اور اس نے کیوبا ، گوانتاناموبے اور بگرام ائیربیس پر قائم شدہ اپنی جیلوں میں قیدیوں سے وہ انسانیت سوز سلوک کیا کہ جس کی توقع کم از کم آج کی مہذب دنیا میں نہیں کی جاسکتی۔
امریکا اور اس کے حواریوں کی جانب سے افغانستان میں موت کا یہ کھیل جاری ہی تھا کہ امریکا اور اس کے خاص حواری برطانیا نے دنیا میں ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھنے کی شروعات کردی۔ دنیا کے متعدد ممالک کو اپنے مہلک اور تباہ کن ہتھیاروں کا نشانہ بنانے والے امریکا اور برطانیا ایک نیا راگ الاپ رہے تھے۔ جس میں عراق کے پاس موجود تباہ کن ہتھیاروں کی فرضی داستانیں دنیا کو سنائی جا رہیں تھیں۔ جواب میں عراقی صدر صدام حسین نے اس طرح کے کسی بھی ہتھیار کی موجودگی سے انکار کردیا۔اقوام متحدہ کی معائنہ ٹیموں نے صدام حسین کے اس دعوے کی تصدیق کی لیکن امریکی صدر جارج بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی آنکھوں میں گویا خون اترا ہوا تھا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی رپورٹس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر وہ 2003 میں عراق پر بھی حملہ آور ہوگئے۔
افغانستان و عراق کے بعد امریکا نے کچھ اس طرح کا کھیل شام اور لیبیا میں بھی اور ان دونوں ممالک میں بھی لاکھوں مسلمان امریکا اور دوسرے جارح ممالک کی جارحیت کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گئے۔ان تمام ممالک میں امریکی سازشوں کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے نتیجے میں ہونے والا قتل عام آج بھی جاری ہے۔ لاکھوں لوگ قتل ہوچکے ہیں جبکہ کروڑوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر کو تہذیب و تمدن سکھلانے والے امریکا بہادر کی اپنی اخلاقی حالت یہ ہے کہ وہ دنیا کی دو بڑی غاصب ریاستوں اسرائیل اور بھارت کا برجوش حامی ہے جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل فلسطین میں اور بھارت کشمیر میں کس طرح مسلمانوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ کل دنیا کا کوئی ملک امریکا کے سامنے سر اٹھانے کی جرات نہیں کرتا تھا اور آج کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جو امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان جسے امریکا ،انڈیا اور دیگر دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرلیا تھا اور سمجھا یہ جا رہا تھا کہ شاید پاکستان اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی کہنے والے امریکا نے ڈرون حملوں اور اپنے ایجنٹس کے ذریعے پاکستان کے طول و عرض میں کیے گئے خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے پاکستان کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک وقت تھا کہ امریکی پورے پاکستان میں دندناتے پھرتے تھے وہ جب چاہتے جہاں چاہتے سب کچھ کرسکتے تھے لیکن گزرتے وقت نے ثابت کیا کہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر وقتی طور پر امریکی دوستی کا ڈول ڈالنے والا پاکستان ہی اس کی بربادی اور تباہی کی وجہ بن گیا۔ کل کیفیت یہ تھی کہ امریکی نچلے درجے کے اہلکار آئے روز پاکستان آ دھمکتے تھے اور پاکستانی حکام قطار لگا کر ان کی جی حضوری میں مصروف دکھائی دیتے تھے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اول تو پاکستان کسی امریکی اہلکار کو بلانے کے لیے تیار نہیں ہے اور اگر کوئی اصرار کرکے آبھی جائے تو استقبال کے لیے نچلے درجے کے افسران آنے والوں کو ان کی اوقات یاد کروانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو عہدہ صدارت پر براجمان ہونے سے قبل ایک غیر سنجیدہ اور لاابالی شخصیت کے طور پر معروف تھے اکثر بڑے اوچھے اور عامیانہ انداز میں پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا اب تبدیلی کے بہت بڑے مرحلے سے گزر رہی ہے جہاں امریکا دو ہزار ایک والا طاقتور امریکا نہیں ہے اور پاکستان بھی دو ہزار ایک والا کمزور پاکستان نہیں ہے۔ عسکری طور پر پہلے سے کئی گنا مضبوط پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ سی پیک جیسا منصوبہ جسے دنیا گیم چینجر کے نام سے پکار رہی ہے،چین، روس اور دنیا کے دیگر متعدد ممالک پاکستان کے قریب کرنے کا باعث بنا ہے۔ ماضی میں امریکی دھمکیوں کو پاکستان میں بڑی سنجیدگی سے لیا جاتا اور ان کے احکامات کی تعمیل کی ھتی الامکان کوشش بھی کی جاتی تھی لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔آج کا پاکستان پورے قد کے ساتھ امریکیوں کے سامنے کھڑا دکھائی دیتا ہیَ یہ پہلی دفعہ ہے کہ پاکستان امریکا کی جانب سے امداد بند کرنے کی دھمکی کو بھی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اعلی پاکستانی ذمہ داران متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں امریکی امداد کی بندش سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اس صورتحال میں چند لوگ جنہوں نے امریکی غلامی کا بیٹرہ اٹھایا ہوا پاکستانی عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ بھی اپنے مشن میں یکسر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ بین الاقوامی محاذ پر بھی اس وقت امریکا سخت ہزیمت کا سامنا کر رہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت بیت المقدس (یروشلم) کے مسئلہ پر ہونے والی امریکی شکست ہے۔ پہلے اقوام متحدہ کی سلامی کونسل میں امریکا کو ایک کے مقابلے میں چودہ ووٹوں کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور بعد میں ٹرمپ کی امداد بند کرنے کی دھمکیوں کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 9 کے مقابلے میں 128 ووٹوں سے شکست امریکا کا مقدر بنی۔ یہ دونوں شکستیں امریکا کے لیے بہت بڑی ذلت کا باعث ہیں۔ مستقبل میں اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ امریکی مظالم سے تنگ آئی دنیا کے ہاتھوں امریکی رسوائیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
یہاں ہم پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے سربراہان کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اپنے آپ کو ہر طرح کے امریکی اثر و رسوخ سے آزاد کرتے ہوئے اپنے قومی اور ملی مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں بصورت دیگر تیزی سے ڈوبتا ہوا امریکا بہت سے اور ممالک کی تباہی کا بھی سبب بن جائے گا۔ آخر میں ہم ان امریکی مطالبات کی سخت مذمت کرنا چاہیں گے جن میں امریکا پاکستان کی خود مختاری پر چیلنج کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے حافظ محمد سعید کی گرفتاری کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہم درست طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو امریکا کو یہ بات سختی سے باور کرانی چاہیے کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے جس کی عدالتیں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں۔ حافظ محمد سعید نے ان عدالتوں سے اپنے لیے پروانہ رہائی حاصل کیا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حافظ محمد سعید پاکستان کے ایک پرامن اور قانون پسند شہری ہیں اور انہیں پاکستان کسی بھی دوسرے شہری کی طرح آزادانہ زندگی گزارنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ یہاں ہم امریکا کے رنگیلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایک انتہائی اہم بات سمجھانا چاہتے ہیں کہ حضرت ڈونلڈ ٹرمپ صاحب خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آئیں آپ کی سپر پاور ی کا سورج اب غروب ہونے کو ہے اس لیے اب آپ اوروں کی فکر چھوڑ کرتیزی سے تباہی کی طرف بڑھتے ہوئے امریکا کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ بہتر ہے کہ آپ ہماری نصیحت پر عمل کریں اور اگر نہیں کریں گے تو بھی آپ کو بتائے دیتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب اب ایسے نہیں چلے گا۔