میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لیبیاپرالزامات کی حقیقت

لیبیاپرالزامات کی حقیقت

منتظم
جمعرات, ۲۸ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

عمرفاروق
عرب بہار کا آغاز تیونس سے ہوا تھاجہاں حکومت کا دھڑن تختہ ہوا۔ اس کے بعد لیبیا میں قذافی کا تختہ الٹا گیا۔ پھر مصر میں حسنی مبا رک کا بوریا بستر گول ہوا۔ مصرکے حالات بدلے پہلے مرسی بعدازاں فوجی آمرکواقتداردیاگیا ۔ اس کے بعد شام میں بشارالاسد کی آمریت کے خلاف تحریک شروع ہوئی جوتاحال جاری ہے ۔اس کے بعد عراق میں جنگ کے شعلے بھڑکے ۔یوںایک ایک کرکے مضبوط ممالک کوکمزورکردیاگیا اکثرممالک تاحال خانہ جنگی اورعدم استحکام کاشکارہیں انہی ممالک میں لیبیا بھی شامل تھا ۔عرب کی جس بہار سے پھول کھلنے کی توقعات تھیں، و ہ خزاں ثابت ہورہی ہے۔ کسی ایک ملک میں بھی اسلام زندہ نہیں ہوا، بلکہ حالات مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ بہار کے سندیسوں کو عالمی طاغوتوں نے کہیں جلادیا، کہیں دبا دیا اور کہیں غیرمحسوس طور پر وہ انہیں اپنے لیے استعمال کررہے ہیں۔ان ممالک کوعدم استحکام کاشکارکرنے کامقصدیہ ہے کہ عرب ممالک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہوجائیں گے جنہیں بدحالی اور غربت کی وجہ سے اپنا سفر زیرو سے دوبارہ شروع کرناپڑے ۔ یہی امریکا کا مقصودِ اصلی ہے۔ وہ چاہتا ہے اسرائیل کے ارگرد کے مسلم ممالک کو اتنا بدحال اور منتشر کردے کہ وہ کبھی بھی اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہ بن سکیں۔ حالات کو غورسے دیکھیں تو مستقبل کا منظرنامہ کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔

لیبیاایک افریقی عرب ملک ہے جو شمالی افریقہ میں واقعہ ہے اِس کے مشرق میں مصر ہے ،لیبیا رقبے کے اعتبارسے دنیا کا (17) بڑا ملک ہے، تقریبا (95) فیصد صحرا ہے۔لیبیاکاکل رقبہ 1759540 مربع کلومیٹر ،یعنی 679362 مربع میل ہے ۔2011 میں مسلح باغیوں نے چار دہائیوں تک مسلسل مسند اقتدار پربراجمان رہنے والے معمر قذافی کو طرابلس سے 360 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر سرت میں شہیدکردیا۔جس کے بعد لیبیا میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اورعسکریت پسندتنظیمیں ملک کے کونے کونے میں پھیل گئیں، لیبیا کی انقلابی تحریک کے عوامل داخلی نہیں بلکہ خارجی تھے،اور یہ کہ عالمی طاقتوں کا تخریب کا ایک ایجنڈا تھا جسے عربی محاورے "عل ہلہا تجنی براقش ،، یاآ بیل مجھے مار ،،کے مصداق لیبیائی عوام نے ہی عملی جامہ پہنایا۔

معمر قذافی کے دور میں لیبیا اسرائیل سے مقابلے کے دعویداروں میں سے ایک تھا اور ہمیشہ سے اس کی یہ کوشش رہتی تھی کہ خود کو اسرائیل مخالف ممالک کی پہلی صف میں ظاہر کرے۔ اسرائیل نہیں چاہتا لیبیا عرب ممالک میں اپناکوئی کرداراداکرے لیبیا میں سابق آمرمعمر قذافی کے خلاف عوامی تحریک شروع ہونے کے بعد اسرائیل کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی کہ کہیں قذافی حکومت کے پاس موجود میزائل اور دیگر فوجی سازوسامان اسرائیل مخالف عناصر کے ہاتھ نہ لگ جائے لہذا اسرائیل نے امریکا کی سربراہی میں نیٹو فورسز کو مجبور کیا کہ وہ معمر قذافی کے تمام اسلحہ کے ذخائر نابود کر دیں۔ اسرائیل ویسے بھی گذشتہ کئی عشروں سے لیبیا کی میزائل طاقت ختم کرنے کے درپے تھا۔ معمر قذافی کے بعد دو اور ایسے ایشوز تھے جو اسرائیل کی نظر میں بہت اہم تھے۔ ایک یہ کہ جنگ اور بحران کا شکار لیبیا میں ایسے اسمگلرز تلاش کیے جائیں جو اسرائیل کو سستی گیس اور خام تیل فراہم کر سکیں۔ دوسرا معمر قذافی کی باقی رہ جانے والی دولت اور اسلحہ کے ذخائر پر قبضہ کرنا تھا۔ درحقیقت لیبیا میں قذافی حکومت کی سرنگونی کے بعد معرض وجود میں آنے والے بحرانی حالات میں کئی ممالک اس کوشش میں مصروف تھے کہ بین الاقوامی اسمگلرز کی مدد سے قذافی کا بچا ہوا اسلحہ حاصل کر سکیں۔ اسرائیل اب بھی لیبیا میں موجود قیمتی اسلحے کے ذخائر حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسرائیل ہر گز اسلامی ممالک سے بڑے اقتصادی اور تجارتی معاہدے انجام نہیں دیتا اور ان ممالک میں سرمایہ کاری بھی نہیں کرتا۔ لہذا اس وقت اسرائیل کی پالیسی بین الاقوامی اسمگلرز کے ذریعے لیبیا سے خام تیل اور گیس حاصل کرنے پر استوار ہے۔ دوسری طرف اسرائیل لیبیا میں ایسی حکومت برسراقتدار لانے کی کوشش کر رہا ہے جو سیکولر ہو اور اسلامی نہ ہو تاکہ عالمی سطح پر یہ نئی حکومت اسرائیل کو درپیش مشکلات میں مزید اضافے کا سبب نہ بن پائے۔ لیبیا کوعدم استحکام کاشکارکرنے کامقصدبھی یہ ہے کہ ایک طرف لیبیاکولوٹاجائے تودوسرااس پرغیرملکی تارکین وطن کااتنابوجھ ڈالاجائے کہ وہ دوبارہ اٹھ نہ سکے ۔

چنددن قبل سی این این نے بدترین بددیانتی مظاہرہ کرتے ہوئے ایک رپورٹ جاری کی ایک ویڈیو میں شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے خریدار کھیتوں میں کام کرنے کے لیے مضبوط سیاہ فام غلام خریدنے کے لیے ایک نیلامی میں بولی لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو گئی جس کے بعد خاص طور پر افریقی ممالک کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا۔اس حوالے سے پاکستان میں متعین لیبیاکے سفیرنذاراحمدنبیہ نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے ان الزامات کومستردکرتے ہوئے کہاکہ یہ رپورٹ من گھڑت اوربے بنیادتھی جس کاحقیقت حال سے کوئی تعلق نہیں تھالیبیاکی حکومت نے اس رپورٹ کی بھرپورتردیدکی ہے بلکہ الزامات کی تحقیقات کے لیے آزاد کمیشن بنا دیا جواپنی تحقیقات مکمل کر کے اس حوالے سے حقائق منظرعام پرلائے گا لیبیاکی حکومت کے پاس اس بات کے ثبوت کے موجود ہیں کہ انسانی سمگلنگ اورتارکین وطن کی غیرقانونی نقل وحرکت میں انٹرنیشل گروہ ملوث ہیں جس میں تیونس ،اٹلی اورکچھ افریقی ممالک کے گروہ شامل ہیں اوریہ گروہ نامساعدحالات اورلیبیاکی جغرافیای صورتحال کافائدہ اٹھا کر اس طرح کے غیرقانونی کام کررہے ہیں،

حالا ت یہ ہیں کہ 2006سے لیبیاعدم استحکا م کاشکارہواہے اس وقت سے یہ غیرملکی تارکین وطن کامرکزبن گیاہے ۔ لیبیا یورپ کی جانب مہاجرت کے لیے ایک اہم روٹ ہے۔ یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن اور مہاجرین کی اکثریت لیبیا کے ساحلوں ہی سے بحیرہ روم کے سمندری راستے عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق نیوگنی، سینیگال، نائجیریا، نائجر اور مالی جیسے افریقی ممالک سے ہے۔ تارکین وطن اپنے گھروں سے اس لیے نکلتے ہیں کہ ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول ہوتی ہے شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی دائو پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔

لیبیاکے سفیرنے بتایاکہ عالمی طاقتیں جوخود ساڑے پانچ سوسالوں تک انسانوں کی غلامی کرتی رہی ہم پردبائوڈ ال رہی ہیں کہ ہم ان تارکین وطن کو اپنے ملک میں نہ صرف پناہ دیں بلکہ انہیں قانونی شکل بھی دیں اس وقت ڈیڑھ ملین سے زائد غیر قانونی تارکین وطن لیبیا میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیںلیبیا کے مخدوش حالات کے باعث انسانی سمگلروں نے اِسے گزرگاہ بنا لیا ہے۔ اِس وقت دنیا بھر میں لیبیا واحد ملک ہے جو غیر قانونی تارکین وطن کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ چھ ہزار کلومیٹر سرحداور اڑھائی ہزار کلومیٹر کے ساحل کو تارکین وطن سے محفوظ نہیں بنا سکتے لیبیا کی فوج اور فضائیہ ختم کردی گئی ہے اسلحہ رکھنا منع کردیا گیا ہے اتنی بڑی سرحد کو فضائیہ کی مدد کے بغیر کیسے روکیں غیر قانونی تارکین وطن کو عالمی گروہ دہشتگردی منشیات اورسمگلنگ کے لیے استعمال کررہے ہیں لیبیاکی حکومت اقوام متحدہ کے قوانین اورافریہ کے چارٹرانسانی حقوق کی مکمل پاسداری کررہی ہے جن ممالک سے یہ غیرقانونی تارکین وطن آرہے ہیں ان سے بھی ہم نے متعددبارر ابطہ کرکے کہاہے کہ وہ ان تارکین وطن کوروکنے میں اپناکرداراداکریں اوراپنے اپنے ممالک میں روزگارکے ذرائع پیداکریں اس سلسلے میں یورپی ممالک ان کی مددکریں انہوں نے کہاکہ یورپ کے کچھ ممالک ہم پردبائوڈ ال رہے ہیں کہ ہم غیرقانونی تارکین وطن کومستقل ٹھکانہ دیں جوکہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے پندرہ لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو لیبیا میں مستقل نہیں رکھ سکتے یورپ نے غلام انسانوں سے بیگار لے کر صنعتی ترقی حاصل کی اور اسے روکنے کے قوانین بنا دیئے ہیں ۔جب تک امت مسلمہ کے حکمران اپنی چھوٹی چھوٹی اکائیوں سے نکل کرملت کی وحدت میں پرو نہیں جاتے ،دشمن ہمیں ایک ایک کر کے شکار کرتا رہے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں