میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
زرداری کی ”خوشخبری “ اور بلاول کا ایران سے سستی گیس کا دعویٰ

زرداری کی ”خوشخبری “ اور بلاول کا ایران سے سستی گیس کا دعویٰ

منتظم
بدھ, ۲۸ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

اسرار بخاری
سارےتجزیے ہوا میں تحلیل ہوگئے، سارے تخمینوں کے بخئیے ادھڑ گئے، سارے جائزے بے اعتبار ٹھہرے، ”27 دسمبر کو اہم اعلان ہوگا،عوام خوشخبری سنیں گے “کی بنیادوں پر استوار توقعات کے ہمالہ رائی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے، افواہ پھیلائی گئی غنویٰ،فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونئیر اس روز پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں گے ،ایک خاندان کا باہمی میل میلاپ یقینا اچھی بات ہے مگر اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوگاجو ان کے لیے خوشخبری بن سکے۔اس سے پارٹی میں ضرور خوشی کی لہر دوڑ سکتی ہے مگر یہ کسی انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا میڈیا کے بعض بزرجمہروں نے اپنے فکری میلانات اور سیاسی رجحانات کے باعث ”اہم اعلان “ کے اعلان کو جس طرح توقعات کا حوالہ بنا دیا تھا ،اس سے عوامی سطح پر یوں سمجھا گیا جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے ”روٹی، کپڑا اور مکان “سے زیادہ پر کشش پروگرام دیا جائے گایا آصف زرداری یہ اعلان کریں گے کہ میں اپنی کھربوں چھپی دولت بیرون ملک سے واپس لاکر پاکستان میں نہ صحیح سندھ میں شہر شہر ، گاو¿ں گاو¿ں اتنے صنعتی اور کاروباری ادارے قائم کروں گا کہ سندھ کا بچہ بچہ خوشحالی سے ہمکنار ہوجائے گا بلکہ دوسرے صوبوں کے لوگوں کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا ہونگے ۔ مگر اہم اعلان یہ ہوا کہ وہ خود نواب شاہ سے اپنی بہن عذرا فضل پیچوہو اور بلاول لاڑکانہ سے ایاز سومرو کی نشست پر ضمنی الیکشن لڑ کر اسمبلی میں جائیں گے ،عام لوگ ہی نہیں جیالے بھی حیران پریشان ہوکر ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں کہ اس سے عوام کو کیا فائدہ ؟
بلاول نے اس خطاب میں اپنے اس دکھ کا بجا طور پر اظہار کیا ”میری ماں کا انصاف نہیں ملا “اور ن لیگ کی حکومت کو اس ”ناکامی “پر مطعون کیا حالانکہ انہیں یہ سوال اپنے والد گرامی سے کرنا چاہیے تھا جو کامل پانچ سال صاحب اقتدار رہے ۔
جنرل راحیل شریف کے عسکری منظر سے ہٹنے کے بعد آصف زرداری جس طمطراق کے ساتھ واپس آرہے تھے اس کے غبارے سے تو ان کی آمد سے چار گھنٹے قبل انور مجید کے دفاتر پر چھاپوں نے ہوا نکال دی تھی جبکہ ادھر سیاسی محاذ پر بڑی پیش رفت کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے ، یا ایسے امکانات بعید از قیاس ہیں کہ عمران خان ، سراج الحق ، مولانا فضل الرحمن یا دیگر سیاسی رہنما آصف زرداری کی قیادت میں حکومت مخالف تحریک کا حصہ بن کر پیپلز پارٹی کے لیے آئندہ اقتدار کا راستہ ہموار کریں ۔ دوسرے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہوئے ہیں نہ امکان ہے ،ڈاکٹر عاصم ، انور مجید، منظور کاکا ، ایان علی کے معاملات کی ڈور کاسلجھنا ممکن نظر نہیں آرہا اور تنہا پیپلزپارٹی خود اپنے بل بوتے پر حکومت کے خلاف کامیاب تحریک چلاسکے۔ یہ دیوانے کا خواب اس لیے ہے کہ عوام میں اس کی وہ ساکھ نہیں رہی جو بے نظیر بھٹو کے دور میں تھی نہ ہی اب پیپلز پارٹی کے دامن میں بے نظیر بھٹو کے سانحہ قتل جیسا کوئی سانحہ ہے جو ہمہ گیر عوامی ہمدردی کی راہ ہموار کرسکے ۔
لمحہ موجود کی حقیقت یہ ہے کہ عوام میں کرپشن کے خلاف کراہت کے جذبات موجود ہیں ،پاناما یا میگا پراجیکٹ میں کرپشن کے الزامات کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلات تحریک کے امکانات کو اگرچہ مسترد نہیں کیا جاسکتا مگر مسئلہ یہ ہے کہ جناب زرداری کو حاصل شہرت کے پیش نظر ان کی قیادت میں کرپشن کے خلات تحریک کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔جب نہ تو ان کی قیادت میں گرینڈ الائنس کے امکانات ہیں نہ پیپلز پارٹی خود تنہا تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی اسٹیبلیشمنٹ سے معاملات سیدھے ہوئے ہیں، اس صورتحال میں آصف زرداری کے لیے یہ ہی فیصلہ ممکن تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں جائیں۔ اس سے ایک تو وہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت حاصل کریں گے دوسرے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے اندرونی معاملات سے آگاہی رکھنے والے دعوی کررہے ہیں کہ دونوں پارٹیوں میں قبل از وقت انتخابات کے لیے سلسلہ جنبانی جاری ہے ۔اگر ایسا ہو ا تو پھر انہیں وزیر اعظم سے مل کر اپنی مرضی کا نگران وزیر اعظم مقرر کرنے کی سہولت حاصل ہوگی ،ا نتخابات کے اعلان کے بعد سیاسی جماعتیں انتخابی مہم اور جوڑ توڑ میں مصروف ہوجائیں گی اس سے انہیں اور ن لیگ کی قیادت کو کس حد تک ریلیف مل سکتا ہے فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ معاشی دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا دائرہ مزید پھیلے گا اور ا س”پھیلاو¿“ سے بہت سے نا خوشگوار واقعات جنم لیں گے ۔ اپنی تمام تر بری شہرت کے باوجود ایف آئی اے نے سندھ میں شوگر ملوں پر قبضے اور گنے کی زبردستی خرید اور من مانی قیمتیں مقرر کرکے کروڑوں کمانے اور ٹیکس بچانے کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے ، جس سے پیپلزپارٹی کی قیادت کے سیاسی اورذاتی مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے،بہرحال یہ طے ہے کہ جمہوریت کے استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر حکومت کو پیپلز پارٹی کی جانب سے کسی مخالفانہ تحریک سے چھٹکارہ مل گیا ہے ۔
بلاول نے نوازشریف حکومت پر قطر سے این ایل جی کی خریداری پر شدید تنقیدکرتے ہوئے فخریہ طور پر کہا کہ ہم ایران سے سستی گیس لارہے تھے اس میں آدھا سچ یہ ہے کہ ایران سے واقعی گیس لارہے تھے مگر سستی لارہے تھے یہ سچ نہیں ہے، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آخری ایام میں صدر آصف زرداری ایران کا دورہ کرتے ہیں اور ایران کے موجودہ روحانی رہنما آیات اللہ خامنہ ای سے ملاقات میں یہ معاہدہ حتمی شکل اختیار کرجاتا ہے مگر اس کی تفصیلات عوام یا پارلیمنٹ کے سامنے نہیں لائی گئیں ،حتی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی کابینہ کے اجلاس میں بھی پیش نہیں کیا گیا ،اس معاہدے کے مختلف پہلو کا جائزہ لیا جائے تو ماہرین کے اعتبار سے یہ پاکستان کے لیے خسارے کاسودا ہے ۔جن نرخوں پر معاہدہ کیا گیا اس سے ہوشربا گرانی لازمی ہے ، اس منصوبے کے لیے ڈیڑھ بلین ڈالر کی رقم میں سے پانچ سو ملین ڈالر ایران نے بطور قرض دینے تھے جس پر دو فیصد سود وصول کیا جانا تھا اس سود کو لندن انٹر بینک کے ریٹ سے منسلک کیا گیا جو دو فیصد شرح سود میں اضافے کا ذریعہ بھی بن سکتا تھا ، منصوبے کے لیے درکار باقی ایک بلین ڈالر ٹیکسوں کی صورت پاکستانی عوام سے وصول کی جانی تھی ،بلوچستان میں اس گیس پائپ لائن کے تحفظ کے لیے مستقل بنیادوں پر انتظامات کے لیے کثیر سرمایہ ظاہر ہے گیس کے بلوں میں اضافی طور پر شامل کیا جانا تھا ۔یاد رہے بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی یہ معاہدہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن بے نظیر بھٹو نے گیس کی قیمت آٹھ ڈالر فی ایم بی ٹی یو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور چار پانچ ڈالر پر لانے پر اصرار کیا جبکہ صدر زرداری نے اس گیس کی قیمت بارہ ڈالر فی ایم بی ٹی یو اور مائع گیس کی قیمت آٹھ ڈالر منظور کرلی ۔ بعض ماہرین کے مطابق مائع گیس بحری جہازوں کے ذریعے امریکا جیسے دور دراز ملک سے منگوائی جائے تب تقریبا آٹھ ڈالر میں پڑ سکتی ہے ، اتنی مہنگی گیس کے پاکستان کی معیشت پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ایرانی معاہدہ کار یہ جانتے تھے کہ پاکستان میں اس معاہدے کی تفصیلات اور مضمرات سامنے آنے پر مخالفت یا نرخوں پر نظر ثانی کا مطالبہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو اس معاہدے کا پابند کرنے کے لیے یہ شق شامل کرلی گئی کہ اگر منصوبے کو پندرہ ماہ کے اندر مکمل نہ کیا گیا تو پاکستان ہر روز دو لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرے گا، ایک توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اس منصوبے کا ٹھیکہ بھی ایران کی کمپنی ”تدبیر “کو دیا گیا ۔چنانچہ ن لیگ کی حکومت آنے کے بعد وزارت پٹرولیم نے گیس کے نرخ پر نظرثانی کے لیے حکومت ایران سے رابطہ کیا یہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے ۔اس معاہدے کی روشنی میں بلاول کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ”ہم سستی گیس لارہے تھے “میں کتنی صداقت ہے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں