خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
خواتین کا عالمی دن تھا اور ملک بھر میں خاموشی رہی کسی طرف سے بھی خواتین کے حقوق کے متعلق بات نہیں کی گئی تو مجھے سابق رکن پنجاب اسمبلی محترمہ سیمل راجہ یاد آگئی جو ایسے کسی بھی موقعہ کو خاموشی سے گزرنے نہیں دیتی تھی بلکہ خواتین کے حوالہ سے وہ کسی نہ کسی اچھے ہوٹل میں سیمینار کروا کر بہت سی خواتین کو مدعو کرتی اور انہیں دل کھول کر بولنے کا موقع دیتی ،جب سے وہ ملک سے باہر گئی ہیں تب سے خواتین کا عالمی دن بھی دبے پائوں گزر جاتا ہے۔ مگر شکر ہے کہ اس وقت بھی خواتین کی آن ،بان اور شان بڑھانے والی مس ورلڈمحترمہ مسرت شاہین ہمارے درمیان موجود ہیں جو اپنی بہت سی سیکورٹی وجوہات کے باوجود ہر موقعہ پر خواتین کے حقوق کا جھنڈا سربلند رکھتی ہیں اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اس عالمی دن کو بھول جائیں انہوں نے تو مجھے 25 نومبر کی صبح ہی اس دن کے حوالہ سے اپنے پروگرامز بتا دیے لیکن میںہی سست نکلا۔ انہوں نے جہاں پاکستان کی خواتین کے استحصال پر تشویش کا اظہار کیا، وہیں پر جنت نظیر خطہ مقبوضہ جموں کشمیر کا بھی ذکر کیا جہاں کئی سالوں سے کشمیر ی خواتین بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ ان کی اس طرف توجہ دلانے کے بعد جب میں نے مقبوضہ کشمیر میں خواتین پر ہونے والے ظلم و زیادتیوں پر ایک نظر ڈالی تو حیران رہ گیا کہ وہاں پر ہماری مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کی داستانیں رقم کی جارہی ہیں خواتین کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ اجتماعی زیادتیاں اور جسمانی تشدد کا شکار ہیں ساتھ میں انہیں معذور اور قتل کیاجارہا اس وقت کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں انکی ہی ایک رپورٹ کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں جنوری 2001سے لے کراب تک بھارتی فوجیوں نے کم از کم 6 سو خواتین کوشہید کیا ہے مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 8 ہزار خواتین لاپتہ ہو ئیں ،جن میں 18 سال سے کم عمر کی ایک ہزار لڑکیاں اور18 سال سے زیادہ عمر کی 7ہزار خواتین شامل ہیں۔1989ء سے اب تک 22ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 10 ہزار سے زائد خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں بھارتی فوج کی چوتھی اجپوتانہ رائفلز کے جوانوں نے 23 فروری 1991 کو جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ایک گاؤں کنن پوش پورہ میں سرچ آپریشن کے دوران23 خواتین کی عصمت دری کی گئی ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین کی تعداد 100 سے زیادہ ہو سکتی ہے 1992 میں بھی 882 کشمیری خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں بھارتی پولیس کے اہلکاروں نے جنوری 2018 میں کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواء اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیاتھا باوردی بھارتی اہلکاروں نے 29مئی 2009 کو شوپیاں کی دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کو اغوا کر نے کے بعد آبروریزی کا نشانہ بنایا ان دونوں کی لاشیں اگلی صبح علاقے میں ایک ندی سے ملیں۔
1991 میں جموں و کشمیر کے چیف جسٹس کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں زیادتی کا اعتراف کیاتھا ۔ کشمیری خواتین حریت رہنمائوں آسیہ اندرابی ، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت آدھی درجن سے زیادہ خواتین گذشتہ چار سالوں سے بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں غیر قانونی نظربند ہیں جبکہ انشا طارق جان ، حنا بشیر بیگ ، حسینہ بیگم اور نسیمہ بانو اور شہید توصیف احمد شیخ کی والدہ مختلف جیلوں میں بند ہیں جہاں وہ بھارتیوں کے ظلم و جبر کا شکار ہیں بھارت نے اس وقت تین درجن سے زائد کشمیری خواتین کو جیلوں میں قید کر رکھا ہے اس وقت مقبوضہ کشمیر میں خواتین کا جنسی استحصال دنیا میں سب سے زیادہ ہے ہر سات میں سے ایک خاتون عصمت دری کا شکار ہورہی ہے مقبوضہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں بھارتی سورمائوں نے مقبوضہ کشمیر میں عصمت دری کو بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر قرار دے رکھا ہے جبکہ بھارتی فوجیوں کے ایسے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں کشمیری خواتین پرزیادتی کا حکم دیا گیا ہے انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں ، پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی تھی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں بلکہ سیکیورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں 8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان ، طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو ئے ان میں سے انشاء ،مشتاق اورافرائ، شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں اور سینکڑوں خواتین جنکے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں ۔وہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ بھارت میں بھی خواتین جنسی زیادتیوں کا شکار ہورہی ہیں بلکہ وہاں کے سرکاری اداروں میں کام کرنی والی مظلوم خواتین سب سے زیادہ جنسی تشدد کا شکارہو رہی ہیں۔
بھارت کے قومی کرائم بیورو کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران بھارتی فوج میں موجود 1ہزار سے زائد خواتین اہلکاروں کیساتھ بھی جنسی زیادتی کا انکشاف کیا گیا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں تو معصوم خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں نے دنیا کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور دنیا اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بالخصوص اقوام متحدہ والے تونہ جانے کس کے انتظار میں ہیں میں نے اوپر محترمہ مسرت شاہین کو مس ورلڈ اس لیے لکھا کہ وہ خواتین کے لیے ایک مثال ہیں ظلم ،جبر اور فسطائیت کا جتنا انہوں نے مقابلہ کیا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ بدترین شکست دی یہ جیت انکی اس نظام کے خلاف تھی جو خواتین کے کام کے خلاف تھے مسرت شاہین نے اپنی محنت ،لگن اور جوش سے اس فرسودہ نظام کو ایسی شکست دی جس نے دنیا بھر کی خواتین کو ایک حوصلہ اور ہمت دی ۔ہماری آج کی خواتین اگر ظلم وبربریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہیں تو بلاشبہ اس میں مسرت شاہین کا بھی کردار ہے اسی لیے وہ مس ورلڈ ہیں کاش سبھی خواتین ہمت اور جرات کامظاہرہ کریں تودنیا میں کوئی شخص خواتین کے ساتھ زیادتی کا سوچ بھی نہیں سکے گا سیمل راجہ بھی اسکی بہترین مثال ہیں لیکن افسوس کہ وہ اب پاکستان سے کسی اور ملک جابسی ہیں ،ایسی ہی خواتین ہمارے لیے مثال ہیں اور مثالی بھی۔