سازشی یہودی یورپی ملکوں سے کب کب نکالے گئے؟
شیئر کریں
میر افسر امان
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہودی اللہ کے باغی، انبیا ء کو ناحق قتل کرنے والے، سفاک،درندے،شقی القلب، دغا باز، بد عہداورپتھر دل قوم ہے۔ قرآن شریف میں اس قوم پر اللہ کی مہربانیوں کا ذکر کے، ساتھ ساتھ اللہ سے عہد توڑنے والے یہودیوں کو اللہ کی طرف سے سزائوں کا بھی ذکر ہے۔ قرآن کے مطابق یہودیوں نے اللہ سے دو دفعہ بدعہدی کی اور اللہ نے انہیں دو دفعہ سخت سزا دی۔ اللہ نے اِس قوم کی بداعمالیوں کی وجہ سے اِسے دھتکار دیا ہے۔یہ دو ہزار سالوں سے تتربتر رہی تھی۔پھر عیسائیوں نے مسلمانوں کی دشمنی میں ان کو بالفور معاہدے کے تحت فلسطین میں آباد کیا۔ اپنی پرانی روش پر عمل کرتے ہوئے یہودیوں نے نہتے فلسطینیوں کو فوجی طاقت سے ان کے ملک فلسطین سے نکال دیا۔ موجودہ ویسٹ بنک میں سیکولر محمود عباس اوراس سے کئی میل دور سمندر کے کنارے غزہ میںاسماعیل ہنیہ کی اسلامی حکومت میں فلسطینی آباد ہیں۔لاکھوں فلسطینی پڑوسی عرب ملکوں میں ہجرت کر گئے اور کچھ فلسطین میں مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ان پر یہودی فوج مختلف بہانوں سے حملے کر کے شہید کرتی رہتی ہے۔ یہودی فلسطین سے تمام فلسطینی آبادی کو نکال کر پہلے پورے فلسطین اور پھر اِرد گرد کی مسلمان حکومتوں پر قبضہ کر کے گریٹر اسرائیل بنانا چاہتے ہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی جیتی مخلوق ہیں باقی انسان کیڑے مکوڑے ہیں۔ دنیا پر صرف یہودیوں کو حکمرانی کا حق ہے اور یہ حق انہیں اللہ نے دیا ہے۔ چناں چہ اسرئیل نے اپنی پارلیمنٹ کے دیوار پر کندہ کیا ہوا کہ” اے اسرائیل تمھاری سرحدیںنیل سے فرات تک ہیں” ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ فلسطین، فلسطینیوں کاہے،جو صدیوں سے فلسطین میں رہ رہے ہیں۔ یہودی باہر سے آئے ہیں۔فلسطین پر فوجی قوت سے زبردستی قبضہ کر لیا ہے۔ فلسطینیوں کاحق ہے کہ وہ فلسطین سے یہودیوں باہر نکال کر، اپنے ملک پر ناجائز قبضہ چھوڑائیں۔اسرائیل کے پچھتر سالوںسے جاری ظلم ستم، قتل عام، زمینوں اور گھروں سے بے دخلی، غزہ کی پٹی کو انسانوں کی جیل بنانے،ان گھروں کے محاصرے کر کے ان کو چن چن کر شہید کرنے،ان کے سیکڑوں مردوں، خواتین اور بچوں کوبے گناہوں کو جیلوں میں بند رکھنا،ان گھروں پر آئے دن بمباری کرتے رہنا،ان کا حقہ پانی بند کر دینے اور غزہ کی تیئس لاکھ(23) آبادی کو قید کیا ہوا ہے۔اسرائیل کے ہاتھوں روز روزمرنے سے تنگ آکر، اور” کود پر آتش نمرود میں عشق کے” مصداق غزہ کے حماس مجاہدوں نے غزہ کی جیل سے نکل کر اسرائیل کی طاقت کے گھمنڈ کو مٹی میں ملاتے ہوئے فضائی، بری اور بحری راستوں سے اسرائیل میں گھس کر،اس کے فوجیوں اور کچھ سویلین کو پکڑ کر لے گئے۔ اپنی سرنگوں سے اسرائیل پر بیک وقت پانچ ہزار راکٹ داغ کر، اسرائیل کے آرم ڈھوم سیکورٹی سسٹم کو تباہ کرکے، اس کے خفیہ نظام کو ناکارہ بناکر، تگنی کا ناچ نچوا دیا۔حماس کے سربراہ ابو عبیدہ کے مطابق اسرائیل کے 335 ٹینک تباہ کر دیے۔ہزاروں کو قتل کیا۔ سولہ سو زخمی یا اپاہج ہوئے۔ اسرائیلی شہروں پر میزائل فائرکرنے سے لاکھوں یہودی اپنی علاقے چھوڑ گئے۔ اسرائیل نے حماس مجاہدین کا سامنا کرنے کے بجائے، اپنی پرانی سفاکیت پر عمل کرتے ہوئے غزہ کی نہتی آبادی کو ختم کرنے کے لیے ہوئی حملے اور میزائل چلاکر رہائشی بلڈنگوں، ہسپتالوں،اسکولوں، اقوام متحدہ کے اداروں،50 صحافیوں کو قتل اور صحافیوں کے دفتروںاورپوری سویلین آبادی کو ملیا میٹ کر دیا۔پچاس ہزار فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کر دیا۔اس میں غالب تعداد بچوں کی ہے۔ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں کے زور پر اپنے قیدیوں کو چھڑانے اور حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ میں داخل ہوئے، مگر ظلم وستم کے باوجود حماس سے اپنا ایک بھی قیدی چھڑا نہیں سکے۔ اور نہ ہی حماس کو ختم کر سکے ۔ بلکہ اب ہار مان کر چار دن کی جنگ بندی منظور کی ۔ فلسطینیوں کے ایک سو پچاس(150) قیدیوں کے بدلے اپنے پچاس(50) قیدی چھڑانے کا معاہدہ کیا۔ پوری دنیا کی عیسائی حکمرانی اس سفاکیت میں اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔ مگر ان ہی ملکوں کے انصاف پسندعوام اسرائیل کی درندگی کے خلاف اپنے حکمرانوں اور حماس کی تائید میں مظاہرے کر رہے ہیں۔یہودیوں کی بد عہدی،مکاریوں، انسانوں کو اپنے سے کمترسمجھنے اور جس جس ملک نے ان کو پناہ دی، اس کے خلاف سازشیں کرنے پر ان کواپنے ملکوں سے نکالا گیا ، اس کی تفصیل اس طرح ہے۔سب سے پہلے بد عہدی اور رسول اللہۖ کو شہید کرنے کی سازش میں ملوث ہونے پر ان کو مدینہ سے نکالا گیا۔ یورپ کے کئی ملکوں سے بار بار نکالے گئے۔ پھر انگریزوں نے انہیں بالفور معاہدے کے تحت اپنی جان چھڑا کریہودیوںکو فلسطین میں دھکیل دیا۔ سازشیوں کی وجہ سے1080ء میں فرانس نے ان کو اپنے ملک سے نکال دیا۔ 77 سال بعدیہودی پھر چھپ چھپا کر فرانس میں آباد ہو گئے مگر فرانس نے دوبارہ 1147ء میں ان کو نکال دیا ۔ فریبی یہودی فرانس میں ایک بار پھر آ گئے۔ مگر اس باران کو1306 ء میں نکالا ہی نہیں بلکہ ان فرانس دشمن حرکتوں کی وجہ سے 3 ہزار یہودیوں کو زندہ جلا دیا۔مکار یہودی کہیں کہیں سے آکر پھر فرانس میں آباد ہوگئے۔ اس دفعہ1394 ء میں فرانس سے انہیں پھر نکال دیا گیا۔ اللہ کی دھتکاری ہوئی یہودی مخلوق کہیں سے پھر فرانس میں آ نکلی۔ اس دفعہ پانچویں بار1592ء میں ملک بدر کیا گیا۔ زیک ری پبلک نے یہودیوں کو1098ء میں اپنے ملک سے نکالا دیا۔1113ء کویوکرائن جب وہ روس کاحصہ تھا اپنے ملک سے یہودیوں کا نکال دیا۔1828ء میںیو کرائن سے دوبارہ نکالے گئے۔ فرانس سے نکلنے کے بعد پڑوس میں اٹلی میں پہنچ گئے۔ مگر ا ٹلی نے بھی ان کو1171ء کو اپنے ملک سے نکال دیا۔ 1576ء میں اٹلی سے دوبارہ نکالے گئے۔اس کے بعد انگلینڈ سے نکالے گئے۔ انگلینڈ میںیہودیوں کی سود خوری اور انسانیت دشمنی پر مبنی شیکسپئر نے ایک ڈرامہ اسٹیج کیا تھا ،کہ سود کی ادائیکی نہ ہونے پر اپنے پیسوں کے بدلے ایک پونڈ انسانی گوشت یہودی کو دیا جائے۔نفرت کی انتہا کی وجہ سے یہودی انگلینڈ سے کئی بار یعنی،1188,1198, 1290 میںاور1510 ء میں چوتھی بار نکالے گئے۔ 1298ء اور1616 ء میں یہودی سوئٹزر لینڈ سے ملک بدر کئے گئے۔ پھر 1634ء اور1655ء میں بھی سوئٹزر لینڈ سے یہودیوں کو نکالا گیا۔فلپ پنچم کے دور میں 1701ء میں مکمل طور پر سوئٹزر لینڈ سے نکال دیے گئے۔ 1380ء میں ہنگری سے یہودیوں کی ملک بدری ہوئی۔ 1391ء میں اسپین سے ان کی ملک دری ہوئی۔اس دفعہ 5ہزار یہودیوں کو زندہ زندہ جلا دیا گیا اور 30یہویوں کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ 1407ء میں پولینڈ سے یہودی نکالے گئے۔1492ء کو یہودیوں کو سسلی سے ملک بدر کیا گیا۔1495ء کو لتھونیا اور یو کرائن سے باہر کیا گیا۔1496ء میں پرتگال سے نکال دیے گئے۔ایک بار پھر1555 ء میں پرتگال سے ملک بدر ہوئے۔یہودیوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے سسلی نے 1516ء یہودیوں کے خلاف پاس کیا تھا کہ وہ ان کے ملک میں صرف شہر کے بدترین علاقے میں ہی رہائش پزیر ہو سکتے ہیں۔ 1541ء میں آسٹریا سے یہ ملک بدر کیے گئے۔1570ء اور1580ء میں جرمنی سے نکالے گئے۔ ایک خوفناک درندہ جب 1533ء میںروس کا حکمران ہوا۔یہ بھی یہودیوں سے سخت بیزار تھا۔1629ء میں یہودی قوم اسپین اور پرتگال سے کئی مرتبہ نکالنے کے بعد پھر نکالا گیا۔1806ء میں جب نپولین بونا پاٹ فرانس کے حکمران تھے تو یہودیوں کو الٹی میٹم دیا گیا اور بدرجہ نامی اصولی کے تحت خونزیزی کی۔ 1933ء میں جرمنی کے ہٹلر کے دور میں یہودیوںنہ صرف نکالا گیا بلکہ ان کو کیمپوںمیں رکھ ر مار دیا گیا۔ ہٹلر سمجھتا تھا کہ یہودی دنیا کو تباہی و بربادی کا سامان فراہم کرتے ہیں اس لیے یہودیوں کو گیس چیمبر میں ڈال کر مار ڈلا۔ہٹلر نے کہا تھا کہ دنیا ایک دن میرے اس فعل کی تعریف کرے گی۔ مگر مکار یہودیوں نے اس کے توڑ میں دولت کی بنیاد پر یورپ کو رام کر کے اس واقعہ کو ہولو کاسٹ سے مشہور کر دیا اور کچھ یورپی ملکوں میں اس کے خلاف بولنے والے کسی بھی شخص کو سزا تک کا قانون بنا ڈلاہے۔یہودیوں نے انگلینڈ کی جنگ عظیم دوئم میں میں مالی مدد کی تھی۔ اس وجہ سے یورپ اور خاص کرانگریز نے بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے اس شیطانی قوت کا فلسطین کی سرزمین پردھکیل دیا۔یہودی انسانیت سے عاری ہیں اب غزہ کی تازہ جنگ میں اپنے پرانے کرتوتوں کے مطابق غزہ میں چھوٹے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی نہیں چھوڑ رہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، حتی کہ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کو بھی مسمار کر دیا۔پہلے سے 9 ہزار فلسطینیوں کو قید کر رکھا ہے۔یہودیوں کے مسلمانوں کی مہمان نوازی کے متعلق یہودیوں دانشوروں نے خود لکھا کہ اگر دنیا میں ان کو کہیں امان ملی ہے مسلمانوں کے دور عروج میں ملی ہے۔مگر انبیاء کو ناحق قتل کرنے والی یہ شقی القلب اور اللہ کی دھتکاری ہوئی قوم مسلمانوں سے بھی دغاباز،فریبی، انسانیت کی دشمن اور سفاکیت سے نہ پہلے باز آئی اور اب نہ آئے گی۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ اسلامی ممالک امریکا کی اس ناجائز اُولاد کے خلاف اتحاد قائم کرے اور جہاد کے فلسفہ پر عمل کر کے اس سے جان چھڑا سکتی ہے۔ اُوپر بیان کی گئی یہودیوں کی داستان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ ابلیس کی چیلی قوم ہے۔ وہ ابلیس جو اللہ کے مقابلہ میںکھڑا ہے۔ اس کا توڑ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا فلسفہ جہاد اور صرف جہاد ہے۔حماس مجاہدین نے جہاد پر عمل کرکے اسرائیل کی طاقت کا شیطانی غرور پاش پاش کر کے امت مسلمہ کو کامیابی کا راستہ دکھا دیا ہے۔ مسلمان حکمرانوں خاص کر اُردن ، سعودی عرب، شام اورعراق کو میدان میں آکر ترکی، ایران اور پاکستان کی مدد سے اسرائیل کو سبق سکھانے کا یہی سنہری موقع ہے۔ مسجد اقصیٰ کو آزاد کرنے، فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم، مسلمان عورتوں کی آبروریزی کو روکا جا سکتا ہے۔ عیسائی دنیا کی رعایا اس وقت اسرائیل کے ظلم کے خلاف اٹھ چکی ہے۔ اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔