یہودی اسرائیل چھوڑ کر بھا گ رہے ہیں!
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
حالیہ جنگ میں حماس کی بہترین منصوبہ بندی اور اللہ تعالی کی غیبی مدد کی وجہ سے اسرائیلی عوام کا سکون برباد ہو چکا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں یہودی بے گھرہوچکے ہیں اور چھ لاکھ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ تین لاکھ یہودی حماس کے حملوں کے ڈر سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ حقیقت میں اسرائیل نے جانی نقصان اہلِ غزہ سے زیادہ اٹھایا ہے۔ اگر اسرائیلی فورسز اور حماس کے نقصان کا موازنہ کیا جائے تو حماس کے نقصانات سے کہیں زیادہ اسرائیلی افواج کو مہلک گھاؤ جھیلنے پڑے ہیں۔اسرائیل نے اب تک 390 فوجیوں کی اموات ہونے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دورِ جدید میں کوئی بھی ملک اپنی افواج کی اموات کے درست اعداد و شمار منظرِ عام پر نہیں لایا کرتا۔جب تک غزہ کی شمالی سرحد پہ جنگ تھی، تب تک اوسطاً روزانہ آٹھ سے دس فوجی ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور بلڈوزر تباہ ہو رہے تھے جیسے جیسے جنگ غزہ سٹی کے گنجان علاقے میں پہنچتی گئی ویسے ویسے نقصانات کا گراف اٹھتا چلا گیا۔ آخری دنوں میں تو اوسطاً روزانہ بیس سے پچیس ٹینک,وہیکل اور گاڑیاں کباڑ کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہی تھیںاور روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں فوجی جہنم واصل ہورہے تھے۔جنگ پہ اٹھنے والا روزانہ کا خرچ 26 کروڑ ڈالر ہے۔ آپ پاکستانی کرنسی میں چوہتر ارب کہہ سکتے ہیں۔ اکیاون ارب ڈالر شروع سے اب تک کے اخراجات ہیں۔ اسرائیلی عوام جنگ سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ عین جنگ کے دنوں میں سربراہ مملکت سے استعفیٰ مانگا جارہا ہے۔اسی ضمن میں عوام کے آئے روز قصرِ حکومت کے سامنے مظاہرے ہو رہے ہیں۔حکومتی اداروں میں افراتفری پھیل چکی ہے۔ ابھی انٹیلی جنس چیف اور حکومتی وزیر کی لڑائی تو دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہے۔
دوسری طرف فلسطینیوں کے حوصلے بھی دیکھنے کے قابل ہیں جو غزہ اور مغربی کنارے والے مصائب کے گرداب میں روزانہ بمباری سے اپنے مکانات تباہ برباد ھوتے دیکھ رھے ہیں مگر حماس کے خلاف لب پہ کوئی حرفِ شکایت ھی نہیں ہے۔غزہ میں روزانہ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے موت کا رقص جاری ہے۔ شہید ہونے والوں کے پسماندگان اجل کی کوندتی بجلیوں اور خون کے سمندر کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر بھی قرآنی آیات پڑھ کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ھوئے رب کا شکر ادا کر رہے ہیں اور اپنے پیاروں کی پیشانیوں کو چوم کر دسیوں بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں زمین میں دفن کر رہے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی حکام مسلسل کہتے آ رہے ہیں کہ وہ غزہ کی پٹی سے حماس کو فوجی اور سیاسی طور پر اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں یعنی اس زمین سے اْن کا خاتمہ کر دیا جائے گالیکن فوجی طاقت کے بے دریغ استعمال کے علاوہ، اتنے دن گْزر جانے کے باوجود اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول میں کب اور کیسے کامیاب ہو پائے گا؟اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ ان کا سیکورٹی سسٹم انتہائی جدید اور ناقابل تسخیر ہے۔ غزہ کے ساتھ اسرائیلی سرحدوں پر نصب حفاظتی و نگرانی نظام کی وجہ سے غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں پر ہمیشہ اسرائیل کی نظر رہتی ہے۔ نگرانی کرنے والے ڈرونز کی آواز مسلسل آسمان سے آتی رہتی ہے۔ انتہائی محفوظ سرحد سکیورٹی کیمروں اور فوجیوں سے بھری ہوئی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں معلومات حاصل کرنے کے لیے ذرائع اور سائبر صلاحیتوں سے کام لیتی ہیں۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ حماس کے غیرمعمولی حملے میں اسرائیل کی آنکھیں بند ہو گئی تھی۔ اس حملے کے دوران سینکڑوں عسکریت پسند اسرائیلی سرحدی رکاوٹیں توڑ اسرائیل میں داخل ہو گئے، جس میں سینکڑوں افراد مارے گئے اور خطہ ایک تنازع کا شکار ہو گیا ۔ اس حملے نے اس ساکھ کو شکوک و شبہات میں ڈال دیا ہے اور ایک کمزور لیکن پرعزم دشمن کے سامنے ملکی دفاع کی تیاری کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ 24 گھنٹے بعد بھی حماس کے مجاہد اسرائیلی علاقے کے اندر اسرائیلی افواج سے لڑتے رہے اور درجنوں اسرائیلی غزہ میں حماس کی قید میں ہیں۔
جنگ شروع ہو نے کے بعد ظاہراً اسرائیل نے غزہ کو کھنڈر بنا دیا اور چودہ ہزار سے زائد شہادتیں ہوئی مگر دوسری طرف اسرائیل میں بھی جنگ کے منفی اثرات سامنے آئے۔ پوری دنیا نے اسرائیل پر جنگ بندی کیلئے دباؤ ڈالا مگر امریکی اور برطانوی شہ پربن یامین نتن یاہو نے صاف انکار کر دیا۔ جنگ کے ابتداء سے ہی پوری دنیا یک زبان تھی کہ عارضی ہی سہی مگر جنگ بندی ہونی چاہیے۔یہاں تک کہ سلامتی کونسل میں بھی قرارداد پیش ہوئی۔عالم اسلام اور بقیہ اقوام کی اپیلوں کا اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا اور سرائیل کی زبان پر صرف ڈھٹائی کے ساتھ ایک لفظ آیا ” نہیں ”
اسرائیل کی ایک ہی رٹ تھی کہ 23 لاکھ مسلمان غزہ سے نکل جائیں اورحماس کے آخری مجاہد کے خاتمے سے قبل جنگ بندی ممکن نہیں۔کیونکہ اسرائیل کی خوش فہمی تھی کہ اس کی فوج، اسلحہ اورظالم مغربی سامراجی طاقتوں کی حمایت کی وجہ سے حماس نے تو ویسے بھی چند دنوں میں فنا کے گھاٹ اتر جانا ہے۔ اس کے قیدی جو حماس کی قید میں ہیں وہ بھی چھوٹ جائیں گے۔ کیونکہ اس کے خصوصی دستے تو ایسے کاموں کے ماہر ہیں ہی ، لہذا وہ پاتال سے بھی اس کے قیدی و یرغمالی ڈھونڈ نکالیں گے۔لیکن فلسطین میں حقیقی اسلامی مجاہدین واسلامی شہسواروں کی ڈیڑھ ماہ کی اعلی مدبرانہ عسکری کارکردگی کی وجہ سے ظالم، جابر، درندہ،وحشی ،خونخوار اورخونریز وخون آشام اسرائیل آخر کار حماس کے مجاہدین کے ہاتھوں اپنی بربادی کے خوف سے جنگ بندی کے لئے مذاکرات پر آمادہ ہو گیا ۔
حماس اور اسرائیل کے مابین ثالثی کرنے والے ملک قطر کی جانب سے ہونیو الے اعلان کے مطابق دونوں حریفوں کے درمیان 24 اکتوبر تا27 اکتوبر تک چار روزہ جنگ بندی ہوگی جو کچھ دنوں کیلئے مزید بھی بڑھ سکتی ہے۔اس جنگ بندی کی شرائط کے مطابق اسرائیل ڈیڑھ سو فلسطینی جبکہ حماس پچاس اسرائیلی قیدی خواتین اور بچوں کو رہا کرے گی۔اس دوران غزہ میں جہاں حماس چاہے گی وہاں نہ صرف امداد کی صورت میں اسبابِ زندگی پہنچے گا بلکہ طبی آلات و ادویات کی ترسیل بھی ممکن ہوسکے گی۔اس معاہدے کی نگرانی صرف قطر حکومت کرے گی ۔کوئی عربی نام نہاد مسلم حکومت یا مغربی طاقت اس میں دخل اندازی نہیں کریگی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی تمام حکومتیں تماش بینی اور اپنے مسلم بھائیوں کے قتل غارت کا نظارہ کرنے میں مصروف اور انسانیت دشمن مغربی ممالک دن رات اسرائیل کی مکمل مدد کرنے میں مصروف ہیں۔سوال یہ ہے کہ نیتن یاہو جیسا خون آلود بھیڑیا جنگ بندی کی بات اور حماس کی شرائط کیسے مان گیا نیز غرور میں غرق امریکہ سے تربیت یافتہ جدید ترین اسلحہ کے ماہر انسانی لاشوں کے مینار تعمیر کرنے والے یہودی فوجی افسران نے بھی خوشی خوشی یہ زہریلا گھونٹ کیسے پی لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔