میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
واٹر بورڈ کرپشن کا جوہڑ بن گیا

واٹر بورڈ کرپشن کا جوہڑ بن گیا

جرات ڈیسک
پیر, ۲۸ نومبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خصوصی رپورٹ۔۔۔۔۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کرپشن کا گڑھ بن گیا ہے، بغیر چمک کے واٹر کنکشن لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں لیکن ٹینکر مافیا کے ذریعے آپ جتنا پانی چاہیں مل جائے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بنائے گئے واٹر کمیشن نے شہر میں صرف 6 واٹر ہائیڈرنٹس کو پانی کی سپلائی کی اجازت دی تھی اور اس میں بھی یہ شرط رکھی تھی کہ لگائے گئے میٹر کے ذریعے ٹینکروں کا حساب رکھا جائے گا لیکن واٹر کمیشن کے ختم ہونے کے بعد شہر بھر میں پانی مافیا کا راج ہے۔ میٹر کو بند کر کے اپنی مرضی سے ٹینکروں کا حساب رکھا جاتا ہے یوں روزانہ لاکھوں روپے جمع کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ 96 معلوم غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس کام کر رہے ہیں جبکہ نا معلوم کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے جس میں کنٹونمنٹ کا علاقہ بھی شامل ہے۔ غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس مافیا کا پورا نظام کراچی سسٹم کے تحت کام کرتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کراچی سسٹم ہے کیا؟۔ کیونکہ بیشتر شہری اس سسٹم کے بارے میں جانتے ہی نہیں۔ دراصل یہ سسٹم کراچی میں سرکاری سطح پر لوٹ مار کا سب سے بڑا سسٹم ہے۔ پانی مافیا کے سسٹم کی نگرانی سابق چیف سیکریٹری لالہ فضل الرحمان کرتے ہیں۔ شہر میں واٹر ہائیڈرنٹس کے تمام قانونی اور غیر قانونی کام لالہ کے داماد بلال عرف بنٹی کرتے ہیں۔ دن بھر جتنا مال اکھٹا ہوتا وہ لالہ پوری ایمانداری سے حصہ بقدر جثہ تمام شراکت داروں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ جب سے نجمی عالم واٹر بورڈ کے وائس چیئرمین بنے ہیں تقسیم کے زیادہ تر کام میں ان ہی دفتر کا استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح شہر میں نئی بننے والی بلڈنگیں بھی اب صرف کراچی سسٹم کے تحت ہی بنتی ہیں جس کے نگران کے ڈی اے کے ڈی جی محمد علی شیخ ہیں۔ کراچی سسٹم کے تحت جمع ہونے والی رقم کا بڑا حصہ کلفٹن کے ایک بڑے گھر کی خاتون کو پہنچتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ سندھ میں 15 سال قبل پیپلز پارٹی کی بنائی جانے والی حکومت میں وہ پہلے دن سے ہی ڈیفیکٹو وزیر اعلی ہیں۔ ایک عرصے تک کراچی فش ہاربر سے ہونے والی غیر قانونی آمدنی کا بڑا حصہ ڈیفیکٹو وزیر اعلی کو پہنچتا تھا جس کا انکشاف لیاری گینگ وار کے سربراہ عذیر بلوچ نے جے آئی ٹی میں کیا تھا۔
جب سے آئین میں ترمیم کر کے نیب کے ناخن اور دانت نکال دیئے گئے ہیں اس کے بعد سندھ میں کراچی سسٹم کے تحت ہونے والے پاکستان کے سب بڑے وائٹ کالر کرائم کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اب جس کا جو دل چاہے کرے، جتنا چاہے لوٹ مار کرے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اب کہنے والے کہتے ہیں کہ کراچی میں انصاف کا ترازو ٹوٹ چکا ہے۔
سپرہائی وے میں بلک لائنوں پر رہائشی منصوبہ سے 36 قطر لائن کی تبدیلی کا غیر قانونی پلان وائس چیئرمین واٹر بورڈ نجمی عالم کے دفتر میں بنانے کے انکشاف پر سندھ حکومت میں کھلبلی مچ گئی، کرپشن میں بدنام زمانہ سندھ حکومت اب لاڈلے کے سنگین جرائم کے ارتکاب و انکشاف پر معاملے کو سردخانے میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس غیر قانونی اور کرپشن سے بھرپور منصوبے میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تین افسران ندیم کرمانی (میٹر ڈویڑن و پی اے سید نجی عالم)، عامر پیجر ٹیکس ڈپارٹمنٹ، تنویر شیخ سپریٹنڈنٹ انجینئر کے ساتھ واٹر ٹرنک مین بلک واٹر کا عملہ بھی شریک جرم بتایا جاتا ہے۔ اس غیر قانونی کام کے ماسٹر مائنڈ بھی یہی ہیں۔ ان کے خلاف تحقیقات اور انہیں جرم میں شامل نہ کرنے پر سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہے۔ اس معاملے میں واٹر بورڈ میں ملازمین ایک دوسرے سے سوال پوچھ رہے ہیں اور چہ مگوئیاں عروج پر ہیں کہ اتنے بڑے اسکینڈل کو چند چھوٹے ملازمین پر ڈال کر بڑے لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے ادارے کا نظام خطرے میں پڑ گیا ہے، جبکہ موجودہ مینجنگ ڈائریکٹر سید صلاح الدین نے دعوی کیا تھا کہ ماضی میں ہونے والے غلطیوں پر وہ باز پرس نہیں کریں گے لیکن آئیندہ غیر قانونی کنکشن اور غیر قانونی کاموں میں ملوث افسران و ملازمین کو عبرت کا نشان بنا دیں گے،لیکن اس سنگین غیر قانونی واقعے میں ایکشن نہ لینے سے واٹر بورڈ کی رٹ کے بارے میں فیصلے کے تعین کا باآسانی اندازہ لگایا کیا جاسکتا ہے۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلک لائنوں میں واٹر ٹرنک مین کی نگرانی میں اتنے بڑے واقعہ میں غیر قانونی کام، سرکاری وسائل، ناجائز اختیارات کا استعمال، رشوت، کمیشن، کک بیک، جیسے جرائم ٹھوس ثبوت کے ساتھ میڈیا کے ذریعے اصل حقائق عوام کے سامنے آچکے ہیں، اس لیئے اب ان جرائم پر پردہ ڈالنا بیکار اور ناممکن ہے۔ مینجنگ ڈائریکٹر سید صلاح الدین نے واقعہ میں صرف نچلے سطح کے ملازمین جن میں آفشیٹنگ ایگزیکٹو انجینئر ایس ایم احسن، اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر فراز خان آفریدی، سب انجینئر محمد عاصم اور سب انجینئر فہیم کو پہلے معطل کیا اور اب تحقیقاتی افسر چیف انجینئر (E&M) انتخاب راجپوت کے سپرد کرنے کے ساتھ اس کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ اس حوالے سے ادارے کے ملازمین کا کہنا ہے کہ واقعہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں یہ بہت ہائی لیول کا معاملہ ہے جسے دبانے کے لیے پتلی گردن والے کے پھندا ڈالا جارہا ہے، ان کا مزید کہنا ہے کہ لگتا ہے بلڈر نے نجی لوگوں اور افسران بالا سے مل کر کام کرایا ہے اور وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ منیجنگ ڈائریکٹر نے پانچ روز گزر جانے کے بعد چاروں ملازمین کو باضابطہ شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے جس پر ملازمین میں شدید خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔
پہلے ان سے کہا گیا تھا کہ وہ جلد اپنے عہدوں پر بحال ہو جائیں گے، اس کے لیے آپ نام نہاد تحقیقات کے لیے تحقیقاتی افسر کے سامنے پیش ہوں گے جو صرف کاغذی کاروائی کریں گے لیکن اس دوران آپ لوگ نہ کسی قسم کا بیان جاری کریں گے نہ اعتراف جرم کریں گے۔ بعض افسران نے باور کرایا ہے کہ جب کنکشن ہی نہیں لگا تو جرم نہیں بنتا ہے، کرائمز سین نہیں تو کوئی جرم نہیں ہوگا اور آسانی سے بچ جانے میں کامیاب ہوں گے لیکن اب تو کنکشن کے پائپ بھی نکال لیے گئے ہیں۔ چاروں ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر ان کی ملازمت کو خطرہ ہوا تو تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے سچ اگل دیں گے کہ کس نے ہمیں منہ بند رکھنے پر مجبور کیا تھا اور لالچ کے ساتھ بھاری نذرانہ بھی دیا تھا۔ اس بارے میں بلڈر حاجی امین صفہ نے ڈریم سٹی منصوبے کی پہلے تصدیق کی اور جب واقعہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کنکشن سے صاف لاتعلقی کا اظہار کیا ہے لیکن منصوبے کے بند ہونے کی صورت میں ان کے 8 کروڑ روپے ڈوبنے اور ضائع ہونے کے خدشہ پر وہ بھی سچ بتا سکتے ہیں۔ وہ کئی سالوں سے اس لائن کو تبدیل کرانے کی کوشش کررہے تھے جبکہ واٹر بورڈ کے کئی افسران بھاری نذرانے کے عوض لائن شفٹ کرنے پر تیار تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ واٹر بورڈ کے بعض افسران نے ہمارے کام میں جان بوجھ کر رکاوٹ پیدا کی ہے تاکہ بھاری رشوت وصول کریں۔ ہم قانونی طریقہ سے لائن شفٹ کرنا چاہتے ہیں، اگر افسران نے غیر قانونی کام کیا ہے تو اس میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بلک واٹر کا شعبہ واٹر مین ٹرنک (WTM) جو غیر قانونی کنکشن کو روکنے کا ذمہ دار ہے وہ خود غیر قانونی کنکشن اور اس کی سرگرمیوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ اس کے سپریٹنڈنٹ انجینئر، ایگزیکٹو انجینئر، اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر، اسسٹنٹ انجینئرز، انسکپٹرز، دیگر عملے کی بڑی تعداد غیر قانونی اور گھناؤنے کاروبار میں براہ راست ملوث بتائی جاتی ہے۔ ادارہ میں کوئی چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں ہے۔بغیر قانونی کنکشن کے لاکھوں کروڑوں روپے رشوت، کمیشن، کک بیک وصول کرنے والے ملازمین کی جائیدادیں، اثاثہ جات، کاروبار اور ٹھاٹ باٹ باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں یعنی آمدن سے زیادہ اثاثے صاف دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا تو وہ سندھ حکومت ہے جس کا کرپشن میں کوئی ثانی نہیں ہے۔
سیاسی جماعتوں کے بدعنوان افراد، بلڈرز، دیگر شعبہ جات کے افراد میں بھی اس غیر قانونی کنکشن اور گھناؤنے کاروبار میں مسلسل اور روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اسی طرح بلاک 15 سے بلاک 16 میں چند روز قبل غیر قانونی 6 انچ اور 4 انچ کے کئی کنکشن، مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے مہناج احمد نے WTM کے بدعنوان افسران کی نگرانی میں لگایا ہے۔ رہائشی منصوبہ حرمین رائل ریذیڈینسی کے چار چار انچ قطر کے کنکشن کاٹ دیئے تھے لیکن 24 گھٹنے میں چمک کے ذریعے اسے بحال کردیا گیا ہے۔ تین ہٹی پر چھ انچ قطر کی نئی لائن دھوبی گھاٹ پر غیر قانونی ڈالی گئی ہے۔ گلشن اقبال، گلستان جوہر، فیڈریل بی ایریا، گارڈن، نارتھ کراچی، سرجانی ٹاون، ناظم آباد اسکیم 33 کے ساتھ دیگر کچی آبادی، گوٹھ میں غیر قانونی کنکشن کا گھناؤنا کاروبار جاری ہے اور انتظامیہ کی تبدیلی کے باوجود غیر قانونی کام بند نہ ہوسکا۔ WTM واٹر بورڈ کے باہر کی مخلوق بن گئی ہے اور یہ خفیہ مخلوق کاروائی سے پہلے اپنی مجاز اتھارٹی سے اجازت طلب کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ افراد ذاتی فائدے کے لئے ادارے اور شہر کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مینجنگ ڈائریکٹر سید صلاح الدین نے صفہ ڈریم سٹی پر 500 میٹر لائن تبدیل کرنے پر خط میں تنویر شیخ کو تین دن میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن مقدمہ اب تک درج نہیں ہوسکا کیونکہ وہ بھی وائس چیئرمین کے غیض و غضب سے خوف زدہ ہے۔ صرف سپرہائی وے جمالی پل سے متصل صفہ ڈریم سٹی سے پانی کی 36 انچ قطر غیر قانونی لائن نکال دی گئی ہے۔ منصوبہ میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تین افسران ندیم کرمانی، عامر پیجر، تنویر شیخ ادارے میں ہر قسم کے کام کیلیئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ایک افسر نے بتایا کہ غیر قانونی پائپ لائن کا منصوبہ بھی وائس چیئرمین واٹر بورڈ سید نجمی عالم کے دفتر میں بنایا گیا تھا، مبینہ طور پر رشوت بھی دفتر میں وصول کی گئی تھی۔ عامر پیجر، ندیم کرمانی اور تنویر شیخ جو اس منصوبے کے شریک جرم بھی ہیں اور اس غیر قانونی کام کے ماسٹر مائنڈ بھی ہیں، لیکن انہیں تحقیقات اور اس جرم میں شامل نہ کرنے پر تمام تحقیقات پر سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں۔اب تو واٹر بورڈ والوں نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے کہ پہلے نئے تعمیر شدہ پلازہ میں کنکشن کاٹا جاتا ہے پھر چمک پر اسے بحال کر دیا جاتا ہے اس طرح رات دن انگنت نوٹ چھاپے جا رہے ہیں، جو کسی بھی تحقیقاتی اداروں کی نظروں سے اوجھل ہیں کیونکہ وہاں بھی چمک نے ان کی آنکھیں خیرہ کر دی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں