نیتن یاہو کا سیاسی ترکہ
شیئر کریں
(مہمان کالم)
اُسامہ الشریف
اسرائیل پر طویل عرصہ سے براجمان وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو فراڈ اور کرپشن کے سنگین الزامات کی وجہ سے جس ذلت کا سامنا کر رہے ہیں، اسے دیکھ کر کسی کے لیے بھی اطمینان کا اظہارکرنا ممکن نہیں۔ بعض حلقے توقع کر رہے ہیں کہ اسرائیلی تاریخ کا متنازع ترین وزیراعظم نئے چیلنج سے بھی بچ نکلے گا۔ اس نے الزامات کا سامنا کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے اسے مزید کچھ مہینے مل جائیں گے کیونکہ اسرائیلی پارلیمنٹ منقسم ہونے کے باعث فعال نہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اس کے خلاف مقدمہ بھی چلے گا، اور اسے قصور وار قرار دے کر جیل بھی بھیجا جائیگا۔اس بات کا امکان کم ہے کہ نیتن یاہو اسرائیل پر گہرے سیاسی نقوش چھوڑ پائیں گے۔ وہ ایک دہائی سے اپنے لیے سیاسی منظرنامے کو سازگار بناتے رہے ہیں۔ ایک شعلہ بیان مقرر اور انتہا پسند سیاسی فکر کی بنیاد پر انہوں نے مقبول نعرے لگا کر دائیں بازو کے ووٹروں کو پیچھے لگا کر اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنایا جو کہ ہمیشہ سے ان کا ہدف رہا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے نسل پرست گروہوں کے ساتھ اتحاد کیا اور اعتدال پسند اور بائیں بازو کے جماعتوں سیاسی میدان سے باہر کر دیا۔ سیاسی مخالفین اور ناقدین کو دبانے کیلئے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا جن میں اسرائیل کے فلسطینی شہری سرفہرست تھے، ملک میں خوف، امتیاز اور شک و شبہ کاکلچر پروان چڑھایا۔ انہوں نے دو ریاستی حل کی تجویز سے لاتعلقی اختیار کر کے یورپی اتحادیوں کے علاوہ امریکا کی یہودی تنظیموں کے ساتھ فاصلے بڑھائے۔ ’’کنگ بے بی‘‘ نے یہ کچھ اپنے مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا، جس کا مقصد مغربی کنارے تک اسرائیل تسلط کو توسیع دینا اور فلسطینیوں کا حق خود ارادیت ہمیشہ کے لیے کچلنا تھا۔
30سالہ سیاسی کیریئر کے دوران نیتن یاہو کے موقع پرستی پر مبنی حربوں نے اسے ملکی منظر نامے پر ابھرنے کا موقع دیا۔ فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتا کرنے پر اس نے انتہا پسند یہودیوںکو اسحاق رابن کے خلاف اکسایا، جسے بعد ازاں نیتن یاہو کے ایک پیروکار نے قتل کر دیا۔ اسرائیل سیاست کے اس ابھرتے ستارے نے اسحاق رابن کے قتل پر کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ نیتن یاہو کو اسرائیل کے تمام وزرائے اعظم میں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ خیال کیا جاتا ہے۔ وہ عبرانی کے علاوہ انگریزی میں پوری فصاحت و بلاغت کیساتھ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ امن بقائے باہمی، دو ریاستی حل جیسے سیاسی فارمولوں پر یقین نہیں رکھتے۔ بیرونی دنیا کو انہوں نے ہمیشہ یہ پیغام دیا کہ ایک فلسطینی بھی ایسا نہیں جس کے ساتھ مذاکرات کیے جا سکیں۔ ملک کے انتہا پسند پیروکاروں کے لیے ان کا پیغام تھا کہ فلسطینیوں سے کسی قسم کا امن معاہدہ یہودی ریاست کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
حالیہ کچھ برسوں میں وہ فلسطینیوں کی زبوں حالی سے دنیا کی توجہ ہٹانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ اسرائیل کا اس وقت سب سے بڑا دشمن ایران ہے؛ ایک ایسا دشمن جس کی عربوں کے ساتھ بھی نہیں بنتی۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران اس نے ایک مرتبہ بھی فلسطینیوں کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی نظر میں وہ غیر مرئی لوگ ہیں، اس نسل پرست کی نظر میں پچاس لاکھ فلسطینیوں سے تحقیر آمیز سلوک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ اوسلو امن معاہدوںمیں فلسطینیوں کے ساتھ جتنے بھی وعدے کیے گئے تھے، نتین یاہو کی نظر میں ان سے منہ موڑ کر اس نے کچھ غلط نہیں کیا۔ عالمی برادری کی طرف سے ٹھوس ردعمل کے فقدان سے شہ پا کر نیتن یاہو نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کے قیام کے منصوبے پر کام تیز کر دیا، تاکہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر عمل درآمد ناممکن ہو جائے؛ یہ وہ سیاسی ترکہ ہے جس کا سہرا نیتن یاہو کے سر جاتا ہے۔
پانچویں مدت کے لیے وزیراعظم بننے کے خواہش مند نیتن یاہو کو کچھ نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مطلق العنان بن کر اس نے کئی دشمن بنا لیے تھے۔ رواں سال کے دونوں عام انتخابات اسے مثبت نتائج دینے میں ناکام رہے۔ نتین یاہو کے اقدامات نے اسرائیل کو داخلی سطح پر منقسم کر دیا ہے؛ چھوٹی جماعتیں مخصوص رعایتوں کے بدلے میں اس کا ساتھ دیتی رہیں؛ نیتن یاہو کے نوآبادیاتی منصوبے سے اختلاف کرنے والے سابق جنرل اس کے اتحادیوں کی کرپشن سے بھی سخت بیزار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب انہیں سیاسی کردار ادا کرنا چاہیے۔ نتین یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے، وہ اس مبینہ سازش کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کو فوجی بغاوت کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
فلسطینی مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے کا منصوبہ کامیاب بنانے کے لیے ٹرمپ کا صدر بننا بھی ضروری تھا۔ ٹرمپ وائٹ ہائوس سنبھالنے سے آج تک اسرائیل کے انتہا پسند ایجنڈے پر عمل درآمد کرا رہا ہے۔ اس وقت دونوں اپنی سیاسی بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ٹرمپ سینیٹ میں ریپبلکن اکثریت کے باعث شاید بچ جائیں اور 2024ء میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں پھر اہم ترین امیدوار ثابت ہوں، مگر نیتن یاہو کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا سیاسی زوال یقینی ہے، مگر ضروری نہیں کہ اس کا جانشین فلسطینیوں کے لیے بہتر ثابت ہو۔ نتین یاہو کی پالیسیوں میں تھوڑی بہت تبدیلیاں ممکن ہے کہ وہ متعارف کرا دے مگر اسرائیل پر نسلی امتیاز پر مبنی ریاست کا داغ دھونا اس کے لیے بھی ممکن نہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔