مولانا کی پسندیدہ ڈش اور الوداع ہوتا نومبر
شیئر کریں
انوار حسین حقی
نومبر کی حسین راتیں زمیں پر جب اُترتی ہیں
میرے چھوٹے سے کمرے میں تیرے اقرار روتے ہیں
اس سال کا نومبر بھی عجیب ہے ۔ سردی کی خنکی روٹھی روٹھی سی لگتی ہے ۔ شہروں پر سموگ اور دھند کا راج ہے ۔میگھا برسنے کی اُمیدیں دم توڑنے لگیں تو خلقت نمازِ استسقاءکے لیے ایستادہ ہو گئی ۔ خالقِ کائنات سے سابقہ گناہوں کی معافیاں مانگی جا رہی ہیں ۔ لیکن آئندہ گناہ نہ کرنے کے بلند آہنگ عزائم بھی دھند میں لپٹے نظر آتے ہیں ۔
اس دھند کا کیا کیا جائے ۔ سارے منظر دھندلے ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ سیاسی سموگ اور جذبوں کی اوس نے بلاول بھٹو زرداری کے لیے شادیانے بجنے کی خبروں کو عوامی توجہ سے محروم رکھا ۔۔۔۔ حالانکہ بلاول بھٹو نے اپنی شادی پھپھو فریال اور بابا زرداری کی خواہش کی بجائے شادی کے لیے بہنوں کی مرضی سے کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔
سندھ کے گورنر سعید الزماں صدیقی صاحب کی صحت کے حوالے سے خبر وہی ہوتی ہے جب بتایا جاتا ہے کہ گورنر صاحب کی طبیعت سنبھل گئی ہے ۔ وزیر اعظم جب ان کی عیادت کر رہے تھے تو میاں نواز شریف کے دوسرے سیاسی رفیق مولانا فضل الرحمن بھی ناسازی طبیعت کے باعث ہسپتال منتقل ہو رہے تھے ۔
مولانا صاحب کی صحت کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی ۔ حالانکہ وہ اپنی سیاسی خوراک کے ساتھ ساتھ جسمانی خوراک کا بھی خوب خیال رکھتے ہیں۔ مولانا مکئی سے تیار شدہ غیر ملکی چینی استعمال کرتے ہیں ۔جو خاص طور پر دبئی سے ان کے لیے ان کے چاہنے والے بھجواتے ہےں ۔ خوراک کے معاملے میں ان کا ذوق اپنے والد مرحوم مولانا مفتی محمود ؒ سے مختلف نہیں ہے۔ لہذا ان کے مخالفین ان پر یہ الزام غلط طور پر عائد کرتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر اپنے بزرگوار کے جانشین ثابت نہیں ہوئے ۔
اپنے والد کی طرح مولانا فضل الرحمن بھی ”ثرید “ پسند کرتے ہیں۔ سرائیکی زبان میں اسے ”ثوبھت “ کہتے ہیں ۔ مولانا کے چاہنے والوں میں اگر کوئی ان کو جاننے والا بھی ہو تو وہ ان کی دعوت کے موقع پر ثرید (ثوبھت ) کا اہتمام ضرور کرتا ہے ۔ میرے ایک قریبی دوست مولانا کی جانب سے دی جانے والی افطاری چاہے وہ اسلام آباد میں ہو یا ڈیرہ اسماعےل خان میں صرف اس لیے ضرور شرکت کرتے ہیں کہ وہاں ثوبھت کی ڈش لازمی ہوتی ہے ۔
مولانا 2003 ءسے شوگر کے عارضہ میں مبتلا ہیں، کچھ سال پہلے ان کی انجیو پلاسٹی بھی ہوئی تھی لیکن انہوں نے دل کے معاملے پر پیٹ کے معاملے کو ترجیح دی اور” ثرید“ سے کنارہ کشی اختیار نہ کی ۔
عمران سے سیاسی مخالفت کی وجہ سے مولاناکاسیاسی بانکپن بھی دھندلا ہو تا جا رہا ہے۔ ان پر یہ واضح ہو چُکا ہے کہ کپتان کی” ایکسرسائز“ کا مقابلہ اب ”قیلولے “ سے نہیں کیا جاسکتا سو وہ بھی اب حرکت میں رہتے ہیں۔ مولانا نے گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب کا دورہ کیا تھا اپنے اس دورے میں وہ پاکپتن میں حضرت بابا فرید شکر گنج ؒ کے مزار پر بھی گئے تھے ۔ اس سے پہلے عاشورہ محرم کے دوران مولانا کے حریفِ وقت عمران خان بھی اس درگاہ پر حاضری دے چُکے تھے ۔اس سیاسی دورے کے دوران مولانا کا شوگر لیول زیادہ رہا حالانکہ اس علاقے کی پسماندگی اور درماندگی کو دیکھ کر انکی شوگر کا لیول کم ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن ان کی طبیعت کچھ مناسب نہ رہی۔ دورے کے اختتام پر میاں شہباز شریف نے انہیں اپنے ہاں ناشتے پر بُلالیا ۔ خلافِ توقع مولانا کی طبیعت لاہوری ناشتے پر مائل نہیں ہو رہی تھی ۔ میاں شہباز شریف کے اصرار پر لاہوری ناشتے کے آگے ہتھیار ڈالے تو طبیعت خراب ہو گئی اور کئی روز تک ہسپتال میں رہنا پڑا۔ ان کے دو ہی دن بعد میاں شہباز شریف کو بھی ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑا اور دو دن انہیں بھی آرام میں گزارنے پڑے ۔اللہ کا شکر ہے کہ اب دونوں کی طبیعت ٹھیک ہے ۔اُمید ہے کہ مولانا جلد معمول کی خوراک شروع کر دیں گے ۔
برصغیر بھر میں نومبر شادیوں کا موسم سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن اس مرتبہ بیماری کا مہینہ بن گیا ہے ۔ اس مہینے میں بلاول نے اپنی شادی کی بات بھی کی۔ ان کے درجن بھر منہ بولے انکلوں میں سے ایک انکل عمران خان لند ن گئے تو انہوں نے ایک شادی میں شرکت کے دوران اپنی تیسری شادی کا ذکر چھیڑ تے ہوئے کئی ساز چھیڑے مگر عمرِ رفتہ کو آواز دینے کی بجائے تیسری شادی کا عندیہ دےنے لگے ۔ پھر موضوعات کو ترستے پاکستانی میڈیا نے کپتان کی تیسری شادی کے حوالے سے خوب دھو م مچائی۔ بلاول کی شادی کی خبر کو اس طرح سے کوریج نہیں ملی جس طرح عمران خان کی متوقع تیسری شادی کی خبر کو ملی ۔ یہ سب کچھ بھی ہمارے اپوزیشن لیڈر سید خورشید علی شاہ اور مولا بخش چانڈیو کو ناگوار گزرا ہوگا ۔ خورشید شاہ صاحب عمران خان کی تیسری شادی کی خبر کے حوالے سے یہ بیان جاری ہی کرنے والے تھے کہ ” اس خبر سے عمران خان نے نواز شریف کو مضبوط کیا ہے “ اچانک برطانوی وزیر خارجہ کی عمران خان کے ساتھ بنائی جانے والی سیلفیوں نے ” جیلسی “ میں اضافہ کر دیا ۔۔
نومبر کا آخری عشرہ جدائیوں کا سمے بنتا جا رہا ہے ۔ پاکستان کی عسکری تاریخ میں اچھی اور مثبت یادوں کا اضافہ کرکے جنرل راحیل شریف اور جنرل راشد محمود اپنے اپنے عہدوں اور اداروں کو الوداع کہ رہے ہیں ۔
موسم سرما کا سرد ہمہمہ لہو جمائے یا نہ جمائے سیاسی درجہ حرارت نقطہ¿ انجماد کی طرف گرنے کا نام نہیں لیتا ۔ عسکری سربراہ کی ریٹائرمنٹ نے کچھ خواہشوں پر اوس ضرور ڈالی ہے لیکن حالات کو بحر حال اداروں کی مضبوطی کی جناب سفر کرنا چاہیے ۔ پاناما لیکس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کی مقدمے سے علیحد گی بھی الوداع ہوتے نومبر کی ستم ظریفی بن چُکی ہے ۔
نومبر الوداع ہو رہا ہے لیکن اس کے بعد آنے والا دسمبر بھی نومبر سے کم نہیں ہوتا ۔ دسمبر کے دکھوں نے ہماری اردو شاعری کے لیے ہمیشہ مہمیز کا کام دیا ہے ۔۔۔۔ دعا ہے کہ نومبر کے آخری سمے قوم کے لیے شادمانی کی نوید ہوں اور دسمبر خوشیوں کے سندیسے کا مہینہ بن جائے ۔۔۔۔۔۔
٭٭