کچھ معروضات جماعت اسلامی کے بارے میں
شیئر کریں
سید عامر نجیب
جماعت اسلامی مولانا مودودی ؒ کی فکر کا مجسم وجود ہے ۔ مثالی نظم و ضبط ، کرپشن کے داغ دھبوں سے پاک قیادت، نظریات اور فکر کا شعور رکھنے والے وفادار کارکنان اور فکری و عملی تربیت کا بہترین نظام جماعت اسلامی کی پہچان ہے ۔ جماعت اسلامی جہاں اب بھی کتابوں کا شوق ہے ، جہاں آج بھی بچوں ، عورتوں اور نوجوانوں کی اصلاح کے لئے معاون ماحول فراہم کیا جاتا ہے ، جہاں کارکنان کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کی کوشش ہوتی ہے ۔ جہاں آج بھی نسلی ، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ۔ جماعت اسلامی جس نے گزشتہ تقریباً 8 دہائیوں میں لاکھوں قیمتی ذہنوں کو اپنی فکر سے متاثر کیا ، اس تربیت گاہ سے فیض حاصل کرنے والے پاکستان کی نامور مذہبی و سیاسی جماعتوں ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور زندگی کے تمام شعبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں ۔ وہ جماعت جس نے پاکستان کی پوری تاریخ میں حکمرانوں کے خلاف ِ اسلام اقدامات کی کھل کر مخالفت کی، ایسے پریشر گروپ کا کردار ادا کیا کہ سرکش حکمران پاکستان کے اسلامی تشخص کو باوجود چاہت کے مسخ نہ کر سکے ۔ جماعت اسلامی جس نے تعلیم یافتہ نو جوانوں کو کالجز اور یونیورسٹیوں میں بے راہ روی سے بچا کر دینی ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی ، کفر و الحادی نظریات اور مغربی تہذیب و تمدن کے سیلاب کے سامنے مزاحمت کی روش اختیار کی، ہزاروں نوجوانوں کو وطن عزیز کا نظریاتی محافظ بنایا ۔اس طرح کے اور بھی بہت سے کام ہیں جو جماعت کے کھاتے میں ڈالے جاتے ہیں اور جا سکتے ہیں لیکن جماعت کا معاملہ بڑا عجیب ہے اسکی تعریف و تحسین کے بھی کئی حقیقی جواز ہیں اور تنقید کے بھی ۔
گزشتہ ہفتے شہر کراچی میں دو ایسی اہم سرگرمیاں بحسن خوبی انجام پائیں کہ جن سے کراچی میں قیام امن کی کوششوں میں کامیابی کا اظہار ہورہا ہے ، ایک دفاعی نمائش آئیڈیاز 2016 تھی جس میں دنیا کے کئی ممالک نے دفاعی سامان کے اسٹال لگائے اس انتہائی حساس نوعیت کی نمائش کا کامیابی سے انعقاد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نیک نامی کا باعث بنا ۔ دوسری بڑی سرگرمی جماعت اسلامی کا آل سندھ ورکرز کنونشن تھا جس میں سندھ کے 28 اضلاع سے جماعت کے ہزاروں کارکنان نے شرکت کی ، اتنے بڑے اجتماع کا نظم و نسق انتہائی مثالی تھا۔ نہ شرکاءکو کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور نہ عام شہریوں کو ۔ اس اجتماع میں مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف برادریوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ باہم شیر و شکر نظر آئے ۔ جماعت اسلامی جو ہزاروں دانشوروں ، صحافیوں ، ادیبوں ، شعراء، اساتذا ہ ، طلباء، عورتوں ، جوانوں اور بزرگوں کی جماعت ہے ۔ اس کے تمام شعبہ جات منظم انداز میں کام کرتے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 75 سالوں سے زائد کی تاریخ رکھنے والی انتہائی منظم جماعت اپنے اہداف کے قریب کیوں نہیں آسکی ؟ نفاذ اسلام کی منزل کا ابھی دور تک نشان نہیں ، مغربی اور ہندو تہذیب و تمدن کی یلغار کے مقابلے میں مزاحمت کمزور ہو چکی ،معاشرتی بگاڑ ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور کہیں شدید ہو چکا، آخر غلطی کہاں ہو رہی ہے ؟ذہین لوگوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ کسی بات پر قائل نہ ہونا چاہیں تو انھیں ارسطو اور افلاطون بھی آکر قائل نہیں کرسکتے ۔ ذہانت غلطیوں کو جواز بھی دیتی ہے اور ناکامیوں کو خوبصورت لفظوں میں چھپا بھی سکتی ہے ۔ ذہانت کے معاملے میں جماعت اسلامی خود کفیل ہے اسی لئے غلطیوں کا ادراک ، اعتراف اور رجوع کرنے میں زبر دست داخلی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس بندے کو ساٹھ سال کی عمر دی گئی اس کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا ۔ جماعتوں کی زندگی میں بھی ساٹھ سال کی عمر ایک اہمیت رکھتی ہے، سوچنے سمجھنے ، غلطیوں کو درست کرنے کے لئے یہ کوئی کم وقت نہیں۔ لیکن ظاہر ہے جماعت اسلامی سمیت کئی مذہبی جماعتیں اس عمر کو کراس کر چکی ہیں لیکن منزل سے سب ہی کوسوں دور ہیں ۔
جماعت اسلامی کے حالیہ امیر سراج الحق نے قاضی حسین احمد مرحوم کے بر عکس عملی اقدامات کے ذریعے جماعت کے عوامی تاثر کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے ، پہلے جماعت سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں رکھ کر پالیسیاں بناتی تھی اور اُس کی زیادہ تر سرگرمیاں عالمی ایشوز کی نسبت سے ہوتی تھیں جبکہ اب علاقائی مسائل کو خاص اہمیت دی جانے لگی ہے ۔ مثلاً گزشتہ روز ختم ہونے والے ورکرز کنونشن میں امیر جماعت کے خطاب اور قراردادوں کے ذریعے جو مسائل اجاگر کئے گئے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق کراچی اور اندروں سندھ سے بالخصوص اور باقی پاکستان سے بالعموم تھا ۔ اجتماع میں کے الیکٹرک کے ظالمانہ کردار، ٹرانسپورٹ مافیا کی زیادتیوں ، کراچی اور باقی سندھ میں بلدیاتی سہولتوں کے فقدان ، ناقص پانی کی فراہمی اور اس طرح کے کئی مسائل کو اجاگر کیا گیا ۔ ماضی کے بر عکس امیر جماعت کی تقریر عالم اسلام کے کسی رہنما کی نہیں بلکہ پاکستان کی مذہبی جماعت کے قائد کی تقریر لگی کیونکہ تقریر میں بین الاقوامی مسائل نہیں بلکہ پاکستان کے مسائل پر فوکس نظر آیا جو انتہائی خوش آئند ہے ۔ جماعت اسلامی کی مضبوط گاڑی کو اگر عوامی مقبولیت اور پذیرائی کا گیئر لگ جائے تو یہ بڑی تیزی سے اپنے اہداف کی جانب پیش قدمی کر سکتی ہے لیکن حقیقی عوامی مقبولیت محض شعبدہ بازیوں یا بلند و بانگ دعووں سے حاصل نہیں ہوتی اس کے لئے عوام کے درد کو سمجھنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی بے لوث اور پُر خلوص محنتیں کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
انبیاءعلیہ السلام کی تحریکوں میں فوکس عقیدہ توحید پر نظر آتا ہے ، نبی کریم ﷺ کی زندگی کا مکی دورہو یا مدنی ، عقائد کی اصلاح ہمیشہ آپ ﷺ کی ترجیحات میں سرفہرست رہی۔ اسلامی تحریکوں کو دینی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی ترجیحات سیرت طیبہ کی روشنی میں ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔
حالیہ آل سندھ ورکرز کنونشن جماعت اسلامی میں مثبت تبدیلیوں کو ظاہر کر رہا ہے، پاکستان میں نفاذ اسلام اور یہاں کے معاشرے میں بگاڑ کے خاتمے اور اصلاح کی کوششوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کسی بھی صحیح العقیدہ اسلامی جماعت میں بہتری کے آثار اطمینان کا باعث ہوتے ہیں ۔
٭٭