میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آہ سید مشتاق احمد۔۔اےک دوراپنے اختتام کوپہنچ گےا

آہ سید مشتاق احمد۔۔اےک دوراپنے اختتام کوپہنچ گےا

منتظم
پیر, ۲۸ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

zaheer-ahmed-copy

ظہیر احمد
28نومبر کونمازظہرکے بعدجب لطےف آبادنمبر10کے افضال گراونڈ مےں نےوز پےپر اےجنٹ سےدمشتاق احمدکی نماز جنازہ اداکرنے کی تےاری ہورہی تھی تومےں نے اےک صحافی سے افسوس کے ساتھ کہا”اےک دوراپنے اختتام کوپہنچ گےا۔“سچ بھی ےہی ہے کہ سےدمشتاق احمداےک شخص ہونے کے باوجوداےک دورکی مانندتھے۔
سےدمشتاق احمدکادورکم وبےش65برس پرمحےط رہاہے،جےساکہ مےں نے جنوری2014ءمےں ان کی داستان حےات قلمبندکرتے ہوئے لکھاتھا کہ ”سےدمشتاق احمدصرف لفظی نہےں عملی اورحقےقی طورپراےک سےلف مےڈشخص ہےں،انہوں نے سائےکل سے کارتک کاسفرراتوں رات ےاچشم زدن مےں طے نہےں کےا،برسوںمحنت کی ہے اوراس کے لیے اخبارات ورسائل کواوڑھنابچھونابناکر،سردی گرمی بارش اورنامواقف و نامساعد حالات کے درمےان، ماہ وسال کاحساب رکھے بغےراپنی ہرصبح کاآغازاستقامت سے کےا، چنانچہ زندگی کے 63قےمتی سال بےت گئے“۔
جب مےں نے اپنے جرےدے مےں سےدمشتاق احمدکی داستان حےات کوان کی موجودہ اورپرانی تصاوےر کے ساتھ رنگےن صفحہ پرشائع کےااورانہےں جرےدے کی چند کاپےاں تحفے مےں دےں توان کے بےٹے اوےس کے مطابق وہ پڑھ کربہت دےرروتے رہے اورپھرپہلی فرصت مےںمےرے گھرتشرےف لاکرمٹھائی کے ساتھ شکرےہ اداکےا۔ خودمےری طرح وہ پھےکی چائے پےتے تھے لےکن اظہارتشکرکے لیے مجبوراًمٹھائی خرےدی اس طرح جےسے انہےں مےری شادی پرآناہو، اورےہ بات بھی توکل کی لگتی ہے کہ وہ مےری شادی پراکتوبر1981ءمےں تشرےف لائے تھے۔ وہ اپنی جگہ جذباتی حدتک خوش تھے کہ کسی قلم کارنے انہےں اس قابل سمجھاکہ داستان حےات لکھے، اورمےں اپنی جگہ خوش اورمطمئن تھا کہ مےں نے اےک قرض اُتاراہے جوقلم کارہونے کے ناطے مجھ پرواجب تھاکہ تعلق اورشناسائی کی نصف صدی کامعاملہ تھا۔اسی لیے اپنے جرےدے مےں چھپنے والی ان کی داستان حےات کے لیے ”63برس کاقصہ ہے،دوچاربرس کی بات نہےں“کی سرخی منتخب کی تھی۔
سےدمشتاق احمدکے بڑے بےٹے فاروق مشتاق کے بےٹے کی شادی مےں جب مےں شرکت کے لیے گےاتوان کے ساتھ ہی بےٹھارہا،پھرہجوم اورمہمانوں کی آمد درآمددےکھ کراندازہ ہواکہ کھانالگتے لگتے نصف شب بےت جائے گی توحسب عادت مبارکبادکی رسم اداکرکے اوراجازت لےکرگھرآگےا۔ سےدمشتاق احمداےک بڑی”برادری“کے مالک تھے اورصرف ےہی نہےں کہ کئی بڑے اخبارات کے نےوزپےپراےجنٹ ہونے کے ناطے ان کی ےہ ہاکربرادری وسےع وعرےض اورتمام سندھ مےں پھےلی ہوئی ہے بلکہ ان کے چھوٹے بھائی سےدافضال احمدشاہ چونکہ آل پاکستان اخبارفروش فےڈرےشن کے بانی عہدےداررہے ہےں،لہٰذاان کااپنی ہاکربرادری سے رشتہ ناطہ بہت مستحکم تھااورہے اورملک گےرشناخت کاحامل رہاہے،سےدافضال احمدشاہ اگرچہ علالت کے سبب اب گھر تک محدودرہتے ہےں لےکن الحمدللہ ابھی حےات ہےں، سےدمشتاق احمداورسےدافضال احمدشاہ کی ہاکربرادری کاورثہ اب ان کی نوجوان نسل کومنتقل ہوچکاہے۔
سےدمشتاق احمدسے مےرے دوتعلق اےسے ہےں کہ اگرمےں ان کی داستان حےات نہ لکھتااورنہ چھاپتاتب بھی وہ مےرے اورمےں ان کے دل کے قرےب رہتا،اےک تعلق توےہ ہے کہ جب 1973ءسے قبل مےرے والدےن اورداداوسط شہرمےں سےنٹ بوناونچراسکول کے سامنے اسٹےشن کوجانے والی مرکزی سڑک کی گلی مےں رہائش پذےرتھے اورجب مےں1960ءکے آغازمےں اسکول اورپھرکالج مےں پڑھتاتھاتوخودسےدمشتاق احمدسائےکل پرہمارے گھراخباردےنے آتے تھے ، پھرےہ ذمہ داری افضال احمدشاہ نے اداکی، اور دونوں صاحبان کو اخبار کا ماہوار بل مےں ہی اپنے داداسے پےسے لےکراداکرتاتھا جوکبھی کبھی چھ چھ ماہ کاہوتاتھا۔دوسراتعلق ےہ بناکہ جب سےدمشتاق احمدنے پکھاپےرفلےٹس مےں اوقاف سے اس کی نوتعمےر عمارت کاچھوٹاساکمرہ لے کردفترقائم کرنے کاارادہ کےاتومےں نے ہی اوقاف کی نےلامی مےں نمائندہ ”جسارت“کی حےثےت سے انہےں دفترالاٹ کرانے مےں معاونت کی ، ےہ حسن اتفاق ہے کہ بعد ازاں ”جسارت“ کے نےوز پےپراےجنٹ بھی سےدمشتاق احمدبنے بلکہ آج تک ہےں۔ ”جسارت“چونکہ اسپورٹس کی خبروںکی عمدہ کورےج کرتاتھا، لہٰذاافضال احمدشاہ سے مےری دوستی اس تعلق سے بھی بنی،وہ اےک اسپورٹس آرگنائزرکی حےثےت سے پورے حےدرآبادمےں پہنچاجاتے تھے اورلطےف آبادنمبر10کے مےدان سے تجاوزات ختم کرانے کی مہم اوراسے کھےل کامےدان تسلےم کرانے مےں افضال احمدشاہ کی جدوجہدبے مثال رہی۔ شاےداسی لیے ےہ مےدان ان کے نام سے ”افضال گراو¿نڈ“کہلاےا اورانہےں اپنی زندگی مےں ہی محنت کاصلہ مل گےا۔
28نومبرکواسی افضال گراو¿نڈپرسےدمشتاق احمدکی نمازجنازہ اداکی گئی، اگرچہ افضال احمدشاہ کواےم کےواےم نے ٹکٹ دے کررکن صوبائی اسمبلی بنواےااورخدمت خلق فاو¿نڈےشن کے تعلق سے ان کی خدمات بھی حاصل کےں، لےکن افضال احمدشاہ مےری نظرمےں تےن حوالوں سے بہت بلند تھے اور ہےں۔ پہلا حوالہ ےہ کہ ان کے بڑے بھائی انوارحسےن پاکستانی قےام پاکستان کے وقت سے اےک سچے پکے اوربے لوث مسلم لےگی رہے اور1947ءسے بھٹودورتک ہربڑامسلم لےگی ان کی قدرکرتاتھا، وہ آخردم تک سائےکل پرسفرکرنے والے اورجناح کےپ لگاکرتقارےب مےں جانے والے مسلم لےگی رہے، دوسراحوالہ ےہ کہ سےدافضال احمدشاہ نے نہ صرف حےدرآبادکے اخبارفروشوں کے لیے بنےادی تنظےم سازی کاکام کےا بلکہ پورے پاکستان کی بنےاد پراس محنت کش طبقے کومنظم کےا،تےسراحوالہ ےہ کہ وہ بہترےن اسپورٹس آرگنائزرتسلےم کئے جاتے تھے، لہٰذامےرے نزدےک رکن صوبائی اسمبلی ہوناثانوی حےثےت کاحامل تھا۔
سےدمشتاق احمدکے گھرانے کاتعلق ےوپی ضلع بداےوں کے علاقے سےوان سے تھااورجب اس گھرانے نے ہجرت کی توسےدمشتاق احمدکے والدکاانتقال ہوگےاتھا، ان کے والد سےد ذکی احمد ہندوستان مےںکرےانہ کی دکان کے مالک تھے،ان کاانتقال جب1938ءمیں ہوا تواُس وقت سےدمشتاق احمددوسال کے تھے، سےدذکی احمدکی اولادمےں پانچ بےٹے انوارحسےن، نقی احمد، تقی احمد، مشتاق احمداورافضال احمدجبکہ اےک بےٹی تھی۔
انوارحسےن پاکستانی کا12ستمبر1983ءکواورسےدنقی احمدکا10نومبر1996ءمےں انتقال ہوچکا ہے، اب سےدتقی احمد اور سےد افضال احمدشاہ حےات ہےں، تاہم اس خاندان کی دوسری اورتےسری نسل کے نوجوان نےوزپےپرزکی تقسےم، ترسےل اور ہاکرز کے ذرےعہ فروخت کاوسےع کاروبارسنبھال چکے ہےں۔
سےدمشتاق احمدکی اکلوتی بہن کی شادی دہلی مےں جبل پورکے اےک تعلےم ےافتہ خاندان مےں ہوچکی تھی اوران کے بہنوئی علی سعےدعباسی جوعلیگڑھ مےں انگرےزوں کواردوپڑھاےاکرتے تھے، پاکستان بننے کے بعدکراچی مےں بےنک مےں ملازم ہوئے، علی سعےدعباسی کے والد اور بھائی وکےل تھے ، 1984ءمےں سےدمشتاق احمدکی بہن کاحےدرآبادمےں انتقال ہوگےا، اس کے بعدبہنوئی بھی اللہ کوپےارے ہوگئے۔
قےام پاکستان کے بعدجب انوارحسےن پاکستانی نے اپنے بھائےوںکے ساتھ اخبارات کوذرےعہ روزگاربناےاتووہ روزنامہ ”خورشےد“ اور روزنامہ”انجام“کے نےوزپےپراےجنٹ رہے، انوار حسےن پاکستانی کی اولادمےں11بچے(7بےٹے اور 4 بےٹےاں) تھے۔ ان کے چاربےٹے رضا الانوار، بدراحمدراہی، ابرارشاہ اوراحمدضےاءانتقال کرچکے ہےں، بدراحمدراہی طالب علم لےڈررہے، پھربےنک مےں ملازم ہوئے تووہاں ےونےن مےں سرگرم ہوئے، ان کی شادی سےدمشتاق احمدکی بےٹی سے ہوئی تھی، احمدضےاءنےوزپےپراےجنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر وادےب بھی تھے اورانہوں نے اپنے والدکی زندگی پر”شناخت“کے نام سے1997ءمےں عمدہ کتاب بھی مرتب کی تھی جبکہ ان کی شاعری اورافسانوں کی دوسری کئی کتابےںبھی شائع ہوئےں۔
نقی احمدکی اولادمےں بےٹے پےدائش کے وقت ہی فوت ہوگئے تھے،جبکہ اےک بےٹی کاانتقال ہوچکاہے اور 4 بےٹےوں مےں سے 2 بےٹےاں انوار حسےن پاکستانی کی بہوہےں۔
تقی احمدکی اولادمےںدوبےٹے اوراےک بےٹی ہےں، سےدتقی احمدنے جوالحمد اللہ حےات ہےں سندھی کتابوں کی اشاعت اورفروخت کے کام سے پورے سندھ مےں نام کماےا، اب ان کے دونوں بےٹے اکبر اورمسعودبھی اخبارات ورسائل کی اےجنسی کاکام عمدگی سے کررہے ہےں، اکبرکی شادی سےدمشتاق احمدکی بےٹی سے اورمسعودکی شادی اپنے ماموںکی بےٹی سے ہوئی ہے۔
سےدمشتاق احمدکی اولادمےں4بےٹے اور 5 بےٹےاں ہےں، سےدمشتاق احمد کی شادی1957ءمےں اپنے تاےا رےاض احمدکی بےٹی سے ہوئی تھی،جن کا1993ءمےں انتقال ہوچکا ہے۔
سےدمشتاق احمدنے پاکستان آنے کے بعدنامساعد حالات کے سبب جعفری انسٹیٹےوٹ گاڑی کھاتہ مےں تعلےم حاصل کرکے 1955-56 مےں کراچی سے مےٹرک کاامتحان دےاتھا مگروہ مےٹرک پاس کرکے کالج کی تعلےم سے آشنا نہ ہوسکے، ےاروزگارکے مشکل مراحل نے اس کاموقع ہی نہ دےا۔ تاہم ان کے چاروں بےٹے فاروق،شعےب، اوےس اورشارق نے گرےجوےشن کےاہے مگرتمام کے تمام بےٹوں نے ذرےعہ روزگارکوئی دوسرااختےارنہےں کےااوروراثت کے مطابق اخبارات ورسائل کی اےجنسی کاکام سنبھالے ہوئے ہےں، سےدمشتاق احمد کے تمام بےٹوں اوربےٹےوں کی شادیاںہوچکی ہےں، بڑی بےٹی کی شادی ان کے بڑے بھائی کے بےٹے بدراحمدراہی(اب مرحوم)سے ہوئی تھی، جبکہ دوبےٹےوںکی شادی چھوٹے بھائی افضال احمدشاہ کے بےٹوں عامرافضال اورطاہرافضال سے ہوئی ہے، اےک بےٹی کی شادی دوسرے بڑے بھائی کے بےٹے اکبرتقی سے ہوئی ہے،اےک بےٹی کی شادی مشتاق احمدکی خالہ کے بےٹے حامد علی سے ہوئی۔
افضال احمدشاہ کی اولاد مےں 6 بےٹے (عارف، عامر، عرفان ، عمران،صداقت اورطاہراوراےک بےٹی ہے، افضال احمدشاہ کی بےٹی اپنے تاےامشتاق احمد کی بڑی بہواورفاروق مشتاق کی اہلےہ ہےں۔جبکہ افضال احمدشاہ کے دوبےٹے عامراورطاہراپنے تاےامشتاق احمدکے دامادہےں، افضال احمدشاہ کے اےک بےٹے صداقت کی شادی بدراحمدراہی کی بےٹی اورمشتا ق احمدکی نواسی سے ہوئی ہے۔
ایک موقع پر اس سوال کے جواب مےں کہ”پرنٹ مےڈےاکامستقبل کےاہے؟“
سےدمشتاق احمدنے فوراًہی اس حقےقت کااظہارکردےاکہ کم از کم سندھ توتارےک ہوگےا ہے، صرف پنجاب مےں ابھی اخبارات کامستقبل کسی حدتک باقی ہے۔
پھرمشتاق بھائی بتانے لگے کہ اب نوبت ےہ آگئی ہے کہ نےوزپےپراےجنٹس سے خوداخبارات کے مالکان کہتے ہےں کوئی دوسراکام بھی کرلوتاکہ گزر بسر ہو سکے….اس زوال اورانحطاط کی وجہ ان کے نزدےک ٹی وی چےنلزہےں اوراےک خبراتنی بارنشرہوتی ہے کہ سننے والے کوحفظ ہوجاتی ہے، لہٰذااخبارمےں خبرپڑھنے کی ضرورت نہےں رہتی اورمزہ بھی ختم ہوجاتاہے۔
مےں نے پوچھاکہ آپ کے خےال مےں اخبارات ورسائل کے عروج کازمانہ کون ساتھا؟….1970ءکے انتخابات کازمانہ ےا1977ءکے انتخابات اورپی اےن اے کی تحرےک کازمانہ؟
توسےدمشتاق احمدنے کہا کہ مےں سمجھتاہوں کہ1970ءسے زےادہ 1977ءمےں اخبارات کی اشاعت بڑھ گئی تھی اور1977ءکی خاص بات ےہ ہے کہ سےاسی جرائدکی فروخت قابل رشک تھی۔
جس طرح اےوب خان کے دورمےں لاہورسے آنے والا”نوائے وقت“دوسرے دن بھی بک جاتاتھااورلوگ انتظارکرتے تھے، اسی طرح 1971ءکے بعدبھٹودورمےں”جسارت“کی فروخت قابل رشک تھی اورےہ سندھ کابے حدمقبول اخبارہوگےاتھا،جب مےں نے”جسارت“کی اےجنسی لی تو25ہزارروپے اےڈوانس دےئے تھے، جواُس زمانے مےں بڑی خطےررقم تھی، مشتاق بھائی نے بتاےاکہ جب اچھے اچھے رسالوںکی قےمت اےک روپے سے کم ہوتی تھی۔ ”اخبارجہاں“60پےسے کاتھاجبکہ آج50روپے کاہے۔اسی طرح الطاف حسن قرےشی اورمجےب الرحمن شامی نے”زندگی“اور اس کی بندش کے بعددوسرے ہفت روزہ جرےدے نکالے تو60پےسے قےمت ہواکرتی تھی اورہرتعلےم ےافتہ سےاسی شخص اخبارکے ساتھ جرےدہ بھی خرےدتاتھا۔
سےدمشتاق احمدنے بتاےاکہ1974ءمےں انہےں سب سے پہلے سندھی اخبار”ہلال پاکستان“کی اےجنسی ملی جس کے سرکولےشن منےجراشوک تھے، ”ہلال پاکستان“پےپلزپارٹی کااپنااورترجمان اخبارتھا۔
اس کے ساتھ ہی انہےں”مساوات“کی اےجنسی ملی جواردومےں پےپلزپارٹی کاترجمان اخبارتھا۔ پھرانہےں”امن “اوراس کے بعد”نوائے وقت“اور”جسارت“کی اےجنسےاںمل گئےں۔
پھر1990ءکی دہائی مےں”جرا¿ت “کی پورے سندھ کے لیے اےجنسی ملی جواِس وقت سندھ مےں اردوکامقبول اخبارہے۔
الحمدللہ مشتاق احمدآٹھ مرتبہ عمرہ کرچکے ہےں اوردومرتبہ انہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے، آخری ایام میں ان کی سماجی زندگی مےں دلچسپی کامحوران کے پوتے پوتےاں، نواسے اورنواسےاںتھے۔
(8نواسے اور13نواسےاںہےں،ان مےں سے7نواسےوںکی شادےاں ہوچکی ہےں،10پوتے اور4پوتےاں ہےں)۔
مےں نے گفتگوکی آخری نشست مےں سےدمشتاق احمدسے پوچھا کہ خوشی کاکوئی اےساواقعہ جسے آپ بھلانہ سکے ہوں؟….اوررنج کاکوئی اےسالمحہ جس کی کسک آج تک موجودہو؟
سےدمشتاق احمدنے کہاکہ مےرے لیے 1983ءمےں والدہ کے انتقال کامرحلہ رنج کاناقابل فراموش واقعہ ہے، پھر1993ءمےں مےری اہلےہ کاجداہوجانابھی مےرے لیے اےک کسک بن گےا، جبکہ اطمےنان اورخوشی اس بات پرہے کہ تمام کے تمام9بچوں کی شادےاںہوگئےں اوران کے گھربس گئے….سےدمشتاق احمدنے کہا کہ ”قومی اخبار“کے بےوروچےف الطاف داو¿دکے ساتھ مےں اپنی رفاقت کاتذکرہ بھی کرناچاہتاہوں،وہ بہت خوبےوں کے مالک شخص تھے مگرنوجوانی مےں ہی ان کاانتقال ہوگےا،مےری خواہش تھی کہ الطاف داو¿دکے ساتھ مےں عمرہ کروں لےکن افسوس ےہ خواہش پوری نہ ہوسکی،اُن کےساتھ گزارے ہوئے کئی برس مےں آج بھی اچھے لفظوںسے ےادکرتاہوں۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں