پولیو ہی پر اتنی محنت کیوں؟
شیئر کریں
مفتی صاحب گل
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں غربت، تعلیم اور صحت کے فقدان اور معاشرتی کمزوریوں کے علاوہ شوگر،بلڈپریشر، ہیپاٹائٹس ، خسرہ ، ملیریا،گردن توڑبخارسمیت بیماریاں تو اور بھی بہت ہیں لیکن صرف پولیو پراتنی محنت کیوں؟ ”پولیو “کو زیادہ اہمیت دینے کی کئی وجوہات ہیں :
چیچک (Small Pox ) کے بعد دنیا میں دوسری بڑی بیماری ”پولیو“ ہے جو دنیا سے ختم ہورہی ہے۔ اس سے پہلے چیچک کی بیماری کے بارے میں بھی لوگ اسی قسم کے غلط فہمیوں کے شکار تھے لیکن گھر گھر مہم کے بعد دنیا سے مکمل طور پر اس بیماری کا خاتمہ ہوگیا۔ حالانکہ اس بیماری سے لوگ اتنے ڈرگئے تھے کہ کہا جاتا تھا کہ یہ بیماری تو قبر میں بھی کسی کو نہیں چھوڑتی۔ اب ”پولیو“ دنیا میں دوسری بڑی بیماری ہے جو مکمل طورپر ختم ہونے جارہی ہے کیونکہ پولیو وائرس عام ماحول یا کھلی فضا ءمیں زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔ اس کی افزائش کی جگہ صرف اور صرف انسانی بدن ہے لہٰذا اگر ویکسین کی مددسے اس کی افزائش والی جگہ یعنی انسانی بدن کو بھی محفوظ کردیا جائے تو یہ مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ اس پر زیادہ توجہ اس لیے بھی دی جارہی ہے کہ یہ بیماری دنیا سے ختم ہونے کے آخری مراحل میں ہے بخلاف دوسرے امراض مثلاً ملیریا، ٹی بی وغیرہ کہ ملیر یا کی وجہ وہ مچھر ہے جس میں ملیریا کے جراثیم ہوتے ہیں ، لہٰذا اگر ہم ہزار جتن کریں تو ہم کتنے مچھروں کو ماریں گے؟ اس لیے یہ بات ذہن میں رکھےں کہ ملیریا ختم نہیں کیا جاسکتا، کنٹرول کیا جاسکتاہے اس طرح ٹی بی وائرس کی افزائش جانوروں میں ہوتی ہے لہٰذا ہم کتنے جانور مارسکیں گے ؟یہی حال دیگر امراض کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”پولیو“ سے مکمل خاتمے کے بعد یہ سارے فنڈز اور خرچے دیگر وبائی امراض پر خرچ ہوں گے جس سے دیگر امراض سے بھی بچاو¿ ممکن ہوسکے گا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حکومت صرف ”پولیو“مہم ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ دیگر آٹھ جان لیوا بیماریوں ٹی بی ، خناق، کالی کھانسی ، تشنج، ہیپاٹائٹس ، گرد ن توڑبخار، نمونیہ اور خسرہ کے خلاف بھی مہم چلارہی ہے اور چھوٹے بڑے ہسپتالوں سمیت تمام مراکز صحت پر یہ سہولت مفت دستیاب ہے لہٰذا یہ کہنا مناسب نہیں کہ پولیو کے علاوہ دوسرے امراض پر کام نہیں ہورہا ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی رفاہی اداروںکے ساتھ حکومت نے صرف اور صرف”پولیو“ کے خاتمہ کا معاہد ہ کیا کیونکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں پولیو وبائی شکل اختیار کرچکاتھااوراس وقت پاکستان میںپولیو سے متاثر ہ بچوں کی تعداد 20 سے 25 ہزار تھی جو دیگر تمام امراض کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی لیکن اس مہم اور ویکسین سے یہ تعداد رفتہ رفتہ گھٹ کرجولائی 2016ءتک 13رہ گئی ۔
اب تک بیماری نہ ختم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت سوفیصد بچوں تک پہنچ ہی نہیں پارہی ہے اگر انتظامیہ سوفیصد بچوں تک پہنچ گئی تویہ بیماری مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا کے ممالک نے اربوں روپے لگاکر اس بیماری کا خاتمہ کیا ہے اب اگر دوبارہ یہ وائرس اُن کے ہاں پہنچ گیا تو ان کیلئے مزید خطرہ کا سبب بنے گا اور پھر دوبارہ یہ ساری تکلیفیںاُٹھانی پڑیں گی؛ اس لئے وہ تمام ممالک پاکستان پرزور ڈال رہے ہیں کہ ہر حال میں اس بیماری کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ تمام ممالک یہ قانون سازی کرنے پر تُلے ہیں کہ جن ممالک میں پولیو کے جراثیم موجود ہیں ان پر سفری پابندیاں عائد کردی جائیں۔ لہٰذا اگر پاکستان پر پابندی لگائی گئی تو نہ کوئی عمرے پر جاسکے گا اور نہ حج پر ، اور نہ بیرونی ملک تجارت اور مزدوری کے لیے،جس سے ملک کا سارانظام درہم برہم ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم سے لے ادنیٰ ملازم تک سب اس کے خاتمے کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں اور پاکستان کے نونہالان کا بھی یہ حق ہے کہ وہ عمر بھر کی معذوری کا باعث بننے والی اس موذی بیماری سے بچایا جائے یہ ہر پاکستانی کا انسانی ، اخلاقی مذہبی اور معاشرتی فریضہ ہے کہ وہ پولیو کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کریں۔