میڈیا کی آزادی پر جارحانہ حملہ
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
گزشہ منگل کو دہلی پولیس نے ‘نیوزکلک’ سے وابستہ صحافیوں کے پچاس ٹھکانوں پر چھاپہ مار کارروائی انجام دی اور وہ الیکٹرانک آلات ضبط کرلیے جن کے ذریعہ صحافی سچی خبروں کی ترسیل کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ان میں سے کئی سرکردہ صحافیوں کو دہلی پولیس اپنے ساتھ لے گئی اور دیر شام تک ان سے پوچھ تاچھ کرتی رہی۔ ان سے شاہین باغ احتجاج، کسانوں کی تحریک اور دوسرے عوامی مظاہروں سے متعلق تیکھے سوالات پوچھے گئے ۔ حکومت کا کہناہے کہ ‘نیوزکلک’ چین سے حاصل شدہ غیرقانونی فنڈنگ کے تحت کام کرتا ہے ۔ اسی لیے دیر شام ‘نیوز کلک ‘کے دفتر کوسیل کرکے اس کے 76 سالہ بانی ایڈیٹرپربیرپورکائستھ اوراور ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کی گرفتاری غیرقانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت عمل میں آئی ہے ۔
‘نیوزکلک’ دراصل صحافت کی آبرو بچانے والا آن لائن نیوز چینل ہے ، جس سے ملک کے بیشتر وہ صحافی وابستہ ہیں، جن کا قومی ذرائع ابلاغ نے گلا گھونٹ کررکھ دیا ہے ۔ ان میں ابھیسار شرما، ارملیش ارمل اور بھاشا سنگھ جیسے نام شامل ہیں،جو اس وقت ملک میں بے خوف صحافت کی آبرو سمجھے جاتے ہیں اور ہر وہ بات عوام تک پہنچانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، جسے حکمران وقت عوام سے چھپانا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سچ کا جو راستہ اختیار کیا ہے ، اس کے لیے انھیں داد دی جانی چاہئے اور انعام واکرام سے نوازا جانا چاہئے ، لیکن حکومت وقت نے ان کے خلاف جومقدمہ قایم کیا ہے ، اس میں یو اے پی اے جیسے قانون کی ایسی دفعات شامل کی گئی ہیں، جو وطن دشمنوں کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں۔ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ صحافت کی آبرو بچانے والوں کو وطن دشمنی کے الزامات کا سامنا ہے ۔ اس وقت ملک میں محب وطن وہی ہے جو حکمران وقت کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور جو کوئی حکومت سے اختلاف یا اس کے کاموں پر تنقید کرتا ہے ، اسے کسی ثبوت کے بغیر وطن دشمن ثابت کردیا جاتا ہے ۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ‘نیوزکلک ‘ کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ۔ اس سے پہلے فروری 2021ں بھی ای ڈی اور محکمہ انکم ٹیکس نے ‘نیوزکلک’ کے دفاتر پر چھاپے مارے تھے ۔ اس وقت بھی الزام یہی تھا کہ اس نے غیرملکی فنڈنگ حاصل کی ہے ۔ تازہ کارروائی ای ڈی کی طرف سے گزشتہ17اگست کو درج کی گئی ایف آئی آر کی بنیاد پر کی گئی ہے ، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ‘نیوزکلک’ نے امریکہ کے راستے چین سے غیرقانونی رقومات حاصل کی ہیں۔ اس سلسلے میں ‘نیوزکلک’ نے جو وضاحتی بیان جاری کیا ہے ، اس میں اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس کارروائی کو آزاد اور غیرجانبدار صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف قراردیا گیا ہے ۔ اس سلسلہ میں صحافیوں کی تمام سرکردہ تنظیموں نے بھی’نیوزکلک’اور اس سے وابستہ سرکردہ صحافیوں کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے اور اس معاملے میں چیف جسٹس آف انڈیا سے مداخلت کی اپیل کی ہے ۔ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے سینئر صحافیوں کی رہائش گاہوں پر چھاپہ ماری اور اس کے نتیجے میں ہوئی گرفتاریوں پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ”یہ چھاپے ماری میڈیا کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے ۔ گلڈ نے یہ بھی کہا کہ قانون کو اپنا کام کرنا چاہئے لیکن ایسا ماحول پیدا نہیں کیا جانا چاہئے ، جس سے صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جائے ۔گلڈ نے حکومت کو یاددہانی کرائی ہے کہ ایک فعال جمہوریت کے لیے آزاد میڈیا کا وجود لازمی ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ صحافت کا بنیادی کام عوام کو حقیقت سے روشناس کرانا ہے ۔ ہمارے ملک میں تو اس کی اہمیت یوں بھی زیادہ ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے باسی ہیں اور صحافت جمہوریت کاچوتھا ستون ہے ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جب سے ملک میں نئے حکمراں آئے ہیں انھوں نے صحافت کے معنی ہی بدل کررکھ دئیے ہیں۔ آج کے دور میں سوال کرنے والاسب سے بڑا دیش دروہی ہے ۔اسی لیے ملک میں ایک ایسا میڈیا وجود میں آچکا ہے جو نہ صرف یہ کہ خود کوئی سوال نہیں پوچھتا بلکہ سوال کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے ۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ عزت مین اسٹریم میڈیا کے نیوزچینلوں نے گنوائی ہے جو ملک میں ہر وقت فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دیتے ہیں اور مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ گودی میڈیا کے ان چینلوں کو دیکھ کر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا واحد کام ملک کے اندر ہندومسلم منافرت کو فروغ دینا اور جھوٹی خبروں کی ترسیل کرنا ہے ۔
حقیقت پسند لوگ اس صورتحال سے خاصے بیزار ہیں اور ان کے دلوں میں متبادل میڈیا نے اپنے لیے جگہ بنائی ہے ۔ ‘نیوزکلک’ ایسے ہی آن لائن نیوزچینلوں میں سے ایک ہے ، جو حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں۔اس سے وہ تمام صحافی وابستہ ہیں جنھوں نے ابھی تک ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔’نیوز کلک’ جیسے آن لائن چینلوں کی مقبولیت اور ہردلعزیزی کا راز یہی ہے کہ وہ صحافت کی اعلیٰ قدروں کی ترجمانی کرتے ہیں اور سچائی کا پرچم بلند کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے حکومت پر ان کا وجود بھاری ہے اور وہ ان کا گلا گھونٹنے کے لیے بے چین نظر آتی ہے ۔ بے باک، بے لاگ اور بے خوف صحافت سے وابستہ صحافیوں کے ٹھکانوں پر مارے گئے چھاپے حکومت کی گھبراہٹ اور بے چینی کا ہی ثبوت ہیں۔’نیوزکلک’ جیسے آن لائن چینلوں کی شمولیت اس ملک کے مین اسٹریم میڈیا میں پانچ فیصد کے قریب ہے ۔ باقی ٥٩ فیصد مین اسٹریم میڈیا ہر وقت حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے ۔ افسوس کہ حکومت اپنے آپ پر تنقید کرنے والی اس محدود آواز کو بھی برداشت نہیں کرپارہی ہے ۔
نیوز کلک کے خلاف کارروائی اور سرکردہ صحافیوں کو ہراساں کئے جانے کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے بھی مشترکہ آوازاٹھائی ہے ۔ کانگریس لیڈر ششی تھرور کا کہنا ہے کہاتنی مضبوط سرکار کو ایک نیوز پورٹل سے خطرہ کیوں محسوس ہوتا ہے ؟ سرکار نے اس کارروائی سے خود کو اورجمہوریت کو بے عزت کیا ہے ۔”سی پی ایم لیڈر سیتا رام یچوری کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف کارروائی فردکی آزادی کے بنیادی حق پر حملہ ہے ۔ یہ صرف بے لگام ہی نہیں بلکہ فسطائی کارروائی بھی ہے ۔اپوزیشن اتحاد ‘انڈیا’ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی سرکار کی کارروائی اقتدار کے سامنے سچ بولنے والوں کے خلاف ہے ۔ یہ کارروائی نفرت اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف نہیں ہے۔ جس وقت ان صحافیوں کو حراست میں لے کر دہلی پولیس کی اسپیشل سیل گہری پوچھ تاچھ کررہی تھی اور اس کی خبریں آرہی تھیں تو دوپہر میں دہلی اور اس کے آس پاس زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے ۔ زلزلے آتے رہتے ہیں اور یہ انسان کے اپنے وجود کے متزلزل ہونے کا اعلان
ہوتے ہیں۔ جو کوئی بھی طاقت وریا اقتدار میں ہے اور اپنے ہمیشہ اقتدارمیں رہنے کا یقین رکھتا ہے ، یہ زلزلے دراصل اس کے لیے ایک وارننگ کی طرح ہوتے ہیں، جو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ اس دنیا میں سب کچھ ناپائیدار ہے ، اور یہاں کی کسی بھی شے پر غرور اورگھمنڈانسان کو ملیا میٹ کرنے کے لیے کافی ہے ، خواہ وہ بے لگام اقتدار ہی کیوں نہ ہو۔شاید منگل کی دوپہر کا زلزلہ یہی پیغام لے کر آیا تھا۔کاش حکمران وقت اس حقیقت کو سمجھ پاتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔