زمستاں کی بارش میںبھیگتے ہوئے ہم لوگ
شیئر کریں
خالد مسعود خان واقعی ایک اُستاد آدمی ہے ،مگر وہ پڑھا لکھا اُستاد نہیں جو کسی مدرسہ ،اسکول ، کالج یا یونیورسٹی میں اپنے شاگردوں کو مرئی یا غیر مرئی مولابخش کی مار، سے ڈرا ، دھمکا کر نصابی کتابیں ازبر کراتا ہے۔ بلکہ خالد مسعود خان تو چٹا اَن پڑھ یا واجبی سی تعلیم رکھنے والے اُس سیدھے سادھے استاد کی مانند ہے جو ہمارے ملک کے ہر چھوٹے بڑے قصبہ ،دیہات یا شہر کی کسی گلی نکڑ پر واقع خستہ حال چھوٹی سی دُکان میں،میلے کچیلے لباس میں ملبوس اپنے گندے سندے ہاتھوں سے سامنے پڑی ہوئی ناکارہ مشین کے کل پرزے درست کررہا ہوتاہے۔جیسے ہمارے یہاں گلی محلے کا بھولا بھالا اُستاد اپنی کمال سادگی اور بے مثال جگاڑی ہنر مندی سے اپنے گاہک کی ناکارہ سے ناکارہ مشین کو بھی درست اور کارآمد بنا کر ہی دم لیتا ہے۔
بالکل ویسے ہی خالد مسعود خان نے بھی شعر کو اپنے ذہن رسا کی بھٹی سے گزار کر اُردو اَدب کے تمام کل پرزے سیدھے کرنے والے ایک ایسے اوزار میں بدل دیا ،جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اُردو شاعری کو نٹ کھٹ اور چلبلے اشعار ڈھالنے والی ٹکسال بنا دیا ہے۔ یاد رہے کہ خالد مسعود کے شعری اُفق پر نمودار ہونے سے پہلے اُردو اَدب خاص طور پر شاعری کی صنفِ نازک میں اجنبی اور نامانوس الفاظ کا داخلہ اہلِ زبان کے نزدیک سخت ممنوع ہی نہیں بلکہ اچھے شاعر کی شعر دانی اور شعر فہمی کے لیے باعث ننگ و عار بھی سمجھا جاتاتھا۔ لیکن خالد مسعود خان نے اُردو شاعری کے ارد گرد قائم کردہ زبان و بیان کی بلند و بالا فصیل کو پھلانگتے ہوئے اپنی مزاحیہ شاعری میں انگریزی ، پنجابی اور سرائیکی زبان کے معروف ، غیر معروف اور متروک الفاظ کو اِس کمال مہارت سے ’’فٹ فاٹ ‘‘ یا ’’ٹانک ‘‘دیا کہ اُردو کے بڑے بڑے ماہر لسانیات بھی اُن کی مزاحیہ شاعری کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ بلکہ اَب توکلکتہ اور لکھنو والوں کو بھی رفتہ رفتہ اُردو کے لشکری زبان ہونے کی روایت پر یقین آنے لگا ہوگا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے اُردو مشاعرہ کی جس تقریب میں بھی خالد مسعود خان نے شرکت کی ، صدرِ مشاعرہ نہ ہوتے ہوئے بھی بلافصل’’میرِ مشاعرہ ‘‘ ہمیشہ وہ ہی قرار پائے۔ ہماری دانست میں اگر تھوڑی دیر کے لیے شاعری کے ساتھ ’’مزاحیہ ‘‘ کی پخ ہٹا کر ایک طرف بھی رکھ دی جائے ، تب بھی یقینا خالد مسعود ہی دورِ جدید میں اُردو کے مقبول ترین عوامی شاعر کہلانے کے صحیح حق دار ہوںگے۔ جس کا ایک سب سے بڑا ثبوت سماجی رابطوں کے مشہور ویب سائٹ یو ٹیوب پر لاکھوں بار دیکھے جانی والی اُن کی شعر خوانی کی وائرل ہونے والی ویڈیوز بھی ہیں۔
خالد مسعود خان کے شعری ہنر کی اس قدر تعریف و توصیف کرنے کے بعد بھی اگر آپ سے اِس بات پر اصرار کیا جائے کہ وہ درحقیقت شاعر سے کہیں زیادہ بڑے اور اعلیٰ پائے کے نثر نگار اُبھر کر سامنے آئے ہیں تو کیا آپ خاکسار کے اس دعوی پر یقین کریں گے؟۔عین ممکن ہے کہ قارئین کی اکثریت کا جواب بہت بڑی سی ’’ناں ‘‘ میں ہی ہو۔ لیکن یہ ’’ناں ‘‘ اُس وقت ’’ہاں ‘‘ میں بدل جائے گی، جب آپ بھی میری طرح صرف ایک بار ،خالد مسعود خان کی منصہ شہود پہ آنے والی نئی کتاب ’’زمستاں کی بارش ‘‘ میں شامل چند مضامین کا مطالعہ فرمالیں گے۔ واضح رہے کہ ’’زمستاں کی بارش‘‘ خالد مسعود خان کے قومی اخبار میں ہفتہ وار شائع ہونے والے،اُن نادر و نایاب اور چنیدہ کالموں کا مجموعہ ہے ، جس میں موصوف نے ’’اخباری نثر ‘‘ پر ’’ادبی نثر ‘‘ کی ایسی ملمع سازی فرمائی ہے کہ کالم جیسی خشک ، ادق اور خالص صحافتی صنف پر ادبی نثر کے ایک شاہ کار ،شہ پارے کا گمان ہونے لگتا ہے۔
میرے خیال میں ’’زمستاں کی بارش ‘‘ کی سب سے خاص بات یہ ہی ہے کہ اس کے اسلوب پر کوئی خاص تحریر ی آہنگ یا مخصوص نثری رنگ غالب نظر نہیں آتا ۔بلکہ یہ کتاب تو بہترین و لاجواب نثر کی ایک ایسی ’’شب دیگ ‘‘ کی مانند ہے ۔جس میں ہر طرح کے قاری کی ذہنی و نفسیاتی ، ذوق کی تشفی کے لیے لذت کام و دہن وافر مقدار میں موجود ہے۔ مثلاً اس کتاب میں پاکستانی سیاست کی گھمن گھیریاں بھی ہیں اور ہمارے سماج میں پائی جانے والی خوبیوں ، خامیوں اور کمزوریوں کا بے باک اور سفاک منظرنامہ بھی ہے ، نیز اچھی شاعری کے دلدادہ افراد کے لیے کتاب میں جابجا ،موضوع کی مناسبت سے برمحل اعلیٰ شعر وں کا جستہ جستہ انتخاب بھی کالم نگار کے خداد اد، شعری فہم کا غماز ی ہے۔اس کے علاوہ ’’زمستاں کی بارش ‘‘ میں دوستوں کی دوستیاں اور اُن کے حسد، رشک اور عداوتوں کے قصے بھی انتہائی توجہ سے پڑھنے کی چیز ہیں۔
دوسری جانب کتاب کے مطالعہ کے دوران کہیں تو صفحے کے صفحے رشتوں کی مٹھاس سے لبریز اور شرابور ہو جاتے ہیں تو کسی جگہ حاشیہ میں اچانک ہی خونی رشتوں کا پھیکا پن ، حسرت و یاس کی تصویر میں ڈھلنا شروع ہوجاتاہے۔ خالد مسعود خان نے بعض مضامین میں بین السطور اَن پڑھ،دیہاتی اور کمی کمین کہلانے والے چھوٹے لوگوں کی ایسی حکمت انگیز باتیں بھی لکھ دی ہیں، جنہیں ہم باآسانی ’’دانش ِ پاکستان ‘‘ یا ’’اقوال ِ زریں ‘‘ قرار دے سکتے ہیں ۔جبکہ اسی کتاب میں صاحب جاہ وحشم ،یا دولت ،اختیار اور علم کے نشے میں دھت رہنے والوں کی عامیانہ اور سطحی گفتگو کو رقم کرنے میں بھی ذرا ، مروت ،رعایت یا گریز سے کام نہیں لیا گیا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ’’زمستاں کی بارش ‘‘ پاکستانی سماج کو باریک بینی سے دیکھنے والا وہ محدب عدسہ ہے، جس کے ذریعے ہم اپنے معاشرے کی چھوٹی سی چھوٹی خوبی اور بڑی سی بڑی خامی کا،کامل تفصیل کے ساتھ مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ’’زمستاں کی بارش ‘‘ خالد مسعود خان کی صرف آپ بیتی ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کی محرومیوںکی چشم کشا ’’سیاست بیتی ‘‘ بھی ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ کتاب میں سیاست کے زیرِ عنوان شامل کیے گئے ہر مضمون میں قاری کو قومی مسائل سے زیادہ ملتان ،بہاول پور اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کے مقامی مسائل کا تذکرہ جابجا پڑھنے کو ملتاہے۔بلکہ خالد مسعود خان کے سیاسی کالموں کے مطالعے کے بعد باآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ اُن کے نزدیک قومی مسائل سے گلو خلاصی حاصل کرنے کا واحد طریقہ،بس! یہ ہی ہے کہ ارباب ِ حل و عقد سب سے پہلے ملک کے چھوٹے شہروں ، قصبات اور دیہات کی آبادی کو درپیش مختلف النوع مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔ساد ہ الفاظ میں یوں جان لیجئے کہ خالد مسعود کے کالموں مرکزی کردار فقط وہ غریب آدمی ہے ، جسے پاکستانی اشرافیہ کبھی بھی معاشرے میں کوئی تعمیری کردار دینے پر راضی نہیں ہوئی ، سوائے ’’ووٹر ‘‘کے۔
ہمارے اُستاد کہا کرتے تھے کہ کتاب فقط وہی پڑھنی چاہیئے ،جس میں پانچ خوبیوں میں سے کم ازکم کوئی ایک صفت بدرجہ اتم پائی جاتی ہو۔ یعنی کتاب دیکھنے کے لائق ہو، پاس رکھنے کے لائق ہو، پڑھنے کے لائق ہو، سمجھنے کے لائق ہو یا روزمرہ گفتگو میں حوالہ دینے کے لائق ہو۔ مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی نصیحت فرمادی تھی کہ یہ ساری خوبیاں کسی ایک کتاب میں شاذ و نادر ہی یکجا ہوتی ہیں۔اس لیے قاری کو جب کبھی خوش قسمتی سے کسی کتاب میں دو ،تین خوبیاں بھی اکھٹی دکھائی دے جائیں تو بلا جھجھک اُسے اپنی پسندیدہ کتاب کی فہرست میں شامل کرلینا چاہئے۔ اگر اُستاد کے اُصول کے مطابق ’’زمستاں کی بارش ‘‘ کو پرکھا اور جانچا جائے تو بلاشبہ خالد مسعود خان کی یہ کتاب اُردو زبان میں شائع ہونے والی اُن گنتی کی چند کتب میں سے ایک قرار دی جاسکتی ہے ، جس میں درج بالا پانچوں خوبیاں بیک وقت جمع ہیں ۔اس لیے اچھی کتاب پڑھنے والے ہر قاری کو ’’زمستاں کی بارش ‘‘ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔
بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا جس شخص کو کتاب پڑھنے سے بچپن سے ہی خدا واسطے کا بیر رہاہو، اُس کے ہاتھوں میں بھی اگر یہ کتاب فقط تھوڑی دیر کے لیے سہی، عاریتاً یا تحفتاً تھما دی جائے ، تو گمانِ واثق ہے کہ ایسا مستند’’ کتاب دشمن‘‘ شخص بھی ’’زمستاں کی بارش ‘‘ کی’’نثری برکت‘‘ سے بہت جلد مطالعہ کا عادی نشئی بن جائے گا۔ دراصل کتاب کے پبلشر، بک کارنر شورم ،جہلم کے روح رواں امر شاہد اور گگن شاہد نے اس کتاب کو چھاپا بھی بہت پیار، شوق اور اہتمام سے ہے۔خاص طور پر ’’زمستاں کی بارش ‘‘ کے سرورق پر خالد مسعود خان کو جس قدر بانکپن سے الٹراماڈرن، اندازِ میں بصورت ِ تصویر بٹھایا گیا ہے۔ ہماری دانست یہ مشکل وظیفہ تو خالد مسعود کے اپنے گھروالے بھی انجام نہیں دے سکتے تھے۔شایداِسی اندازِ نشست کے بارے شاعر نے کہا تھا کہ
مسکرا نہ مسکرا کر نہ دیکھو اسے
جان پڑ جائے گی میری تصویرمیں
خوب صورت سرورق اور عنوان کے علاوہ کتاب کے بارے میں لکھا گیا پس ورق فلیپ اور دیباچہ بھی ایک بار نہیں ، باربار پڑھنے کے لائق ہے بلکہ اگر یہ کہوں کہ ازبر کرنے کے قابل ہے تو اس جملہ میں ذرہ ،برابر بھی مبالغہ نہیں ہوگا۔ واقعی، امر شاہد نے ظاہری خوب صورتی کے لحاظ سے بھی کتاب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے ،جبکہ ’’زمستاں کی بارش ‘‘ کی باطنی حسن و دلکشی کے توکہنے ہی کیا ہیں ۔اگر اتنا کچھ جاننے کے بعد بھی کوئی شخص زمستاں کی بارش میں بھیگنے سے بچ جاتا ہے تو اُس کی اس محرومی پر سوائے افسوس کے پانچ حرف بھیجنے کے اور آخر کیا بھی کیا جاسکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔